پارلیمانی کمیٹی: امید کا پیغام

May 20, 2016

تنازعہ جتنا بھی بڑا ہو فیصلہ لڑائی بھڑائی سے نہیں ہمیشہ مذاکرات کی میز پرہوتا ہے اور یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ حکومت اور اپوزیشن تقریباً دوماہ کی لفظی جنگ کے بعد پاناما لیکس اور اس کے بطن سے جنم لینے والے دوسرے معاملات نمٹانے کے لئے بالآخر بات چیت کی طرف لوٹ آئی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت بدھ کو حکومت اور اپوزیشن کے نمائندوں کا اجلاس ہوا جس میں پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) طے کرنے کی غرض سے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے قیام پر اتفاق ہو گیا ہے 12 رکنی کمیٹی میں فریقین کے چھ چھ ارکان شامل ہوں گے کمیٹی دو ہفتے میں پارلیمنٹ میں اپنی رپورٹ پیش کردے گی جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گااجلاس میں تین بنیادی معاملات کی تحقیقات پر اتفاق ہوا ان میں پاناما آف شور کمپنیوں، قرضہ معافی اور کمیشن اور کک بیکس کے معاملات شامل ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کمیٹی کا دائرہ کار صرف پاناما لیکس میں آنے والے معاملات تک محدود نہیں ہو گا بلکہ لوگوں کے ٹیکس اور اور بچتوں کے پیسے کھانے والوں اور قرضہ خوروں سمیت کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں میں ملوث تمام افراد محاسبے کی زد میں آئیں گے کمیٹی جب تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا طریق کار اور ٹرمز آف ریفرنس طے کرے گی اور پارلیمنٹ سے اس کی منظوری حاصل ہو جائے گی تو یہ معاملہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھیجا جائے گا تجزیہ کاروں نے امید ظاہر کی ہے کہ پارلیمانی کمیٹی جس کی تجویز خود وزیراعظم نے اسپیکر کو دی تھی کے قیام سے پاناما لیکس پر حکومت اور اپوزیشن میں جاری کشمکش کے خاتمے میں مدد ملے گی حکومتی ٹی آر اوز میں جن معاملات کی تحقیقات کی تجویز دی گئی تھی ان میں 1۔ پاکستانی شہریوں، پاکستانی نثراد افراد اور قانونی اداروں کی آف شور کمپنیاں جو پاناما یا کسی بھی ملک میں ہیں 2۔ عوامی عہدوں پر تعینات سابق یا موجودہ افراد یا جن کے اہل خانہ نے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کے بنکوں کے قرضے معاف کرائے اور 3۔ جن لوگوں نے کمیشن اور کک بیکس سے حاصل کردہ رقوم ملک سے باہر بھجوائیں کے معاملات بھی شامل ہیں۔ پاناما لیکس میں پاکستان کی چار سو سے زائد سیاسی اور کاروباری شخصیات پر آف شور کمپنیوں کے ذریعے ٹیکس بچانے اور غیر قانونی طریقوں سے حاصل کی ہوئی دولت بیرون ملک منتقل کرنے کے سنگین الزامات ہیں ضرورت اس بات کی تھی کہ سیاسی پارٹیاں عوامی جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے ابتدا ہی میںیہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے جاتیں وہیں اپنے اپنے اعتراضات اٹھاتیں اور باہمی بات چیت کے ذریعے عدالتی کمیشن کے قیام اور اس کے ٹی او آرز کے معاملات طے کرتیں جیسا کہ اب کیا گیا ہے اس سے ملک دنیا بھر میں بدنام ہونے سے بچ جاتا اور اندرون ملک سیاسی انتشار بھی پیدا نہ ہوتاتاہم خرابی بسیار کے بعد جس طریق کار پر اتفاق کیا گیا ہے اس کے اچھے نتائج کے لئے تمام پارٹیوں کو نیک نیتی سے آگے بڑھنا ہو گا اس کے لئے مناسب ہو گا کہ کمیٹی کی کارروائی مکمل ہونے تک ساری پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف بہتان تراشی کی مہم روک دیں ایسا نہ کیا گیا تو نئے نئے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے جن کے اثرات کمیٹی کی کارروائی پر بھی پڑیں گے اور وہ یکسوئی سے اپنا کام نہیں کر سکے گی اس سے مشترکہ ٹی او آرز کی تشکیل میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں حکومت اور اپوزیشن کو پاناما لیکس سے پیدا ہونے والے موقع کو ملک سے ہر قسم کی کرپشن کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کا ذریعہ بنانا چاہئے ملک میں کرپشن سرمائے کی غیر قانونی منتقلی اور ٹیکس چوری روکنے کے لئے موجودہ مالیاتی نظام کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے حکومت اور اپوزیشن کو اتفاق رائے سے اس سمت میں موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ ملک اس وقت جن سنگین مسائل کا شکار ہے ان کی موجودگی میں محاذ آرائی کی بجائے قومی اتفاق رائے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے توقع ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مفاہمتی عمل جاری رکھ کر قوم کو مایوسی کی بجائے امید کا پیغام دیں گی۔