پاکستان

August 28, 2013

ضمنی الیکشنوں سے عین پہلے طالبان نے ہمیشہ کی طرح فتویٰ جاری کیا کہ ووٹ ڈالنے والے مرد یاعورت واجب القتل ہیں کیونکہ وہ کافرانہ جمہوری نظام کے پیروکار ہیں۔ اسی دوران موجودہ حکومت کے وزیر داخلہ سمیت دوسرے اکابرین طالبان کے ساتھ غیر مشروط مطالبات کے حق میں بیانات دے رہے ہیں۔ حکومتی یا فوجی رہنما عوامی رائے کو ہموار کرنے کیلئے جو بھی بیانات دیں بین السطور یہی کہا جا رہا ہے کہ تشدد کو ختم کرنے کیلئے ریاسی مشینری کا استعمال ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آخر کار تمام مسلح مزاحمتوں سے میدان جنگ میں ہی فیصلہ ہونا ہے یعنی یا تو ریاست کا خاتمہ ہو گا اور یا پھران عناصر کا جو اس کے نظام اور اس کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔
حکومت سنبھالنے سے پہلے وزیراعظم میاں نواز شریف طالبان سے محض مذاکرات کے ذریعے ہی قبائلی علاقوں میں جنگ ختم کرنے کی بات کرتے تھے لیکن حکومت میں آنے اور فوجی رہنماوٴں سے بہت سی بریفنگوں کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پہلی مرتبہ ریاستی طاقت استعمال کرنے کے امکان کا اعلان کیا۔ یہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ فوج پر یہ واضح ہے کہ طالبان کے ساتھ آخری حل مذاکرات کے ذریعے نکلنے کے بہت کم امکانات ہیں لیکن ظاہر بات ہے کہ فوج کوئی بڑا پُرخطر قدم سول حکومت اور سوسائٹی کی حمایت کے بغیراٹھانا نہیں چاہتی اور اسی لئے وہ سویلین حکومت کو مذاکرات کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ فوج کو عوامی تائید و حمایت کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ یہ پہلا بڑا فوجی آپریشن ہو سکتا ہے جس میں مذہبی جماعتیں اس کی حمایت کے بجائے مخالفت کریں گی۔ اس سے پہلے 1965ء اور 1971ء کی جنگ میں مذہبی پارٹیاں فوج کی معاون و مددگار تھیں۔
غالباً حکومت پر بھی یہ واضح ہے کہ طالبان کو مذاکرات کے ذریعے رام نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ ان سے غیر مشروط گفت و شنید کرنے کے اعلان اس لئے کر رہی ہے کہ وہ عوام کو کہہ سکے کہ دیکھیں ہم نے ہر پُرامن ذریعے سے طالبان کی بغاوت کا حل نکالنے کی کوشش کی لیکن یہ بے سود ثابت ہوئی اور ہمیں فوجی طاقت استعمال کرنا پڑی۔اسی تاثر کو گہرا کرنے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس کا بھی انعقاد ہو سکتا ہے۔ حکومت کو علم ہی ہوگا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں مذہبی جماعتیں فوجی آپریشن کے امکان کو رد کر دیں گی لیکن پھر بھی یہ سارا کچھ عوام کوبڑے فوجی آپریشن کی حمایت پر تیار کرنے کیلئے ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ امید تو یہی کی جانا چاہئے کہ تمام مسائل پُرامن انداز میں حل ہو جائیں لیکن دنیامیں کہیں بھی ریاست کے خلاف نظریاتی مسلح جنگ کا حل مذاکرات سے نہیں طاقت کے استعمال سے ہی نکلا ہے۔پاکستان کے پڑوس میں خالصتان کی تحریک ہو یا سری لنکا میں ریاست مخالف جنگ،آخر کار دونوں کا حل طاقت کے استعمال سے ہی نکالا گیا۔ اس سلسلے میں آئر لینڈ کی مثال دی جاتی ہے جہاں جنگ مذاکرات کے ذریعے ختم ہو گئی لیکن آئر لینڈ اور انگلینڈ کے فلسفہ حیات میں کوئی بُعد نہیں تھا جبکہ طالبان اور پاکستانی ریاست کے درمیان ریاست کی بنیادوں پر ہی اختلاف ہے۔ طالبان پاکستان کے موجودہ جمہوری نظام کو کافرانہ قرار دیتے ہوئے ناقابل قبول سمجھتے ہیں اور پاکستانی ریاست طالبان کے مجوزہ نظام کو تسلیم کرنے کیلئے تیار ہو نہیں سکتی لہٰذا مذاکرات کس نکتے پر کئے جائیں گے؟ کیا حکومت طالبان کا مجوزہ نظام تسلیم کرتے ہوئے جمہوری نظام کو خیرباد کہتے ہوئے بوریا بستر لپیٹ کر گھر چلی جائے گی یا کیا طالبان اپنے بنیادی عقاعد سے انحراف کرتے ہوئے اس نظام میں شامل ہو جائیں گے جسے وہ کافرانہ قرار دیتے ہیں؟
طالبان روایتی چوروں، ڈاکووں یا قانون شکنی کرنے والوں کا گروہ نہیں ہے جسے عام معافی دے کر نظام میں سمو لیا جائے۔یہ کہا جاتا ہے کہ بہت سے جرائم پیشہ گروہ بھی طالبان کے زیر سایہ یا آزادانہ اس تحریک سے اپنی وابستگی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن بنیادی طور پر طالبان ایک مذہبی نظریاتی مسلح گروہ ہے جس کا مقصد پاکستان کے ریاستی نظام کو ختم کرکے ایک دوسری طرح کا نظام قائم کرنا ہے اور یہ کہنا بھی جزوی طور پر درست ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ دشمنی کی بنا پر طالبان نے جنم لیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نائن الیون سے پہلے بھی طالبان کی نشوونما کافی تیزی سے ہو رہی تھی اور ان کا اثر و رسوخ پورے پاکستان میں بڑھ رہا تھا۔ اس وقت ریاستی طاقتیں ان کی حامی تھیں اور اپنے خارجہ پالیسی مفادات حاصل کرنے کیلئے ان کا استعمال کر رہی تھیں ۔ پاکستانی ریاست نے افغان جنگ کے زمانے سے خود طالبان سمیت جہادی گروہوں کو مسلح کرنا شروع کیا تھا۔ جب کوئی بھی ریاست پرائیویٹ ملیشیا یا مسلح گروہوں کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو بقول نکولس میکاولی اپنی تباہی کو دعوت دیتی ہے۔
پاکستانی طالبان کے نشووارتقاء میں مقامی سیاسی معاشی عوامل بھی شامل تھے۔بقیہ پاکستان کی طرح قبائلی علاقوں کے بہت سے لوگ بڑے شہروں اور بیرون ملک محنت مزدوری کرنے کیلئے گئے۔ جب وہ واپس آئے تو اپنے ساتھ ریڈیو، ٹیلیویژن، فون اور دوسری جدید سہولتوں کے سامان کے علاوہ نئے طرز زندگی کے تصورات لے کر آئے۔ اب ان علاقوں کو ایک جدید ریاستی مشینری کی ضرورت تھی لیکن حکومت پاکستان پرانے ملکوں اور خانوں کے نظام کے ساتھ چپکی ہوئی تھی۔ قبائلی علاقوں میں نظام کہنہ اپنی اثر پذیری کھو چکا تھا لہٰذا ایک سیاسی خلا پیدا ہو گیا جس کو طالبان نے پُر کیا اور مذہبی ریاست قائم کرنے کے نام پر پرانے قبائلی طرز زندگی کو بحال کرنے کیلئے مسلح جنگ شروع کی۔ ظاہر بات ہے کہ پڑوسی ملک افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد پاکستانی طالبان کی ساکھ میں اضافہ ہوا لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے طالبان قبائلی علاقوں کے اندرونی معاشی وسیاسی تضادات کی بھی پیداوار ہیں۔ اس لئے ”ہم پر جنگ تھوپی گئی“ کا نعرہ عوامی سیاست کی تو ضرورت ہو سکتا ہے لیکن یہ حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا۔
ریاست کا نظام قائم ہی اس تصور پر ہے کہ ذرائع جبر پر اس کی اجارہ داری ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ قانون کی حکمرانی تبھی قائم ہوتی ہے جب صرف ریاست کے پاس ہی ہتھیار بند جتھے (پولیس فوج وغیرہ) ہوں۔ اگر ریاست کے متوازی ہتھیار بند جتھے قائم ہو جائیں تو نظام سلطنت زمیں بوس ہوجاتا ہے۔ اس لئے کراچی ہو یا قبائلی علاقے حکومت پاکستان متوازی مسلح جتھوں کی موجودگی میں اپنی رٹ قائم نہیں کر سکتی۔ غالباً فوج کے رہنماوٴں پر یہ حقیقت عیاں ہے اور وہ سیاسی حکومت پر یہ واضح کر چکے ہیں۔ شاید میاں نواز شریف کو بھی اس تلخ حقیقت کا احساس ہے ۔
یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ فوج ریاست کے خلاف مسلح جتھوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ سوات، قبائلی ایجنسیوں اور جنوبی وزیرستان میں فوج نے کافی حد تک ریاست کی رٹ بحال کردی ہے۔ اگر پاکستانی فوج یکسوئی سے آپریشن کرے اور سول سوسائٹی اس کا ساتھ دے تو باقیماندہ علاقوں میں بھی پاکستان کی رٹ قائم ہو سکتی ہے۔قبائلی علاقوں کے عوام نے الیکشن میں بھرپور حصہ لے کر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ پاکستان ریاست کے موجودہ جمہوری نظام کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لئے سیاسی قیادت پر لازم ہے کہ وہ عوام کو قابل عمل حل کے لئے تیار کرے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات یا آل پارٹیز کانفرنس کے عمل کو تیز کرتے ہوئے ناگزیر حقیقت کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہو جائے۔ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ جب تک حکومت پاکستان پورے ملک میں مذاکرات یا فوج کشی سے اپنی رٹ قائم نہیں کرلیتی وہ بین الاقوامی برادری میں سر اٹھا کر بات نہیں کر سکتی۔