مہنگائی؟

January 13, 2022

وزیراعظم عمران خان جب مہنگائی کو عالمی مسئلہ قرار دیتے ہوئے ’’حکومت کیا کرسکتی ہے‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو مقصود صرف چیلنج کی شدّت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے ۔ دنیا ہمیشہ سے تغیر آشنا رہی ہے اور جیو اسٹرٹیجک تبدیلیوں میں تیزی کی شکار آج کی دنیا میں ہر لمحے کسی نہ کسی بحران، مسئلے ،مشکل یا آفت کی توقع ناقابل قیاس بات نہیں۔ جبکہ گلوبل وارمنگ کے اثرات سمیت نت نئے چیلنج بھی سامنے آرہے ہیں۔ جہاں تک کسی ایک یا دوسری حکومت کے ان چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کا تعلق ہے، ریاست اور حکومت کے تصور کی بنیاد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو تحفظ، سہولتیں اور ضروریات زندگی بروقت مہیا کرنے کی راہ ہموار ہو۔ حکومتیں بنتی ہی اس لئے ہیں کہ معاشرے میں نظم ضبط قائم ہو، بالخصوص جمہوری ریاستوں میں عام لوگ ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے یا حکمران اسی اعتماد کی بنیاد پر منتخب کرتے ہیں کہ وہ معمول کے حالات میں بہترین نظم و نسق قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور غیر معمولی حالات میں بھی مشکلات کا حل ڈھونڈنے کی اہلیت کے حامل ہیں۔ اس لئے وطن عزیز سمیت جہاں جہاں لوگوں کو مسائل کا سامنا ہوتا ہے وہاں وہاں نہ صرف ان کے اظہار کا حق حاصل ہوتا ہے بلکہ یہ اعتماد بھی ،کہ حکومت مسئلے پر خوش اسلوبی سے قابو پالے گی۔ موجودہ حکومت نے کورونا کے سنگین بحران کے دوران جس حکمت عملی سے معیشت اور صحت عامہ کے معاملات پر بڑی حد تک کنٹرول رکھا، اسے دنیا بھر میں سراہا گیا ہے۔جیسا کہ وزیراعظم کی تقاریر اور بیانات سے واضح ہے موجودہ حکومت نے جس وقت اقتدار سنبھالا ملکی معیشت کی حالت دگرگوں تھی تاہم چین اور سعودی عرب جیسے دوست ملکوں کی مدد اور حکومت کے مشکل فیصلوں کی بدولت معیشت بہتری کی جانب گامزن ہوئی مگرکورونا جیسے صدی کے سب سے بڑے بحران اور عالمی کساد بازاری سے جو مہنگائی آئی وہ لوگوں کیلئے پریشان کن ہے۔ منگل کے روز اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان نے 14ویں انٹرنیشنل چیمبرز سمٹ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں یہ بات دہرائی کہ خطے کے دیگر ملکوں کی نسبت پاکستان اب بھی بہت سستا ملک ہے۔ اس ضمن میں وزیراعظم اور حکومتی حلقوں کی طرف سے متعدد اشیا کی قیمتوں کا موازنہ پیش کیا جاتا رہا ہے۔ چیزوں کے مہنگا یا سستا ہونے کا تعلق اعدادو شمار سے ایک حد تک ضرور سہی ۔مگر بڑا انحصار فی کس آمدنی، وسائل دولت، روزگار، تیل، گیس، سونے چاندی پلاٹینم اور دوسری چیزوں کی پیداوار ٹیکنالوجی، تعلیم سمیت متعدد چیزوں پر ہے۔ انڈیا، بنگلہ دیش اور مغربی ملکوں سمیت جن ملکوں کی معیشتیں نسبتاً بہتر ہیں وہاں نرخوں کے بلند اعداد لوگوں کی مشکلات میں کم اضافے کا باعث ہیں اور جہاں جہاں لوگوں کی قوت خرید کم ہے وہاں مشکلات میں اضافہ زیادہ محسوس ہونا قدرتی بات ہے۔وزیراعظم کے بقول اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں موجودہ بلندی وقتی ہے۔ سپلائی کا تسلسل معمول پر آنے کے بعد صورتحال بہتر ہو جائے گی۔ ریاست مدینہ کو رول ماڈل قرار دیتے ہوئے انہوں نے قانون کی بالادستی ، کرپشن کے خاتمے اور انصاف کے چلن کی کاوشوں کیلئے جدوجہد کا عزم دہرایا اور واضح کیا کہ وہ پسے ہوئے طبقے کے حالات بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نےدرست نشاندہی کی کہ پاکستان میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کیلئے لوگوں کوآسانیاں اور ترغیبات دینا ہوں گی اور ٹیکس نظام کو سہل بناتے ہوئے وہ پیچیدگیاں دور کرنا ہوں گی جو سرکاری اہلکاروں میں شامل بعض کالی بھیڑوں کو کرپشن کرنے اور ٹیکس وصولی میں کمی کرنے کا موقع دیتی ہیں۔ یہی نہیں تمام شعبوں میں سلیکشن، تربیت اور کارکردگی زیادہ معیاری بنانی ہوگی۔