پاکستان ، مصر اور آزادی صحافت

August 29, 2013

افراتفری کے اس دور میں اکثر انسانوں کی اہمیت کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب وہ ہمیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔ آئی ایچ راشد صاحب کی اہمیت کا احساس بھی ان کی موت کے بعد ہوا ۔ راشد صاحب کے بارے میں 12اگست کو شائع ہونے والے کالم پر مجھے عام قارئین سمیت نوجوان صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے تعزیتی پیغامات بھجوائے ۔ صحافت کے کئی طلبا و طالبات نے اس افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جانے والی صحافتی تاریخ میں آئی ایچ راشد جیسے عظیم صحافیوں کی خدمات کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ اکثر نوجوان قارئین نے آئی ایچ راشد صاحب کی جرات و بہادری کے بارے میں خوشگوار حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ ان کا خیال تھا کہ میڈیا کو پچھلے پانچ دس سال میں آزادی ملی ہے لیکن آپ کے کالم سے پتہ چلا کہ پاکستان کے کارکن صحافی قیام پاکستان کے فوراً بعد سے اپنی آزادی کی جنگ میں مصروف ہیں۔ یہاں ایک نکتے کی وضاحت بہت ضروری ہے ۔
آزادی صحافت کا تعلق جمہوریت سے ہے ۔ جہاں جمہوریت مضبوط ہوتی ہے وہاں صحافت کے ساتھ ساتھ عدلیہ بھی آزاد ہوتی ہے جہاں جمہوری ادارے کمزور ہوں گے وہاں صحافت اور عدلیہ کی آزادی بھی خطرے میں رہتی ہے ۔ بدقسمتی سے کچھ لوگ ماضی میں فوجی آمروں کے بوٹ چمکاتے رہے اور آج بھی جمہوریت کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں ۔ یہ غیر صحافی لوگ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر عدلیہ کو محض اس لئے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ جج حضرات لاپتہ افراد کی بازیابی کے مقدمات کی سماعت میں خفیہ اداروں اور فوج کے افسران کی توہین کیوں کرتے ہیں؟اگر کوئی صحافی ڈرون حملوں اور ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں کچھ خفیہ اداروں کے افسران کی مبینہ ملی بھگت کے بارے میں سوال اٹھائے اور جنرل پرویز مشرف پر دفعہ چھ کے تحت مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر دے تو اسے غدار قرار دیدیا جاتا ہے اور ٹی وی چینلز پر خفیہ اداروں کے پالتو لوگ یہ مطالبہ شروع کر دیتے ہیں کہ پاکستانی فوج بھی مصری فوج کی طرح حکومت کو تبدیل کر دے ورنہ پاکستان نہیں بچے گا ۔ پاکستانی فوج کو اپنے ہی عوام کے خلاف لڑانے کی سازش کرنے والوں کو روکنے کیلئے پمرا کوئی نوٹس جاری کر دے تو شور مچایا جاتا ہے کہ آزادی صحافت اور جمہوریت کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں حالانکہ جب یہی دھجیاں مشرف بکھیر رہا تھا تو مصری فوج کے یہ پرستار مشرف کی گود میں بیٹھے تھے ۔
اس تمہید کا مقصد دو خطوط کا ذکر ہے پہلا خط پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ابلاغیات کے سابق استاد ڈاکٹر مہدی حسن کا ہے ۔ انہوں نے آئی ایچ راشد صاحب پر لکھے گئے کالم کے حوالے سے کہا ہے کہ آپ نے جنرل ضیاء الحق کے خلاف مزاحمت کرنے والے صحافیوں کا ذکر تو کیا لیکن جن صحافیوں نے جنرل ضیاء کا ساتھ دیا اور پی ایف یو جے کا ایک جعلی ایڈیشن قائم کیا ان کا ذکر نہیں کیا ۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ آج کل جماعت اسلامی کے سربراہ منور حسن مصر میں اخوان المسلمون پر فوج کے ظلم کی بہت مذمت کر رہے ہیں لیکن جب یہی فوج جنرل ضیاء کے دور میں نواب شاہ کے علاقے مورو میں ظلم کر رہی تھی تو جماعت اسلامی خاموش تھی ۔ مورو میں ہونے والے ظلم کی مذمت کرنے پر نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات سے 9صحافیوں کے علاوہ ڈاکٹر مہدی حسن کو پنجاب یونیورسٹی سے فارغ کر دیا گیا تھا ۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے خط میں مزید کہا ہے کہ اس سے قبل جنرل یحییٰ خان کے دور میں عوامی لیگ کے کارکنوں کے خلاف فوجی کارروائی ہوئی تو جماعت اسلامی کے ہمدردوں نے پاکستانی اخبارات میں اس کارروائی کی حمایت کی جبکہ خود جماعت اسلامی نے اس کارروائی میں حصہ بھی لیا ۔ دوسرا خط پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس کے سابق سیکرٹری جنرل اور ہمارے بزرگ ساتھی جناب افضل خان کا ہے ۔خان صاحب نے اپنی صحافتی زندگی کے38سال سرکاری خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس ( اے پی پی )میں گزارے لیکن صحافیوں کے حقوق کی جدوجہد میں ہمیشہ اگلی صفوں میں رہے ۔ 1963ء میں ملتان یونین آف جرنلٹس کے صدر بنے تو کچھ دنوں بعد جنرل ایوب خان نے بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس نافذ کر دیا ۔ پی ایف یو جے نے 13ستمبر 1963ء سے پی پی او کے خلاف تحریک کا اعلان کر دیا ۔15ستمبر 1963ء کو افضل خان صاحب کی لاہور میں شادی تھی لیکن وہ ملتان میں جلوس نکالتے پھر رہے تھے ۔شادی کے دن دفعہ 144کی خلاف ورزی پر ان کا وارنٹ گرفتاری جاری ہو گیا ۔ افضل خان صاحب نے مجھے ایک خط میں بتایا ہے کہ 1967ء میں پی ایف یو جے کا اجلاس ڈھاکہ میں منعقد ہوا جس میں لاہور سے شریک ہونے والے وفد میں ان کے علاوہ پنجاب یونین آف جرنلٹس کے صدر اے ٹی چودھری نثار عثمانی، آئی اے رحمان، عزیز مظہر، امجد حسین، اشرف طاہر، ضیاء الاسلام انصاری، شاہین صہبائی کے والد قدوس صہبائی ، سلیم عاصمی اور آئی ایچ راشد جبکہ کراچی سے منہاج برنا شریک ہوئے۔ اسی اجلاس میں مشرقی پاکستان کے اسرار احمد نے آئی اے رحمان کے مقابلے پر صدر کے عہدے پر کامیابی حاصل کی ، منہاج برنا بلامقابلہ پی ایف یو جے کے جنرل سیکرٹری اور افضل خان ڈپٹی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ افضل خان صاحب لکھتے ہیں کہ 1971ء میں ڈھاکہ کے اخبار ”دی پیپل “ پر فوجی افسران نے بہاریوں کے ذریعہ حملہ کرایا تو میں وہیں موجود تھا ۔ ڈھاکہ پریس کلب پر فوجی ٹینکوں نے حملہ کیا اور ایک صحافی شاہد اللہ قیصر کو مار دیا گیا ۔ پی ایف یو جے اس آپریشن کی مذمت کر رہی تھی ۔ 1973ء میں مجیب الرحمان شامی صاحب کے جریدے ”زندگی “ پر پابندی لگی تو پی ایف یو جے نے اسکی بھی مخالفت کی ۔ شامی صاحب ہمیشہ افضل خان کو ذوالفقار علی بھٹو کا حامی قرار دیتے تھے لیکن افضل خان نے ”زندگی “ پر پابندی کے خلاف ملتان میں جلوس نکالا ۔ 1974ء میں پیپلز پارٹی نے روزنامہ مساوات سے کچھ صحافیوں کو نکالا تو پی ایف یو جے نے ایک دفعہ پھر تحریک چلائی جس میں نثار عثمانی، آئی ایچ راشد ، سلیم عاصمی اور افضل خان بھی لاہور میں گرفتار ہوئے ۔ افضل خان صاحب نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ 1977ء میں پی این اے نے بھٹو حکومت کے خلاف تحریک شروع کی تو منہاج برنا اس تحریک کی حمایت کرنا چاہتے تھے لیکن افضل خان نے مخالفت کی لیکن جب مارشل لاء آ گیا تو پھر یہی افضل خان پی ایف یو جے کی تحریک میں آگے آگے تھے ۔ 21مئی 1978ء کو افضل خان کو فوجی عدالت نے 9ماہ قید کی سزا دی ۔ میانوالی جیل میں افضل خان کو سرکاری نوکری سے برخاستگی کا حکم نامہ بھی مل گیا ۔ افضل خان 1980ء میں پی ایف یو جے کے بلامقابلہ سیکرٹری جنرل اور نثار عثمانی صدر منتخب ہوئے اور دونوں کی قیادت میں کارکن صحافیوں نے آزادی صحافت اور جمہوریت کی بحالی کیلئے بے مثال جدوجہد کی ۔ افضل خان صاحب ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ سیاست دانوں کے ساتھ ذاتی تعلقات اپنی جگہ پر لیکن جب معاملہ صحافت کے اصولوں کا آ جائے تو صحافی کی وفاداری صرف اور صرف صحافت کے ساتھ ہونی چاہئے ۔سب جانتے ہیں کہ نثار عثمانی، منہاج برنا اور افضل خان کے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ذاتی تعلقات تھے لیکن جب بھٹو صاحب نے اپنے اخبار سے صحافیوں کو جبری طور پر نکالا تو انکے صحافی دوست اپنی دوستی بھول گئے اور صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے ۔
ہمارے ان بزرگوں نے سیاسی اور فوجی حکومتوں سے لڑ لڑ کر آزادی حاصل کی اور اس آزادی کا کبھی غلط استعمال نہیں کیا۔ ہمیں بھی اپنے ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیشہ جمہوری اصولوں کا ساتھ دینا ہے کیونکہ پاکستان کسی فوجی جرنیل نے نہیں سیاست دانوں نے بنایا ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ آزادی صحافت کے اصول جمہوریت کی حمایت سے مشروط ہیں ۔ پاکستانی فوج کو مصری فوج بنانے کے خواہش مند ناصرف پاکستانی فوج اور جمہوریت کے بلکہ صحافت کے بھی دشمن ہیں ۔ پی ایف یو جے سے لیکر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن تک کسی جمہوریت پسند تنظیم کو ایسے لوگوں کا ساتھ نہیں دینا چاہئے جو پاکستان کو مصر بنانے کی کوشش میں ہیں ۔