تین جنون تین کہانیاں: صدارتی نظام !

January 23, 2022

اب کیا کِیا جا سکتا ہے کہ اکثریت کے پاس کھانے کے بھی دانت ہیں اور دکھانے کے بھی۔ ایسے لوگ دنیا کو بطور لیڈر دلکش شکل اور خوبصورت سیرت والے لگتے ہیں، جمہوریت پرست انہیں برانڈ سمجھتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی زلف کی اسیری ان کا دوسرا روپ۔ جب جی چاہے پارلیمانی طرز حکومت پر بھرپور دلائل دیتے ہیں اور جب من چاہے صدارتی نظام کو بھی مسیحائی ثابت کر دیتے ہیں۔ عام آدمی کے نزدیک تو ان سیاسی زاہدوں و عابدوں کی سیاست حب الوطنی اور عوام دوستی ہے، ان بےکس و بےبس لوگوں کو یہ کہاں معلوم کہ پیسہ اور پاور حب الوطنی اور عوام دوستی کے بعد تیسری اہم چیز ہے جو شمار میں پہلا نمبر رکھتی ہے!

ہمیں امریکی جمہوریت، چینی ریاضت، ڈیمو کریٹک سیاست، جرمن تاریخ، برطانوی جنیٹکس، یونانی روایات، رشین ذہانت اور اسلام بطور مذہب بہت اعلیٰ لگتے ہیں مگر ہم 74برسوں میں نظاموں کی دلدل، لالچ کے گرداب اور مفاد کے بھنور سے باہر ہی نہیں نکل پائے۔ باوجود اس کے کہ مارشل لا سہے، دولخت ہوئے اور جنگی پنجہ آزمائیاں بھی دو تین دفعہ کیں۔ کبھی یہ سوچا بھی نہیں کہ سعودیہ و برطانیہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور اسرائیل میں تو اینکوڈڈ آئین بھی نہیں تاہم اخلاقیات و روایات جیتی جاگتی رہتی ہیں! اجی ملائشیا و چین تقریباً ہم عمر ہیں اور بنگلادیش کم عمر مگر ہمارے حصے میں ’’بزرگی‘‘ آئی ہے اور ان سب کے حصہ میں معاشیات کا بڑا پن۔

ہمیں کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ کسی نوبل پرائز کے متعلق سوچیں، کوئی ویکسین ہم بھی بنالیں یا کوئی ریسرچ سینٹر ہمارے پاس بھی ہو جہاں باہر سے آکر لوگ سیلفی لیں۔ ہم تحقیق کیلئے دانش گاہیں بھی سیاسی بناتے ہیں اور دانشور بھی، غیرسیاسی محقق بنانا یا بننا ہم وقت کا زِیَاں سمجھتے ہیں۔ 1973کے آئین سے اس کی 18ویں ترامیم تک، جس میں 8ویں ترمیم کو گر کسی حد تک فراموش کیا جائے تو آئین میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو فراہمیٔ انصاف، بنیادی انسانی حقوق، صوبوں کی خود مختاری، جمہوری سوچ کی تقویت، اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری اور مذہبی و فکری معاملات کی آزادی کا تحفظ موجود ہے، 10(اے) جیسی دفعات منصفانہ سماعت کا راستہ ہموار ہی نہیں کرتیں، عملداریوں کو واجب بھی قرار دیتی ہیں۔ اور قانون یا آئین ہمیں کیا دے۔ جو درکار ہے شہری کو درکار ہے اور عوام کی خاطر ہے، اب کوئی ویٹو پاور کا متلاشی ہو اور اوپر سے پارلیمنٹ کی عدم اعتماد والی شق کا پتہ صاف کرنا چاہے، ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا کے علاوہ صوبائی اسمبلیوں کے رائٹس کو سبوتاژ کرتے ہوئے سربراہِ حکومت اور سربراہِ مملکت کی کیمسٹری کے بخیے ادھیڑنے کو مقدم جانے تو ایسی پاور کے حصول مارشل لا کے دروازوں کو بھی کھول سکتے ہیں اور آمرانہ طرز عمل کو بھی پروان چڑھا سکتے ہیں۔ تجربات کی خواہشات عہدِ حاضر میں بھی بری نہیں بشرطیکہ پچھلی ریسرچ اور سرچ کو بھی پرکھا اور سمجھا جائے۔ 1950 سے تاحال دنیا کے 23ممالک کی جمہوریت کو مدِنظر رکھا جائے تو ان کے 7مندرجات و معاملات کا موازنہ کرنا ہوگا۔ 1۔ وفاقی ڈھانچہ 2۔ دو ایوانی مقننہ 3۔ ایوانِ بالا اور غیرمساوی دباؤ 4۔ عدالتی جائزے 5۔انتخابی نظام 6۔ سیاسی پارٹی سسٹم اور 7۔ نظامِ حکومت۔ ان میں اہم ممالک میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا، بھارت، جاپان، ناروے، سوئٹزر لینڈ وغیرہ شامل ہیں، صرف امریکہ میں دوجماعتی مقابلہ ہے باقی سب کے ہاں سیاسی جماعتوں کی ساخت کئی جماعتوں پر مشتمل ہے تاہم صرف امریکہ اور کوسٹا میں صدارتی نظام ہے باقی سب میں پارلیمانی نظامِ حکومت۔

ہٹلرازم ایک وہ سوچ تھی جس نے مغرب سے مشرق تک کو تگنی کا ناچ نچا دیا اس کے برعکس کیمونزم وہ مرہم والا عمل تھا جس نے یورپ کو انسانی حقوق کا وتیرہ سکھایا، بات دراصل سوچ سے شروع ہوتی ہے اور عمل پر ختم۔ ڈیموکریٹس امریکہ میں نمودار ہوں تو پورے عالم میں جمہوری شمعوں کی روشنیاں بڑھ جاتی ہیں وہیں اگر ری پبلکن آجائیں تو ایران سے عراق تک اور افغانستان سے پاکستان تک میں آمرانہ رویے اور دیپ جاگنے کی سوچتے ہیں۔ سوچ کے پیچھے تجربہ، خواہش، تاریخ سے آشنائی اور انسان دوستی کے عوامل عمل کی کوالٹی پر اثرانداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ رفتہ رفتہ تو شہنشاہیت نے دم توڑا، برطانیہ سے اسلامی ممالک تک میں جدتوں نے جمہوری فکر کے دیپ جلانے کا کم از کم فلسفہ جمہوریت میں جھانکنے کو تقویت بخشی۔

گر امریکہ، روس، برازیل اور روس میں صدر کے اشارے پر قانون سازی ہے تاہم برطانیہ و کینیڈا اور جاپان و بھارت وغیرہ میں یہی قانون سازی پارلیمنٹ کی مرہونِ منت ہے۔ چین کی دنیا ہی مختلف ہے۔ بہرحال مجموعی صورتحال بتاتی ہے کہ وہ دریا جو جمہوریت کو سیراب کرے، انسانی حقوق کی پیاس بجھائے وہ بہتر ہے، ہر قوم کے تجربے اور رویے باآسانی ہر قوم کی رہنمائی کرتے ہیں۔جو رویے وقت کے سنگ سنگ ارادے، وعدے اور پسندیدگی بدلیں، کبھی چین کو چاہیں تو کبھی ملائشین سسٹم سے پیار کریں، کبھی ریاستِ مدینہ کے دلدادہ ہوں، جس کو گالی دیں پھر اسی کو گلے لگا لیں، نرگسیت کی دامن گیری ہو اور فصاحت و بلاغت کو جذباتی پیرہن دے دیں یوں صدارتی نظام گر سیاسی و سماجی ناپختگی یا پُرتشدد متعصب مکتبِ فکر کے ہاتھ چڑھ گیا تو؟ اگر پھر وہی آگئے جنہیں آپ غیرمقبول گردانتے ہیں تو؟

پس بہتر ہے سرمایہ دارانہ و جاگیر دارانہ نظام اور تشدد پسندانہ مذہبی رجحان کو ختم کیا جائے اور فراہمیٔ انصاف کو سہل اور تیز رو کردیں، یہی پارلیمانی نظام کھرا اور معتبر ہو جائے گا۔ جو پنپنے نہیں دے رہے وہ یہی تین جنون اور تین کہانیاں ہیں!