ڈاکٹر طاہر شمسی: کسبِ کمال کُن کہ عزیز ِ جہاں شوی

January 23, 2022

گزشتہ ماہ ہمارے ملک میں شعبۂ طب کی ایک مایہ ناز شخصیت اس جہاں سے گزر گئی۔ جس سادگی اور عاجزی کے ساتھ انہوں نے ساری عمر اپنی پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیں، اسی طرح خاموشی کے ساتھ اگلی دنیا کو رختِ سفر باندھ لیا۔ یہ قومی نقصان تھا لیکن کیا کیجیے کہ یہاں ’’کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا‘‘۔ طب کی دنیا میں یہ خبر دکھ کے ساتھ سنی گئی کہ کہ ممتاز ماہرِ امراضِ خون (ہیماٹالوجسٹ)، پاکستان میں ہڈیوں کے گودے کی پیوند کاری (بون میرو ٹرانسپلانٹیشن) کے بانی اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز(NIBD)کے سرپرست ڈاکٹر طاہر شمسی اب ہم میں نہیں رہے۔ وہ ملک میں خون کی بیماریوں کے ایک مستند معالج اور قابلِ قدر محقق مانے جاتے تھے۔ تین دہائیاں پہلے وہ اکیلے شخص تھے جو اس ملک میں بون میرو ٹرانسپلانٹ جیسے مشکل علاج پر بات کرتے تھے۔ بعض مواقع پر ان کا مذاق اڑایا جاتا کہ یہ کام تو یہاں بڑے بڑے سرکاری ادارے نہیں کر پا رہے، تمہاری کیا اوقات ہے؟ ادھر ان کا زندگی میں ایک ہی مقصد تھا کہ اپنے شعبے ہیماٹالوجی (جس پر توجہ کم دی گئی) میں وہ کام کر دکھانا ہے، وہ علاج مہیا کرنا ہے جو پاکستان میں اس وقت ہزاروں لاکھوں لوگوں کے لیے دستیاب نہیں۔ایک خواب کو تعبیر ملی اور 1995 میں انہوں نے کراچی میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا۔ تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے اور ہمارے ہاں اس مرض کے شکار ایک لاکھ بچوں کی زندگی کا اوسط دورانیہ دس برس ہے۔ بون میرو ٹرانسپلانٹ کے ذریعے بلڈ کینسر، اے پلاسٹک اینیمیا اور تھیلیسیمیا سمیت خون کی مختلف سنگین بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ کئی مریض ہڈیوں کے گودے کی پیوند کاری کے بعد ایک نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔ ڈاکٹر شمسی نے ابتدا میں نجی شعبے میں ایک دو اداروں میں محدود سطح پر یہ علاج کیا لیکن یہ جگہ ان کے اہداف کے سامنے کم تھی۔ جیسا غالب نے کہا تھا:

بہ قدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل

کچھ او ر چاہیے وسعت مِرے بیاں کے لیے

ڈاکٹر شمسی نے ایک مستعد ٹیم تیار کی اور 2008میں کراچی میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈڈیزیز اینڈ بون میرو ٹرانسپلانٹ جیسا معیاری ادارہ قائم کیا جہاں ایک چھت تلے خون کے امراض کی تشخیص، تحقیق، علاج اور نگہداشت کی سہولت موجود ہے۔ حکومتی امداد سے یہاں کئی مریضوں کا بلا معاوضہ علاج کیا جاتا ہے۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب ِ منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

پوسٹ گریجوایٹ اسٹڈیز کے لیے منظور شدہ اس ادارے سے ایک اچھی خاصی تعداد میں ایف سی پی ایس ڈاکٹرز تربیت پاکر اندرون و بیرون ملک اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ جب وہ اس دنیا سے جائیں تو اپنے پیچھے ہیماٹالوجی اوربون میروٹرانسپلانٹ کے بہت سارے ماہرین چھوڑ جائیں، جو اس مشن کو آگے لے کر چلیں۔ اپنی مختصر زندگی میں ڈاکٹر شمسی نے 650کے قریب ٹرانسپلانٹ کیے،ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح تک تدریسی فرائض ادا کیے۔ سات کتابیں لکھیں اور بین الاقوامی جرائد میں ان کے درجنوں تحقیقی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کی غرض سے چند برس لندن میں قیام کیا لیکن واپس آکر ساری زندگی اپنے ملک کی خدمت کی۔اپنے شعبے میں ان کے کمال کا یہ عالم تھا کہ انہیں پنجاب حکومت بطور کنسلٹنٹ کراچی سے خصوصی طور پر لاہور بلاتی تھی، چلڈرن اسپتال لاہور کا ٹرانسپلانٹ سنٹر بھی ان کے زیرِ نگرانی رہا۔ 2020میں جب کرونا وائرس اپنے عروج پر تھا تو یہ ڈاکٹر شمسی ہی تھے جو پلازما ڈونیشن تھراپی لے کرآئے۔ انہوں نے حکومت کو متوجہ کیا کہ کرونا سے صحت یاب ہونے والے افراد میں جو اینٹی باڈیز بنتی ہیں،وہ پلازما کی صورت ایمرجنسی یا آئی سی یو میں کرونا مریضوں میں منتقل کر دی جائیں تو وہ جلدی ریکور ہو سکتے ہیں۔ ان کا یہ نظریہ کامیاب رہا، بین الاقوامی سطح پربھی سراہا گیا اور یوں کئی مریضوں کی زندگیاں بچائی گئیں۔

پاکستان میں اس وقت 9کے قریب بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز موجود ہیں۔ ڈاکٹر طاہر شمسی کا کہنا تھا کہ ہماری ضرورت سوسے دوسو سنٹرز کی ہے کیونکہ ہر سال دس ہزار افراد کو اس علاج کی ضرورت پڑتی ہے اور ہر سنٹر میں 5مریضوں کے علاج کی گنجائش ہے۔ یہاں سالانہ دس ہزار بچے تھیلیسیمیا کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اس مرض کی روک تھام کے لیے خاندان اور قریبی رشتہ داروں میں شادیاں نہیں کرنی چاہئیں یا دوسرے لفظوں میں تھیلیسمیا مائنر کے حامل دو افراد کو شادی نہیں کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر شمسی اکثر اس تشویش کا اظہار کرتے تھے کہ ہمارے ہاں شادی سے پہلے ٹیسٹ نہیں کرایا جاتا۔اگر ہمارے حکمران تعزیتی ٹویٹ کے علاوہ ڈاکٹر طاہر شمسی کو حقیقی معنوں میں کوئی خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں تو ان تجاویز اور گزارشات کو عملی جامہ پہنائیں،جن کا اظہار وہ اپنی زندگی میں کرتے رہے۔ پاکستان میں شادی سے پہلے مر د وعورت کے تھیلیسیمیا سکریننگ ٹیسٹ کرانے پر مناسب قانون سازی کرکے اس پر عملدرآمد کرایا جائے۔ ضلع اور تحصیل سطح پر ہر سرکاری اسپتال میں تھیلیسیمیا سے آگاہی اور اسکریننگ کی سہولت کے لیے الگ کاؤنٹر قائم کیا جائے۔ ڈاکٹر شمسی کی خواہش تھی کہ 25لاکھ سے زائد آبادی کے ہر شہر میں ایک بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹر ضرور ہو۔ خون کی بیماریوں کے تدارک اور علاج کے لیے ضروری اقدمات کرنا کسی پر احسان نہیں،یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔

پس نوشت: اربابِ ریاست سے گزارش ہے کہ ڈاکٹر طاہر شمسی کی طبی و سماجی خدمات کا ادراک کرتے ہوئے اِس مسیحا کے لیے کسی سول ایوارڈ کا اعلان کیا جائے۔