مسلمان مغرب سے پیچھے کیوں ہیں

January 28, 2022

تحریر: سردار عبدالرحمٰن خان، بریدفورڈ


(گزشتہ سے پیوستہ)


اب دیکھتے ہیں کہ مسلم دنیا میں علمی اور فکری انحطاط، معاشی اور معاشرتی پسماندگی کے مسلمان خود ذمہ دار ہیں یا اہل مغرب، یا دونوں، تھوڑا سا تاریخ کے دریچوں سے جھانکیے اور ملاحظہ کیجئے کہ مسلم دنیا کے حکمرانوں نے کس طرح اسلام کے نام پر انسانی ترقی میں رکاوٹیں ڈالیں، سلطنت عثمانیہ کے حکمران ’’سکرپٹ‘‘ یعنی ہاتھ کی لکھائی یا خطاطی اور فن تحریر کو مقدس سمجھتے تھے، قلم کا احترام تھا، فن تحریر اور خطاطی کو چھپائی پر ترجیح تھی، کہا جاتا تھا ’’دانشور کی سیاہی شہید کے لہو سے زیادہ مقدس ہے‘‘، علم میں ترقی کی وجہ سے یورپ میں بڑی تیزی سے کتابیں چھاپی جا رہی تھیں، انتہائی کم وقت میں کتابیں، لٹریچر، میگزین، رسائل اور فنی کتب کے ذخائر چھپ کر مارکٹیس میں آرہے تھے مگر دوسری طرف سلطنت عثمانیہ کی کاہلی، نااہلی اور سست روی اس دور میں ترقی کے راستے میں حائل تھی، وہ پرانی روایات اور توہمات کے علاوہ وراثت کے جھگڑوں میں الجھ کر ترقی کی راہ کھو رہے تھے، سلطنت عثمانیہ کی متعدد بیگمات کے سوتیلے بھائی ایک دوسرے کو قتل کرکے راستے سے ہٹانے کی مذموم سازشوں میں مصروف تھے، 1515ء میں سلطان سلیم نے حکم صادر کیا کہ اگر کوئی شخص چھاپہ خانہ استعمال کرتے ہوئے پکڑا گیا تو اس کو سزائے موت دی جائے گی، یہ ایک انتہائی جاہلانہ، ظالم اور زوال پذیر قدم تھا، یہ ترقی کی راہ میں انتہائی نقصان دہ رکاوٹ تھی، یورپ آگے نکل رہا تھا اور مسلمانوں کو جاہلیت کی طرف دھکیلا جا رہا تھا، اس میں بھی شک نہیں کہ سلطنت عثمانیہ نے مسلمانوں کو فتوحات اور کئی اور کارہائے نمایاں کی وجہ سے زمین سے آسمان تک پہنچایا مگر ایسی پابندیاں لگا کر پھر آسمان سے زمین پر دے مارا، اسلام کو سائنٹیفک ترقی کے ساتھ مفاہمت اور استعمال سے روکنا دنیائے اسلام کے لئے معاشی اور معاشرتی تنزلی کا باعث بنا، ان پابندیوں کی موجودگی میں یورپ کا مقابلہ نہیں ہو سکتا تھا، ایک وہ وقت کہ مسلمان یورپین اسکالرز کو تخلیقی میدان میں عمل کے لئے تفکرات اور تصورات دے رہے تھے اور وہ وقت آن پہنچا کہ مسلمان جدید سائنٹیفک ریسرچ سے بیگانہ ہو رہے تھے، یورپ اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان سائنٹیفک شگاف اتنا دراز ہو گیا کہ استنبول میں 1570ء میں ایک جامع العلوم شخص تقی الدین الراشد کو سلطان نے ایک رصد گاہ تعمیر کرنے کا حکم دیا، تقی الدین کئی کتابوں کا مصنف اور ایک مسلمہ سائنسدان تھا، یہ رصد گاہ اس زمانے کے لحاظ سے ایک ترقی پذیر سہولت تھی جو یورپ کو پہلے مہیا تھی لیکن بدقسمتی سے 1577ء میں جب استنبول کے اوپر سے ایک ستارہ نمودار ہوا تو سلطان کو علم فلکیات کی رو سے اس کی پیش گوئی اور تشریح کی ضرورت محسوس ہوئی، تقی الدین نے اس کی پیش گوئی میں بتایا کہ آئندہ ہونے والی جنگ میں عثمانیہ فوج کو فتح حاصل ہوگی، اس خبر پر شیخ الاسلام ’’قدی ذادے‘‘ جو اعلیٰ درجے کا مذہبی رہنما تھا ،نے اختلاف کیا۔ شیخ الاسلام نے سلطان کو ترغیب دی کہ تقی الدین نے مذہب کی بے حرمتی کی ہے، اس نے کہا کہ تقی الدین عالم بالا کے کاموں میں الجھ کر اور پراسرار بھیدوں میں مداخلت کرکے اللہ تعالیٰ کے کاموں میں مداخلت کا مرتکب ہو رہا ہے جو کفر آمیز حرکت ہے، یہ سن کر سلطان نے فوراً تقی الدین کی پانچ سالہ رصد گاہ کو مسمار کرا کے ڈھیر کردیا اور اس کے تقریباً تین صدیوں بعد تک ایسی رصدگاہ پھر تعمیر نہ ہوسکی، ترقی کی راہ میں ایک اور پیش قدمی جہالت اور روایات کی بھینٹ چڑھ گئی، یہی نہیں بلکہ یورپین سائنٹیفک پیش رفت کو استنبول میں محض ایک خیال باطل اور خود نمائی قرار دیا جارہا تھا، سلطنت عثمانیہ علم و فنون اور ریسرچ و تحقیقات کے میدان میں کاہل اور لاپروا ہو کر محلاتی سازشوں اور تزک و احتشام کے دھندوں میں غرق ہوگئی، اسی طرح دنیائے اسلام کا ورثہ اور مشہور اور معروف ’’دارالحکمہ‘‘ بھی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھ گیا پھر جب انیسویں صدی کے نصف میں سلطنت عثمانیہ کے وراث سیاسی، فنی اور جدید تبدیلی سے بے خبر سو رہے تھے تو اس وقت یورپ کے حکمران سائنس کو پورے جذبے اور انہماک سے اپنا کر ترقی کے راستے پر گامزن کرچکے تھے۔ مذہبی پادریوں کی مخالفت ماند پڑ چکی تھی اور سائنس کو پورا فروغ حاصل تھا۔ 1662ء میں چارلس دوئم نے رائل سوسائٹی فار نیچرل علوم کے چارٹر کی منظوری دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یہ انسانیت کی بھلائی کے لئے ایک مرکز ہوگا‘‘ چار سال بعد اس قسم کی سوسائٹی پیرس میں بھی قائم کر دی گئی۔ رائل سوسائٹی آف لندن کا بانی کرسٹوفر رن تھا جو مختلف سائنسی علوم کا ماہر تھا۔ 1675ء میں چارلس دوئم نے کرسٹوفر رن کو رائل گرین وچ آبزرویٹری قائم کرنے کا حکم دیا، یہ تمام ایجادات اور کام انسانی بھلائی میں ہو رہا تھا، مذہب انسانی بھلائی کے کاموں کو نہیں روکتی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا مغرب سائنٹیفک علوم اور ریسرچ میں آگے بڑھتا گیا ایک وہ وقت تھا کہ مسلمانوں کی اس لحاظ سے قدر تھی، علم کا دبدبہ تھا، مسلمانوں نے دنیا کا محاصرہ کر رکھا تھا لیکن70 سال بعد یورپ اور مسلمانوں کے علوم اور طاقت کا توازن حیران کن سطح تک بگڑ چکا تھا، استنبول میں سلطان عثمان سوئم کی سلطنت پستی کی طرف مائل تھی اس سلطنت کا انتظامی ڈھانچا مفجل اور غیر موثر ہو چکا تھا، یورپ میں فریڈرک دی گریٹ نئی اصلاحات سے اپنی فوج کو چاق و چوبند بنا رہا تھا اور اپنی انتظامیہ کو منطقی بنیادوں پر منظم کر رہا تھا، سلطنت عثمانیہ کے زوال کا سبب صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کی پسماندگی ہی نہیں تھی بلکہ سلطانوں کی اپنی ذہنیت، قابلیت اور اہلیت کا بھی فقدان تھا، ان کی کوتاہی، پست ہمتی اور کوتاہ سوچ کا بھی عمل دخل تھا، سترویں صدی کے نصف میں سلطنت عثمانیہ کے نظام حکومت میں دراڑیں پڑ چکی تھیں، حکومت کی ساخت اور اس کے اجزائے ترکیبی کے عناصر میں ہم آہنگی نہیں تھی، فوج غیر مربوط تھی اور حکومت فضول اخراجات کی وجہ سے مالی مشکلات سے گزر رہی تھی، فوج اور حکومت ایک صفحے پر نہ تھے، سلطانوں کی اپنی اہلیت میں نمایاں انحطاط آگیا تھا، فوجی انفنٹری نے تقریباً خود مختاری حاصل کر لی تھی اور بغاوت پر اتر آئی تھی۔ رشوت، بھتہ، اخلاقی بگاڑ، مداخلت اور مذہبی انتشار معمول بنتا جا رہا تھا، سلطانوں کے صاحبزادوں کا تخت کے شوق میں حاسدانہ رویہ خطرناک حد تک قتل و غارت پر ختم ہوتا تھا، سازشیں، محلاتی بغاوتیں، اقتدار کی کشمکش، مہم جوئیاں کسی سلطان کو جم کر حکومت کرنے کی مہلت نہیں دیتی تھیں۔ 1556ء سے لے کر 1648ء کے درمیان بانوے سالوں کے دوران 10 سلطانوں نے حکومت ایک بھی اپنی مرضی سے نہیں گیا کچھ کو زبردستی نکالا گیا اور کچھ کو قتل کر دیا گیا۔