عورت خاندان کی سربراہ کیوں نہیں ہو سکتی

September 06, 2013

عورتوں کے بارے میں نئی سے نئی مشکلات کا انکشاف ہوتا رہتا ہے وہ مجھے اپنا غمخوار سمجھ کر بتاتی ہیں اور میں آپ کو اس لئے بتاتی ہوں کہ شاید کوئی ایسا پڑھنے والا ہو جو اس کا مداواکر سکے۔ یہ معمہ بھی ایسے ہی شخص نے حل کرنا ہے کہ میں خود اس قابل نہیں ہوں اول تو ہماری اپنی زبان میں Single woman کا کوئی واضح بدل نہیں ہے، مشفق خواجہ بھی نہیں کہ جن سے پوچھ لیا جاتا۔ انتظار صاحب ویسے ہی خواتین کے معاملات میں دلچسپی نہیں لیتے ہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ بیوہ یا مطلقہ خاتون کو شوہر کا نام لکھنے کی مجبوری ہے بھلا کیوں۔ اس لئے کہ نادرا کے قوانین میں یہ بات لازمی ہے کہ کسی خاتون کا شناختی کارڈ بننا ہو تو اس پر چاہے باپ/ بھائی/ شوہر کا نام ضرور لکھنا ہوتا ہے۔ اس کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہے اس کا شناختی کارڈ نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ گھر کے سربراہ کا نام نہ لکھے، چاہے وہ خود کی سربراہ ہو اس کا مطلب ہے کہ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ مرد ہی اصل میں گھر کا سربراہ ہو سکتا ہے یہی احوال نیشنل سیونگ سینٹر کا ہے اس میں بھی شوہر یا والد کا نام لکھنا ضروری ہے۔ شوہر یا باپ موجود ہو تو تسلیم۔ مگر جب دونوں ہی نہ ہوں تو عورت کو سربراہ تسلیم کرنے سے انکار کیوں؟ جبکہ آئین پاکستان کی رو سے عورت اور مرد دونوں مساوی حیثیت رکھتے ہیں مگر کہاں کہ مسلمان مرد ہی تو صدر مملکت ہو سکتا ہے خاتون کو یہ بھی اجازت نہیں ہے خاتون کو مشکل سے میجر جنرل اور وہ بھی میڈیکل کے شعبے میں اجازت ملی اب ایئرفورس اور پی آئی اے میں پائلٹ بھی مقرر ہو گئی ہیں۔
بھٹو صاحب کے زمانے میں خواتین کی بیرون ملک پوسٹنگ پر سے پابندی اٹھائی گئی تھی، اب فارن آفس میں پچاس فی صد سے زائد خواتین سفارت کار ہیں پاکستان کے لئے اگر کوئی نام کما رہا ہے تو یہ خواتین ہی ہیں ورنہ، مت پوچھئے۔ فنڈز نہ ہونے کا بہانہ کر کے، ہمارے سفارت کار عیش کی زندگی گزار کر چھ سال کی پوسٹنگ پوری کر کے واپس آکر نئی گاڑی اور ہو سکے تو نئی بیوی اور نیا گھر بڑے آرام سے خرید لیتے ہیں۔ آپ سوچیں گے کہ بیوی بھلا کیسے خرید سکتے ہیں۔ دولت سب کچھ دلوا سکتی ہے۔ بیوی تو ہمارے اصول اور مذہب۔ چھوڑیں آگے چل کر یہ دیکھئے کہ بڑی گرما گرم بحث ہو رہی ہے کہ لوکل باڈیز کے الیکشن پارٹی کی بنیادوں پر ہوں کہ آزاد۔ جب مشرف کے دور میں دانیال عزیز نے الیکشن ایجنڈا دیا تھا اس میں ایک بنیادی خرابی تھی کہ ہر چند خواتین کونسلرز کی تعداد 33% رکھی گئی تھی مگر ان کو اول تو آنے جانے کا کرایہ نہیں دیا جاتا تھا، ان کے بنائے ہوئے پروجیکٹ کے لئے بھی فنڈز نہیں دیئے جاتے تھے۔ اب یہ جونیا قانون پنجاب اور سندھ میں بنایا گیا ہے اس میں بھی خواتین ممبران کی تعداد کم رکھی گئی ہے اور ان کے سفر خرچ کے علاوہ پروجیکٹ فنڈز نہیں رکھے گئے ہیں۔ ویمن کمیشن اور ویف کی خواتین نے شور تو مچایا ہے اور وہ حق بجانب ہیں کہ ظاہر داری کے لئے خواتین کی سیٹیں نہیں رکھی جائیں (ابھی کے پی کے اور بلوچستان میں یہ تحریک بھی شروع نہیں ہوئی ہے جبکہ وہ تبدیلی لانے کی بات کرتے ہیں)
ضمنی الیکشن میں ہم نے دیکھ لیا کہ میانوالی، نوشہرہ ، لکی مروت اور پشاور کے کچھ علاقوں میں خواتین کو گھروں سے نکلنے ہی نہیں دیا گیا۔ جواباً کہہ دیا گیا کہ وہ خود ہی نکلنا نہیں چاہتیں مگر خوش کن ایکشن جو کے پی ہائی کورٹ نے لیا اور کہا کہ ان علاقوں میں عورتوں کے ووٹ ڈلوائے جائیں تب الیکشن زرلٹ بنائے جائیں۔ بہرحال فوج کی موجودگی میں جمہوریت کے لئے ووٹ ڈالنے کا منظر نامہ بھی بہت کچھ بتا رہا تھا ساتھ ہی جیت کی خوشی میں ہوا میں گولیاں چلانے کی تصویریں جو بار بار ٹی وی پر دکھائی جا رہی تھیں اور بلور صاحب کی موجودگی میں یہ ہو رہا تھا یہ بھی ہمارے منافقانہ قانون کی پابندی کا چہرہ دکھا رہا تھا بالکل اسی طرح جیسے لاہور میں صحافیوں پر تحریک انصاف کے پرجوش کارکنوں کی دھینگا مشتی یہ بتا رہی تھی کہ جذبات میں آکر بنیادی جمہوریت کی اساس کو اور وہ بھی اپنے اختیار کے نئے نئے دنوں میں بھلا دینا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ صرف نعرے اور گھونسے مارنے سے جمہوری آداب نہیں آتے ہیں۔
یہ زمانہ ہے کہ جب روز صدر مملکت اپنی الوداعی ضیافتیں کر رہے ہیں۔ ضیافت کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے اگر ہر روز گیارہ بارہ ڈشیں کھانے میں ہوں جبکہ عام آدمی کو روز آٹا مہنگا ملے اور تیرہ لاکھ لوگ سیلاب کے باعث بے گھر ، بے سرو سامان ہوں تو ہنسی آتی ہے کہ ہمارے سربراہان کس مملکت میں رہ رہے ہیں، عوام کی کس قدر فکر ہے اور حالات کی دگرگونی کو کتنا جانتے ہیں خاص کر عورتوں کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کے بارے میں، ہم اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھ لیں تو دنیا سارے عذابوں کو سمجھتی ہے جبھی یورپین یونین کے وفد نے جب ویمن کمیشن کے ساتھ میٹنگ کی تو ان کو ساری ابتلائی صورت حال معلوم تھی ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے، انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ کس قدر کم سن بچیوں کی عمر رسیدہ لوگوں سے ساتھ شادیاں کر دی جاتی ہیں ہم نے جس قدر بھی مدافعت کی مگر سچ تو وہ تھا جو یورپین لوگ بول رہے تھے چائے اور کھانے کے وقفے کے دوران انہوں نے بتایا کہ آپ کے سیلاب میں بہے دیہاتوں کے لوگ کھلے آسمان تلے ملیریا اور ہیضہ کے مریض ہیں آج طہٰ خان زندہ ہوتے، ان پر بہت عمدہ شعر کہتے اب تو غنیمت ہے انور مسعود کہ ہر نئے موضوع پر انوکھے قطعات لکھتے رہتے ہیں کسی نے اپنے کالم میں عباس تابش کا یہ شعر لکھا تھا
ہمارے پاؤں الٹے تھے، فقط چلنے سے کیا ہوتا
بہت آگے گئے لیکن بہت پیچھے نکل آئے
کمال تو ہے کہ ہم پیچھے بھی نکلے نظر نہیں آتے ہیں۔