تخلیقاتِ جوش کی فکری بنیادیں

February 23, 2022

جوشؔ ملیح آبادی 5دسمبر 1894ء کو ملیح آباد (ہندوستان) میں پیدا ہوئے اور 22 فروری 1982کو اسلام آباد میں وفات ہوئی۔ وہ اُردو کے قادرالکلام شاعر تھے۔ وہ اپنے فکری میلانات، زبان و بیان پر قدرت اور موضوعات کی ندرت کے حوالے سے اردو کی شعری روایت میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کو شاعرِ انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔

انہوں نے برطانوی استعمار کے زمانے میں واقعتاً ایسی باغیانہ اور انقلابی نظمیں لکھیں جو اُن کی منفرد پہچان کا سبب بنیں۔ وہ حرّیتِ فکر کے علمبردار تھے اور غلامی کی سب صورتوں خواہ وہ سیاسی غلامی ہو یا اقتصادی یا پھر فکری،ان سب کی مدلّل مذمت کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ عقلیت پسندی کو اُن کی فکر میں ایک کلیدی مقام حاصل ہے۔ انہوں نے ہمیشہ عقل کی بالادستی کی وکالت کی۔اس کا اظہار اُن کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی نثری تحریروں میں بھی ہوتا رہا۔

جوشؔکی شاعری تو بالعموم زیرِ مطالعہ رہتی ہے لیکن ان کی نثری تحریریں اتنا زیرِ بحث نہیں آئیں جتنا ان کو آنا چاہیے تھا۔اردو کے معروف محقق اور استاد ڈاکٹر ہلال نقوی صاحب نے جہاں اور بہت سے علمی اور تحقیقی کارنامے سرانجام دیے ہیں وہیں انہوں نے کچھ عرصہ قبل جوشؔ کی نثری تحریروں کو، جن میں بہت سی نایاب تحریریں بھی شامل ہیں، مرتب کرکے ’انتقادیاتِ جوش‘ کے نام سے شایع کیا تھا۔ اس اہم کتاب کی اشاعت کے بعد جوشؔ کی مجموعی ادبی خدمات پر گفتگو کرنا آسان ہوگیا ہے۔

جوشؔکے فکری نظام میں چند بنیادی عناصر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس ضمن میں ہماری نظر تین ایسے تصورات تک جاسکی ہے جو ان کے فکری نظام میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں پہلا عنصر حریتِ فکر ہے۔ جوشؔ فکر کی آزادی کو نظری اور عملی دونوں سطحوں پر دیکھنے اور برتنے کے خواہش مند تھے، اس حریتِ فکر کا اظہار اولاً ان کی اُن نظموں میں ہوا جو حبِ وطن اور انگریز کی غلامی سے نجات کے ولولہ انگیز جذبات سے سرشار تھیں۔

ایسی ہی ایک نظم،’وطن‘ تھی جو انہوں نے 1918ء میں لکھی۔اس وقت جوش ؔ کی عمر محض چوبیس سال تھی۔ اس نظم میں وہ وطن کے ذرّوں میں بوئے چمن اور رنگِ بہار دیکھتے ہیں۔ وطن کے ہر کانٹے سے انہیں درسِ تمنا ملتا ہے۔وہ وطن کے قطروں سے قرأتِ دریا سنتے اور اس کے ذرّوں میں آیتِ صحرا پڑھتے ہیں۔وہ وطن سے بہت سے پیمان ہائے وفا باندھتے اور ان کے لیے جی جان سے گزرجانے کا ایقان افروز اعلان کرتے ہیں۔

پھر ان کی نظم ’شکست ِزنداں کا خواب ‘ہے۔ یہاں آزادی کی خواہش جدوجہد کے راستوں پر چلتی اور بغاوت کی حدود کو چھوتی نظر آتی ہے۔جوشؔ ، زمین سے مارِ سیاہ کے ابلنے اور فلک سے شمشیروں کے برسنے کی نوید دیتے ہیں اور پھر یہ اعلان ہوتا ہے

سنبھلو، کہ وہ زنداں گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے

اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں، دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں

آزادی خواہی اور حبِ وطن کی لے ’آثارِ انقلاب‘، ’وفادارانِ ازلی کا پیام، شاہنشاہِ ہندوستان کے نام‘ میں مزید پروان چڑھتی ہے۔اور پھر’ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب‘ اپنے بھرپور باغیانہ اور انقلابی لحن کے ساتھ سامنے آتی ہے۔

لیکن یہ بات بہت قابلِ غور اور نظر انداز نہ کردیے جانے کی متقاضی ہے کہ غلامی سے نفرت اور حبِّ وطن کی فکر روزِ اول ہی سے جوشؔ کی بین الاقوامیت کا حصہ تھی۔ انہیں وطن دوستی سے بین الاقوامیت کی طرف سفر نہیں کرنا پڑا بلکہ ان کے لیے یہ دونوں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو تھے۔1918ء کی جس نظم یعنی ’وطن‘ کا اوپر حوالہ آیا،اس نظم کے ساتھ جوشؔ کا ایک حاشیہ بھی درج ہے جس میں وہ رقمطراز ہیں:

’میں تمام نوعِ انسانی کو ایک خاندان سمجھتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں۔وطنیت کے اس ناپاک تخیل کو جو خود غرضی ،تنگ نظری، منافرت اور ابنِ آدم کی تقسیم چاہتا ہے،انتہائی حقارت سے دیکھتا ہوں، لیکن اس قدر وطنیت میرا ایمان ہے کہ اپنے گھر کو غاصبوں کی درندگی سے محفوظ رکھا جائے۔‘

حریتِ فکر کی جو سیاسی جہت جوشؔ کی شاعری میں روز ِ اول سے نمایاں ہونا شروع ہوئی تھی اور جس نے اُن کو ’شاعرِ انقلاب‘ کے لقب کا سزاوار ٹھہرایا تھا ، اس کا اظہار ان کی نثری تحریروں میں بھی جگہ جگہ ہوتا ہے۔وہ آزادی خواہی کے مقامی اورعالمی دونوں داعیوں پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں، اسی تناسب و تعلق کے تناظر میں جو انہوں نے ان دونوں کے درمیان پہلے دن سے قائم کرکھا تھا، اور جو ان کے تصورِ عالم(worldview)کا ایک اہم زاویہ تھا مگر حریت ِ فکر کا اظہار صرف جوشؔ کے سیاسی تصورات و نظریات تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ ان کے پورے نظامِ فکر میں جاری و ساری کلیدی رجحان کی حیثیت رکھتا ہے۔

وہ فلسفی تو نہیں تھے مگر ایک مربوط نظامِ فکر کے حامل ضرور تھے۔یہ بات میں اپنی طالب علمانہ حیثیت کے اعتراف کے ساتھ کامل اعتماد سے عرض کررہا ہوں کہ میرے خیال میں جوشؔ کا تصورِ کائنات ہو، کائنات کے امور میں کسی نوع کی وحدت کی تلاش ہو، ان کا تصورِ انسان ہو، ارتقائے انسانی اور سماج کی نشوونما سے متعلق ان کے عمرانی خیالات ہوں، طبقاتی تقسیم کی تنقید ہو، ادب کی تعینِ قدر کا مسئلہ ہو، تعلیم کی اہمیت اور عورت کے حقیقی مقام کا اعتراف اور اس کو اس مقام تک پہنچانے ، نیز اس کو مرد کی غلامی سے نجات دلانے اور مقامِ انسانیت پر فائز دیکھنے کے لیے دیے گئے اُن کے دلائل ہوں جوشؔ صاحب کے یہ سب خیالات ایک مرتب ذہن کی پیداوار نظر آتے ہیں۔ان خیالات میں نہ تو کوئی تناقضِ باہمی ہے اور نہ ہی ان پر کسی تضاد کا گمان ہوتا ہے۔یہی چیز ان کو ان کے بہت سے اُن ہم عصروں میںسے ممیّز اور ممتاز بنا دیتی ہے ، جن کے خیالات کا سفر مختلف وادیوں اور گھاٹیوں سے ہوکر گزرا، وہ ان کے اثرات قبول کرتے رہے، لیکن اپنا کوئی نمائندہ اسلوبِ فکر دنیا کے سامنے نہیں لاسکے۔

جوشؔ کی فکر کا دوسرا بنیادی عنصر عقل اور عقلیت پسندی (rationalism) پر ان کا غیر معمولی اصرار ہے۔ وہ خود بھی ردّو قبول کے ہر مرحلے میں عقل سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور عقل ہی کو دوسروں کے لیے مشعل راہ قرار دیتے ہیں۔آزادیٔ فکر اور عقل کے رہنمایانہ کردار کے بعد جو تیسرا اہم اور اسای فکری عنصر جوش کے ہاں دیکھا جاسکتا ہے وہ ان کے نظام فکر میں جدلیات (dialectics)کی کارفرمائی ہے۔

وہ چیزوں کو ، اقدار و افکار کو، افراد اور اداروں کو، غرض ہر چیز کو اسی حوالے سے دیکھتے ہیں۔ان کے نزدیک اضداد کی کشمکش ہی سماج اور تاریخ کے سفر کو آگے کی جانب لے کر جاتی ہے۔ ان کے اس جدلیاتی طرزِ فکر نے ان کو حقائق ِ کائنات اور حقائقِ ہستی کی تفہیم میں بڑی مدد دی ہے۔یہ اسی انداز ِ فکر کا نتیجہ ہے کہ جوشؔ کسی بھی عہد کی ترقی پرور قوت کو پہچاننے میں دیر نہیں لگاتے۔ اسی طرزِ فکر کو جب وہ اپنے عہد کی تفہیم کے لیے استعمال کرتے ہیں تو ان کو صاف نظر آرہا ہوتا ہے کہ آج کی جمود زدہ اور رجعت پسند قوتیں کون سی ہیں اور سماج کو آگے لے جانے والے محرکات و عوامل کون سے ہیں۔

جوشؔ غیر منقسم ہندوستان اور آزادی کے بعد پاک و ہند میں افکار کی پسماندگی اور دوسری جانب مغرب میں افکار کی نمو اور افزائش کو مشرق و مغرب کے بنیادی تضاد کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہمارے یہاں مسلم دانشوروں میں فکری سطح پر مغرب کے حوالے سے دو طرح کے رجحانات غالب رہے ہیں۔سرسید مغربی تہذیب اور افکارکی تحسین میں غلو کی حد تک چلے جاتے ہیں ، اور مغرب سے مرعوبیت کے رجحان کے نمائندہ بن جاتے ہیں۔اکبرالہ ؔآبادی اور اقبالؔ مغرب کے ناقد ہیں مگر جہاں اقبال مغرب کو یکسر رد نہیں کرتے،اکبرالہؔ آبادی کا رویہ مغرب کی مذمت کی حدوں کو چھولینے کا رویہ ہے۔

ان دونوں انتہائی راستوں سے ہٹ کر جوش ؔکا رویہ عقل سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے ایک ایسے روشن خیال رجحان کی نشاندہی کرتا ہے، جس میں ایک طرف اپنی تہذیب کے کارآمد عناصر کی حمایت کا پہلو نظر آتا ہے ، جبکہ دوسری طرف مغرب کی ایک متعین(calculated)تحسین ہے۔وہ مشرق پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن اس میں ہمدردی اور بہی خواہی کا پہلو نمایاں ہے۔وہ مغرب کی سائنسی اور فلسفیانہ تہذیبی اساس کے بہت معترف ہیں لیکن اس میں مرعوبیت سے زیادہ تنقیدی بصیرت کا پہلو زیادہ کارفرما نظر آتا ہے۔

ان کے خیال میں مشرق کی فطری نشوونما کا راستہ کھوٹا کرنے والی حقیقت مشرق کا تقلید آمادہ رویہ ہے۔وہ مشرق کے ، مسلمات پر قانع اور تقلید پر کمر بستہ تہذیب میں ڈھل جانے پر شکوہ کناں ہیں۔ ان کا یہ رویہ اس وقت ایک بہت مؤثر ادبی پیرایہ اختیار کرلیتا ہے جب وہ یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ مشرق میں اقوال کے تاجروں کو غلبہ حاصل ہے جو اقوال کے بیوپار میں پھل پھول رہے ہیں۔ حکومتیں اس کاروبار کو مہمیز کرتی ہیں اور اساطیر کے سودا گر، یعنی مشرق کے اہل، دانش لگے بندھے راستوں سے ادھر اُدھر دیکھنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

اس ضمن میں جوشؔ کا اردو ادب کا تنقیدی جائزہ ان کے نتائجِ فکر کا سب سے اچھا مرقع ثابت ہوتا ہے۔اپنے مضمون ’شاعری‘ میں انہوں نے روایت و اقوال کے گرداب میں پھنسے ہوئے اردو ادب کا معروضی جائزہ لیتے ہوئے یہ رائے قائم کی ہے کہ یہ ادب اپنی بہت سے ظاہری و معنوی خوبیوں اور اپنی اصناف کی وسعت کے باوجود نئے علوم و افکار کی آماجگاہ نہیں بن سکا۔جوشؔ کے اندر موجود مفکر تاریخ کے طویل دورانیے کو عمیق نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے اتار چڑھائو، بلندیوں اور پستیوں، کامیابیوں اور نامرادیوں پر اس کی نظر پہنچ جاتی ہے۔اس تاریخی بصیرت کے ساتھ جب وہ اردو ادب کے کئی صدیوں میں تیار شدہ سرمائے پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کو اس کے کمزور گوشوں کو دریافت کرنے میں دیر نہیں لگتی۔وہ اردو ادب میں افکارِ تازہ کے فقدان اور اقوال کی تکرار پر شکوہ کناں ہوتے ہیں:

’ہمارا ادب صدیوں کے جسمانی و ذہنی مریض امراء و سلاطین کے ان خوشامد خواہ، قصیدہ طلب ، مسخرگی آموز اور عیاشی افروز اونچے درباروں کا ساختہ پرداختہ ہے جن کی بظاہر بلند و بباطن پست زریں چھتوں کے نیچے انسانی جودتِ طبع کو فشار دیا جاتا،اور خودداری و عزت ِ نفس کو برہنہ ہوکر ناچنے پر مجبور کردیا جاتا تھا‘۔(مضمون:’شاعری‘)

جوشؔ کے خیال میں تخلیقِ فکر سے عاری اور تقلید پر استوار ہماری ادبی دنیا میں انگریزی اقتدار کی آمدپر کچھ ہلچل ضرور مچی۔فرنگی کے دورِ غلامی نے زندگی کے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ ’ ادب پر بھی اس قدر روشنی ڈالی کہ ہماری آنکھیں کھل گئیں۔۔۔۔فرنگی کی بخشی ہوئی ادب آگاہی کے باعث ہم نے یہ ارادہ کرلیا کہ ہم اپنے ادب کے سینے کو چوڑا کرکے اسے دنیا کے عظیم ادبیات کے پہلو میں بٹھا دیں‘(ایضاً)، لیکن ،ہم ایسا نہیں کرسکے۔زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ ’ہم نے ساغر تو نئے بنالیے لیکن ان میں شراب وہی پرانی اور کچی بھری رہی۔۔۔ہمارے ادب کی پیشانی پر اقوال و روایات کی جو چھاپ لگی ہوئی تھی اس پر نیا رنگ تو ہم نے ضرور چڑھادیا ، لیکن اس چھاپ کے نشان کو ہم مٹا نہیں سکے ‘ (ایضاً)۔

جوشؔصاحب کو اس بات کا صدمہ ہے کہ یورپ سے سیاسی تعلق (خواہ وہ غلامی ہی کا کیوں نہ رہا ہو)کے باوجود سائنس اور فلسفے کو ہماری ادبی دنیا میں راستہ نہیں دیا جاسکا۔ یہی کیفیت آزادی کے بعد بھی برقرار رہی۔آج اردو ادب کو جو چیلنج لاحق ہے اس کا ذکر وہ اپنے مخصوص انداز میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’عصرِحاضر ہمارے ادب کو بڑی گرجتی ہوئی آواز سے فکرِ خلّاق کی ان ایجاز آفریں بلندیوں کی طرف للکاررہا ہے جہاں معاشرتی و معاشی، ذہنی و مادی اور سیاسی و صنعتی دھاروں میں صحت افروز توازن پیدا کرنے،حیات و ممات کے بے شمار الجھے مسائل کو سلجھانے،ارض و سما کی سلوٹوں اور تہوں میں لپٹے ہوئے حقائق کی مہریں توڑنے،قوائے معلوم کے مسخر کرنے، قوائے نامعلوم پر کمند پھینکنے، انسان کو خود اس کے اعضا پر حکمران بنانے، اور آخرکار نوعِ انسانی کے برہنہ سر پر دارائی آفاق کا جگماتا ہوا تاج رکھ دینے کی نیت سے ذہنی سے ذہنی کارخانوں کی تمام چھوٹی بڑی مشینیں، حیرت ناک سرعت کے ساتھ برابر گردش کررہی ہیں۔

ہمارا ادب۔ یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے ، لیکن ’’خیال ِ زلف ِجاناں کب ہمارے دل سے نکلے گا‘‘ کہ عمیق غاروں میں اس طرح پڑا ہوا ہے کہ ہاتھ پائوں مار نہیں سکتا ، اس کے پائوں روایات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں، اس کے کانوں میں اقوال کی روئی ٹھسی ہوئی ہے،اس کی آنکھوں پر عشق کی پٹی بندھی ہوئی۔‘(مضمون:’شاعری‘)

جوشؔ جملہ شعبہ ہائے حیات میں انقلابی تبدیلیوں کے علمبردار ہیں:

’زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب،آداب و رسوم میں انقلاب، نظریات و معتقدات میں انقلاب،مسلمات و کلیات میں انقلاب ، سیاسیات و مذہبیات میں انقلاب‘۔

پھر وہ سوال کرتے ہیں اور خود ہی جواب بھی دیتے ہیں:

لیکن آپ جانتے ہیں ان تمام انتظامات کا سرچشمہ کہاں ہے؟ نفسیات سے پوچھیے، وہ جواب دے گی کہ انسان کے ذہن و خیال اور صحیح فکر میں۔ جب تک ’’ذہن و خیال‘‘ میں انقلاب نہ آئے گا کسی نوع کے انقلاب کی امید رکھنا ایک مہمل سی بات ہے، لیکن اس ’’ذہنی‘‘ انقلاب کا سرچشمہ کہاں ہے؟دنیا کی زندہ اور مردہ قوموں کی تاریخ سے سوال کیجیے، وہ جواب دے گی ’’قوموں کے ادبیات‘‘ میں‘(مضمون: ’اردو ادبیات میں انقلاب کی ضرورت‘)۔

گویا جوشؔ صاحب ادب میں نئے افکار کی نمو اور افزائش کو ادب کی نشوونمااور اس کے جدید تر بننے کے لیے ہی ضروری نہیں سمجھتے ، بلکہ وہ ادبیات میں انقلاب کو سماجی انقلاب کا سرچشمہ بھی خیال کرتے ہیں۔ کیا یہ طرز ِ فکر والٹیئر، اور روسو کے انداز فکر سے مختلف ہے؟فرق صرف اتنا ہے کہ فرانس اور یورپ کو اپنے والٹیئر اور روسو کو پہچاننے میں دیر نہیں لگی تھی۔ہم اپنے اہلِ فکر کو سمجھنے کی اہلیت سے محروم ہیں یا ہم کو ایسا کردیا گیا ہے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔

خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔

ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی