شعر و سخن: ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

January 14, 2024

…… شاد عظیم آبادی……

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر

دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم

ہو جائے بکھیڑا پاک کہیں پاس اپنے بلا لیں بہتر ہے

اب درد جدائی سے ان کی اے آہ بہت بیتاب ہیں ہم

اے شوق برا اس وہم کا ہو مکتوب تمام اپنا نہ ہوا

واں چہرہ پہ ان کے خط نکلا یاں بھولے ہوئے القاب ہیں ہم

کس طرح تڑپتے جی بھر کر یاں ضعف نے مشکیں کس دیں ہیں

ہو بند اور آتش پر ہو چڑھا سیماب بھی وہ سیماب ہیں ہم

اے شوق پتا کچھ تو ہی بتا اب تک یہ کرشمہ کچھ نہ کھلا

ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بے تاب ہیں ہم

لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک

اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم

مرغان قفس کو پھولوں نے اے شادؔ یہ کہلا بھیجا ہے

آ جاؤ جو تم کو آنا ہو ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم

سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے

……فیض احمد فیض……

سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے

بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے

ہاں، جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی!

ہاں، ہم ہی کاربندِ اُصولِ وفا نہ تھے

آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں

بُھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے

کیوں دادِ غم ہمیں نے طلب کی، بُرا کیا

ہم سے جہاں میں کشتۂ غم اور کیا نہ تھے

گر فکرِ زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم

کیوں محوِ مدح خوبیِ تیغِ ادا نہ تھے

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا

ورنہ ہمیں جو دکھ تھے، بہت لادوا نہ تھے

لب پر ہے تلخیِ مئے ایّام، ورنہ فیض

ہم تلخیِ کلام پہ مائل ذرا نہ تھے

کھیل اس نے دکھا کے جادو کے

……امجد اسلام امجد……

کھیل اس نے دکھا کے جادو کے

میری سوچوں کے قافلے لوٹے

یا تو دھڑکن ہی بند ہوجائے

یا یہ خاموشیٔ فضا ٹوٹے

تم جہاں بھی ہو میرے دل میں ہو

تم مرے پاس تھے تو ہر سو تھے

نغمۂ گل کی باس آتی ہے

تار کس نے ہلائے خوشبو کے

اس کو لائیں تو ایک بات بھی ہے

ورنہ سب دوست آشنا جھوٹے

نخل امید سبز ہے امجدؔ

لاکھ جھکڑ چلا کئے لو کے