’’عورت‘‘ کا ہے اندازِ بیاں اور !

February 25, 2024

ڈاکٹر ثروت زہرا جدید لہجے اور احساس کی شاعرہ ہیں، پیشہ کےلحاظ سے ایمرجنسی ڈاکٹر ہیں، امریکا میں مقیم ڈاکٹر ثروت ان دنوں پاکستان تشریف لائی ہیں، ان کے اعزاز میں متعدد تقاریب کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے، ثروت زہرا کی شاعری کے دو مجموعے ، ’’جلتی ہوا کا گیت‘‘اور ’’وقت کی قید سے‘‘قارئین اور ناقدین سے داد و تحسین حاصل کر چکے تھے، پچھلے ماہ ان کی شاعری کا نیا مجموعہ ’’کتنے یگ بیت گئے‘‘ شائع ہوا ہے جب کہ ’’کونج کرلائے تھی ‘‘کے نام سے ہندی اور سندھی زبانوں میں تراجم کے مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں انگریزی ترجمہ پر مشتمل کتاب ’’ونڈر لینڈ‘‘ایمیزون پر موجود ہے۔

متحدہ عرب امارات، پاکستان اور انڈیا میں بے شمار ادبی ایوارڈ حاصل کرچکی ہیں جن میں بزم صدف کا 2019ء نئی نسل عالمی ایوارڈ بھی شامل ہے ۔ وہ پاکستان کے علاوہ امریکا، بھارت، بحرین، قطراور متحدہ عرب امارات کے مشاعروں میں شریک ہوتی رہتی ہیں۔ ان کی نظموں ’’بنتِ حوا ہوں میں‘‘ اور ’’ورکنگ لیڈی ‘‘کو بے حد پذیرائی ملی ہے انہیں تمام خواتین کے احساساتی اظہار کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ ان کی نظموں اور غزلوں میں علامات، استعارے اور الفاظ کا اسلوب تازگی اور حیرت کی نئی دنیا سے آشنا کرتا ہے۔

ان کی شاعری پڑھنے اور سننے سے لطیف خوابی دنیا اور جمالیاتی تحسین کی تکمیل کا احساس ہوتا ہے۔ ثروت زہرا کو ان کی ادبی خدمات پر پاکستان، یو اے ای اور بھارت میں متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے معروف ادبی جریدوں میں ان کی شاعری مستقل شائع ہوتی ہے ۔ان کی شاعری کو پاکستان اور بھارت میں طلباء نے اپنی ایم اے اور پی ایچ ڈی کے تھیسیس میں بطور موضوع شامل کیا ہے۔ پاکستان میں ان کے قیام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے ایک نشست رہی ،جس کا احوال پیشِ خدمت ہے۔

سوال: چند مستثنیات کو چھوڑ کر برصغیر ہند وپاک کی دوسری زبانوں کے بہ نسبت، بالخصوص ہندی مراٹھی بنگالی کے مقابلے میں اردو میں تانیثی تحریک کے اثرات بہت کم ملتے ہیں۔ کیا وجہ ہے، کیا اس کی وجہ اردو کاایک خاص مذہب و تہذیب رشتہ ہے یا دیگر عوامل بھی ہیں؟

ثروت زہرا: اردو کا تعلق ایک خاص کلچر سے ہے، اس میں سماجی ڈھانچہ، کسی حد تک مذہب بھی جو ایک پوری تہذیبی روایت ہے۔خاص طور پر بر صغیر پاک وہند میں اردوکے ساتھ جو ایک روایتی تہذیب جڑی ہوئی ہے ۔ ہندی ،مراٹھی اور بنگالی میں بھی یہ روایت تقریبا ً دو سو سال پرانی ہے،بہت عر صے تک تو خواتین دوسرے ناموں سے لکھتی رہیں ہیں۔

خواتین کا مشاعروں میں جانا، شاعری کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا،ابھی بھی کئی شعبے خواتین کے لیے اچھے نہیں سمجھے جاتے، ان میں سےایک شاعری ہے، جس طرح ایک گوندھی ہوئی رسی ہوتی ہے یہ سب بالکل ویسا ہی ہے۔ آرٹ اور آرٹس کے لیے جو بنیادی آزادی کا وصف ہے، جو ایک آزادنہ سوچ ہے ،اُس تک تو مرد بھی ابھی تک نہیں پہنچا۔

خواتین کو اُس جگہ تک پہنچنے میں وقت تو لگے گا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ہم آہستہ آہستہ قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں اور چیزوں کو آسان بنا رہے ہیں۔ خاص طور پر انٹر نیٹ پر موجود دنیاوی علوم جو ہمارے پاس ہے، اس کی وجہ سے یہ عمل کا فی تیز ہوا ہے۔ پہلے خاص جگہ کی خواتین کو موسیقی سے شغف ہوتا تھا تووہ خواتین شعروادب میں دل چسپی رکھتی تھیں، مگر بعض گھرانوں کے مرد اپنی خواتین کو ان سب میں شامل ہونے نہیں دیتے تھے، اسی لیے خواتین نے دوسرے ناموں سے لکھنا شروع کیا۔ فکری آزادی کے در آنے میں کچھ وقت لگا لیکن اب صورت ِحال خاصی مختلف ہوگئی اب خواتین مشاعروں میں بھی آرہی ہیں اور شاعری بھی کررہی ہیں۔ چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں، مگر ان کی رفتار کم ہے۔

سوال: نسائیت کے علم برداروں کا کیا یہ خیال درست ہے کہ نسائی ادیب تخلیق کرنے والی بعض باکمال شاعرات اور افسانہ نگاروں کو دانستہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے؟

ثروت زہرا: ہم ایک پدرسری معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں، جس کی کچھ مخصوص چیزیں لے کرہم بڑے ہوتے ہیں اور وہ چیزیں ہم میں رچ بس جاتی ہے۔ میری ماں فخر سے سب کو بتاتی تھیں کہ ’’میری ساری بیٹیاں کماتی ہیں تو اس گھر میں ان کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا کہ بیٹوں کا ہے‘‘ لیکن اس کے باوجود ان کی یہ خواہش تھی کہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوں تو اپنے بیٹے کے گھر سے ہوں یہی سوچ ہر جگہ کار فرما نظر آتی ہے جب ادب تخلیق ہوتا ہے۔

تو دو خانوں میں نہیں بانٹنا چاہیے، کیوں کہ ہم ایک انسا ن ہیں، فطری نظام ایک انسان کی حیثیت سے ہے ،جب ہمیں عورت اور مرد کے آئینے سے نکل کر دیکھا جائے گا تب ہی کچھ ہوگا اور یہی چیز ادب کے ساتھ ہے ابھی عورت کو گھر سے نکلے ہوئے دوسو سال اور اپنے نام سے لکھتے ہوئےصرف سوسا ل کا عرصہ ہی ہوا ہے۔ عورت کا شعور اوراعتراف کو ناقدین کس طرح دیکھتے ہیں یہ تمام باتیں اہم نہیں ہیں ۔لیکن کچھ مصنفین نے سارے مرحلے عبور کرلیئے ہیں۔

جیسا کہ قرۃ العین حیدر ،ادا جعفری، فہمیدہ ریاض سمیت دیگر خواتین نے اپنا آپ منوایا ہے، مگر کچھ چیزوں پر ابھی دانستہ نہیں بلکہ نہ دانستہ طور پر بھی وقت لگ رہا ہے لیکن میں جانتی ہوں کہ جو پڑھا لکھا دماغ ہے وہ عورت اور مرد کو دو خانوں میں بانٹ کر نہیں دیکھتا اور اب تو خواتین ناقد سامنے آرہی ہیں، جو خواتین کی تحریر، ادب اور دانش کونسائی پیرائے میں دیکھ رہی ہیں۔

سوال: عورتوں نے جو ناول اور افسانے لکھے وہ مردوں کے موضوعات اور رویوں سے کس قدر مختلف ہے؟

ثروت زہرا: عورتوں کے افسانے مردوں کے مقابلے میں بہت مختلف ہیں ۔مثال کے طور پر میں اگر گرمی میں بیٹھی ہوں اور باہر سردی ہے تو اُس لمحے جو میں لکھوں گی وہ سچ جب عورت لکھتی ہے تو وہ اپنے تجربے کے اعتبار سے لکھتی ہے تو زیادہ سچ ہوتا ہے پہلے ایسا ہوا ہے کہ مردوں نے عورتوں کے نام سے لکھا، ان کے تجربات لکھے۔ شعراء نے عورت کا تجربہ لکھا یا منٹو نے عورت کی تکلیف لکھی لیکن جب وہی چیز عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید اور دیگر خواتین نے لکھی تو وہ الگ تھی، کیوں کہ وہ ان کا اپنا سچ تھا اور اپنےسچ کی جو تپش ہوتی ہے وہ الگ ہی ہوتی ہے۔

عورت جو ادب لکھے گی وہ مرد کے ادب سے مختلف ہوگا،اسی لیےعورت نےجو ناولز اور افسانے لکھے وہ الگ تھے اور الگ ہی رہیں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ مرد ہمارا سچ لکھنے کی کوشش نہیں کرتے، مگر وہ اس سچ کو اصل حقیقت میں نہیں لکھ سکتے۔ بالکل اسی طرح سماج یا معیشت نے جو مسائل مرد کو دئیے ہیں اس کا قرب ہم عورتیں نہیں سمجھ سکتیں، اس پر ایک مرد ہی بہتر لکھ سکتا ہے۔ بلکہ اب تو مجھے لگتا ہے کہ عورت مرد کا نہیں، ہر فرد کا سچ الگ ہے۔

سوال: آپ نے جب شعر گوئی شروع کی تو اس وقت آپ کے مطالعہ میں زیادہ کون شعرا تھے؟ کیا ابتدا سے ہی آپ کا لہجہ نسائی رہا ہے؟

ثروت زہرا: سچ یہ ہے کہ میں نے کبھی بھی جان کر نسائی لہجہ اختیار نہیں کیا شاید عورت ہونے کی وجہ سے مجھے نسائی لہجے کا حصہ سمجھا گیا اور خود بہ خود میری تحریروں میں نسائی جھلک نظر آنے لگی۔ میں آج بھی اپنے آپ کو آئینہ میں انسان کی حیثیت سے دیکھتی ہوں۔ بہ حیثیت لکھاری میں کبھی نہیں چاہتی کہ میں اپنے آپ کو مرد یا عورت کے اصناف میں الگ کرکے لکھوں، کیوں کہ میں ایک عورت ہو، بیوی ہوں، ماں ہوں، بیٹی ہوں، ڈاکٹر ہوں تو اسی لئے بھی میرا نسائی لہجہ بنتا گیا اور لوگوں نے مجھے اس کے ذریعے شناخت کیا اور مجھے اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے کسی حدتک یہ میرا افتخار اور عزت افزائی ہے کہ مجھے اسی آئینے میں دیکھا جارہا ہے جو میں ہوں۔یہ اشعار میں نےعورت ہونے کے زعم میں نہیں لکھے یا یہ میرا شعوری معاملہ نہیں تھا۔ اگر کسی کو ایسا لگتا ہے تو بسر و چشم ہے۔

تمہارے منتظر یوں تو ہزاروں گھر بناتی ہوں

وہ رستہ بنتے جاتے ہیں کچھ اتنے در بناتی ہوں

جو سارا دن میرے خوابوں کو رزّہ رزّہ کرتے ہیں

میں ان لمحوں کو سی کر رات کا بستر بناتی ہوں

یہاں پر صرف میرے نام کی تختی لٹکتی ہے

میں ڈر سے شہرت ِآوارگی کے گھر بناتی ہوں

سوال: ادا جعفری، وحیدہ نسیم اور دیگر روایتی لہجہ کی شاعرات نے کبھی آپ کو متاثر کیا؟

ثروت زہرا: جی ہاں مجھے ان سب کے لہجوں نے متاثر کیا، کیوں کہ روایت ہماری جڑ ہے جب ہم روایت سے اوپر اُٹھتے ہیں تو اپنے وقت میں جیتے ہیں۔ جیسے کسی درخت کے کچھے حصے نیچے ہوتے ہیں ،کچھ ہوا میں ہوتےہیں اور کچھ اوپر ہوتے ہیں، تب اس کے پھل، پھول آتے ہیں۔ مجھے اردو فارسی، ہندی، ایرانی شعراء، ادا جعفری، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، کشور ناہید، عشرت آفرین، تنویر انجم، فہمیدہ ریاض فاطمہ حسن، زہرا نگاہ، پروین شاکر، افضال احمد سعید، علی محمد فرشی، افتخار عارف، منیر نیازی اور دیگر تمام شعراء نے متاثر کیا۔

جب ہم کسی جگہ یا باغ سے گزرتے ہیں تو اس کے پولنزز اور ذرّات ہم پر اثر کرتے ہیں بالکل اسی طرح یہ تمام لوگ مجھے ذرخیز کرتے رہے میرے پاس مجھے متاثر کرنے والے لوگوں کی ایک فہرست ہے ان تمام لوگوں کی روشنی مجھے پر منعکس رہی ہے نہ صر ف یہ لوگ بلکہ میں نے اپنے مریضوں سے بھی بہت کچھ عکس کیا ہے۔ کیلاش کے ذریعےسندھی ادب مجھ تک پہنچا، پشتو لوک ادب سے سیکھتی رہی۔ پنجاپ میں رہی تو وہاں کے طور طریقے سیکھے۔

ڈاکٹر کی حیثیت سے دبئی میں جب تک پریکٹس کرتی رہی تو عرب کا کلچر، عرب خواتین کی خوبیاں،ان کے لٹریچر کے تراجم مجھ تک پہنچتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں میں نے ایرانی،فارسی اور انگریزی شعراء ورجینیا ولف، سیمون ڈی بیوویر اور دیگر شعراء کو بہت پڑھا ہے۔ جب بھی کسی کتاب کو پڑھتی ہوں تو میں اصل میں اس فرد سے ملتی ہوں۔ ان کی صلاحیتوں کو اپنے اندر جذب کرتی ہوں، یہی وجہ ہے کہ میں نے ان سب سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہے اور ابھی تک سیکھ رہی ہوں۔

سوال: معیار کے لحاظ سے تانیثی ادب کا مستقبل کیا ہے؟

ثروت زہرا: بہت اچھا اور روشن مستقبل ہیں ،کیوں کہ جیسے جیسے عورت کا شعور بڑھ رہا ہے ویسے بھی اب تو دنیا ایموشنل انٹیلی جنس کی ہے اور عورت ایموشنز کی بنی ہوئی ہے۔ ایموشنز ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔ ایموشنز ہی ایک عورت کو ماں بناتے ہیں ایک مرد کو باپ بناتے ہیں۔

دوست بناتے ہیں، انسان بناتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے اس دور میں یادداشت اور ذہانت کے مسائل تو حل ہوجائیں گے لیکن تخلیقی جوہرکی ضرورت پھر بھی رہے گی، اس تخلیقی غفور کی جو صرف انسانوں کا حصہ ہے جو اُن پانچ حساسیت سے آگے کی بات کرتا ہے اور چھٹی حس تک پہنچتا ہے وہ تخلیقی لمحہ صرف انسانوں کو نصیب ہے ۔اسی لیے تانیثی ادب کا مستقبل بہت بلند ہے۔

سوال: آپ کے شعری مجموعوں کے درمیان میں10 سال کا وقفہ رہا۔ بقول خود آپ کے کہ شاعری تو وہ آگ ہے جو آپ کے اندر مسلسل جلتی ہے، تو لوگوں تک اسے پہنچانے میں اتنا وقت کیوں لگا؟

ثروت زہرا: مستقل طور پر بہ حیثیت ایمرجنسی فزیشن اور آئی سی یو فزیشن دبئی میں،میں نے بہت مشکل ترین نوکری کی ہے۔ دن کے بارہ گھنٹے ڈیوٹی کرتی تھی۔ اس کے ساتھ گھر اور بچّوں کی ذمہ داری بھی تھی۔ نا لکھنا میرے بس میں نہیں ہے، لکھ تو میں کسی بھی لمحے لیتی ہوں لیکن ان کو مرتب کرکے کتابی شکل میں لانا ایک مشکل مرحلہ ہے، اپنی تحریروں کو پھر سے دیکھنا میرے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے، کیوں کہ جس تکلیف سے آپ گزرے ہوتے ہیں اُس میں دوبارہ جانا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

پہلی کتاب’’جلتی ہوا کا گیت ‘‘اوردوسری کتاب ’’وقت کی قید سے ‘‘شائع ہونے کے بعد جان بوجھ کر میں نے دس سال کا وقفہ لیا۔گزشتہ سال تھوڑا وقت تھا تو میں نے تیسری کتاب ’’کتنے یُگ بیت گئے‘‘ پر کام کیا جو کہ پچھلے ماہ لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ اب میں کچھ اور کتابوں پر کام کررہی ہوں، جس میں فارسی نثری نظموں کے ترجمےاور نثر کی کتاب شامل ہے۔

سوال: آپ کی فکر کا کینوس بہت وسیع ہےجو آپ کی نظموں میں محسوس ہو جاتا ہے۔ ایک طرف "ورکنگ مدر" جیسی پر حقیقت، سامنے سے نظر آنے والے انسانی تجربات اور دوسری طرف "e=mc²" اور "لوح محفوظ سے کلام" جیسی نظمیں۔ یہاں میرے آپ سے دو سوالات ہیں شاعری شروع کرنے کا inspiration ان میں سے کس سے آیا؟ عام زندگی اور اس کے مسائل سے یا ان سب سے بہت اوپر جہاں انسانی دماغ کائنات کی سیر کرتا ہے اپنے وجود کی اردگرد کی حقیقتوں کی تلاش میں ازل سے انسان سرگرداں ہے؟

ثروت زہرا: شاعری سے متاثر ہونے کی اہم وجہ یہ تھی کہ میرے خاندان میں کئی لوگ شاعر تھے۔ میرے تایا علی عباس زیدی شاعری کرتے تھے، جون ایلیا نے ان کی کتاب کا دیباچہ لکھا ہے میرے پاپا کاظم عباس زیدی نوحے اور مرثیے لکھا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں میرے بہن اورکئی کزنز کا تعلق بھی لکھنے سے ہے۔ میرے ماموں محمد مظاہر نے تراجم پر بہت کام کیا ہے، میرے اردگرد اور بھی بہت سارے لوگ ہیں جن میں کوئی تھیٹر، شاعری اور نثر سے منسلک ہے، غرض یہ کہ کوئی نہ کوئی ادب کے کسی حصے سے جڑا ہوا ہے تو میرے پرورش بھی ان سب کے درمیان ہوئی، مجھے بچپن سے اسی کی چوری کھلائی گئی۔

مجھے یاد ہے بچپن میں ہم کزنز کے کھیل بیت بازی اور تقریری مقابلے ہوا کرتے تھے۔ بعدازاں ٹیلی ویژن اور ریڈیو میں مزید تربیت حاصل کی۔ بزم طلبہ میں یاور مہدی سے بہت سیکھا۔ اسکول اور کالج کے زمانے میں تقریری مقابلے میں حصہ لے کر کئی انعامات اپنے نام کیے۔ میں اصل میں دوسطحوں پر جیتی ہوں ایک تو دنیاوی سطح ہے جہاں پر میں ڈاکٹری، امور خانہ داری اور بچّوں کی ذمہ داری کے فرائض انجام دیتی ہوں اوردوسری طرف ایک اندرون ہے جو مستقل طور پر میرے وجود سے کلام کرتا رہتا ہے۔میرے دماغ کے اندر ایک کائنات ہے جو گردش کرتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عام زندگی کے وسائل بھی مجھے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

کسی مریض کا علاج کرتے ہوئے، ایمرجنسی میں کسی کو تنفّس دیتے ہوئے ، کبھی کسی کتاب کو پڑھتے ہوئے، کبھی کسی کے مرض کے بارے میں سنتے ہوئے، کسی کی تکلیف پر روتے ہوئے۔ اس طرح میں دو سطحوں پر جیتی ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ یہ اندر کا کیا میکنزم ہے جو شعوراور لا شعور ایسی جگہ پر آجاتا ہے اور میں ایسی کیفیت میں چلی جاتی ہوں جہاں پر کچھ لکھ لیتی ہوں، شاعری کرلیتی ہوں۔ بس میرا کام اُس وقت کوپہچان لینا ہوتا ہے۔

سوال:‎ اس طرح کے عنوان ، زمین کا الٹرا ساؤنڈ ،e=mc²، عورت = لامکانی، ان کی اردو ادب میں کیا تاریخ رہی ہے؟

ثروت زہرا: زندگی میں جب بھی نیا دور آتا ہے وہ پہلے سے مختلف ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ’’آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں‘‘‎یہ جن موضوعات پر میں نے لکھاe=mc² زمین کا الٹرا سائونڈ۔ میں گائنالوجسٹ ہوں اورجب زمین کو دیکھتی ہوں تو اس کا الٹرا سائونڈ خیال کی سطح پر نظر آتا ہے ،کیوں کہ میں زمین میں اس منظر کو دیکھ رہی ہوتی ہوں جو الٹرا ساونڈ کے ذریعے ڈاکٹر کی حیثیت میں انسانی وجود میں دیکھا ہوتا ہے۔ میرے مو ضوعات میں اس لیے یہ چیزیں آ جاتی ہیں لیکن مجھ سے پہلے بھی بہت سے ادباء نے ان موضوعات پر لکھا ہے۔

سوال: آپ امریکا میں مقیم ہیں وہاں ادبی ذوق اور محفلوں کا احوال بتائیں، وطن سے دور کیا محسوس کرتی ہیں؟‎

ج: ایک نظم لکھی تھی ‎معیشت کی رسی سے یہ راتب شوق کھینچا گیا ہے ‎یہ نظم پردیس میں رہ کر میرے دل کا کیا حال ہے یہ اس کی عکاسی کرتی ہے اور یہ بات میں بتادوں کہ میں پردیس میں رہ کر بھی دلی طور پر پاکستان میں ہی ہوں۔ پاکستان میں پیش آنے والی واقعات ،جب عدالت میں کھڑی کسی عورت مرد کو انصاف نہیں ملتا ،کسی پر تشدد ہوتا ہے تو مجھے لگتا ہے میں دلی طور پر انہی پاکستانی گلی کوچوں میں بھٹک رہی ہوں لیکندبئی ہو یا امریکا میں موجود پاکستانیوں کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ یہ لوگ بھی اسی زمین کے پیاسے ہیں ،جس کی میں ہوں۔ وہاں بھی اردو ادب سے جڑے لوگوں سے میرا تعلق رہتا ہے۔ دبئی میں رہ کر مجھے یہ فائدہ ہوا کہ ہند و پاک سے آنے والے اردو ادب کے لوگوں سے میرارابطہ ہوا،ان لوگوں کی قربت میں بھی سیکھا۔

سوال: نسائی لہجہ آپ کی شناخت بنا اب آپ زندگی سے جڑے مسائل پر بھی نظمیں کہہ رہی ہیں، اس کے لئے کافی مطالعہ اور غور فکر درکار ہے،یہ کیسے کر لیتی ہیں؟

‎ڈاکٹر ثروت زہرا : پہلے تو ڈاکٹر کے فرائض انجام دینے کے ساتھ جیسے ہی تھوڑا وقت ملتا تو لیپ ٹاپ پر کچھ کتابوں کا مطالعہ کر لیتی تھی ۔لنچ ٹائم میں وقت ملتا تھاتو پڑھ لیتی تھی۔ راستے میں آڈیو بکس سنتی تھی اوراب بھی میں یہی کرتی ہوں گھر کے کاموں کے دوران بھی میں آڈیو بکس یا انٹریوز سنتی رہتی ہوں ۔غرض یہ کہ پڑھنے کا عمل جاری رکھتی ہوں۔

سوال: اردو میں آج بھی روایتی شاعری زیادہ ہے جس پر اساتذہ کا مستند اور نادر کلام اور خیال موجود ہے،حسن وعشق، ہجر وصال،لب و رخسار کی شاعری کے بارے میں آپ کیا سمجھتی ہیں ہر دور کا ادب تاریخ بھی لکھ رہا ہوتا ہے، جیسے پاکستان میں منٹو اور فراز کی نمایاں مثال دی جا سکتی ہے، اس راستے کو اختیار کرنا کتنا مشکل ہے اور یہ کم کم کیوں ہے؟‎

ثروت زہرا: میں عشق،محبت اور جذبوں سےانکار نہیں کرتی ،کیوں کہ ان جذبوں میں ہی دکھ کی شاخیں نکالتی ہیں ۔یہ محبت ہی ہےجو مجھے لکھنے پر مجبور کرتی ہے ۔تو میں کیسے انکار کرسکتی ہوں ہجر وصال کا ۔میں ہجرت پر جو لکھی رہی ہوں اس سے بڑا ہجر کون سا ہوگا۔

سوال: ڈاکٹری اورشاعری دومختلف شعبوں سے آپ کا تعلق ہے دونوں کو ایک ساتھ کیسے لے کر چلتی ہیں ؟

ثروت زہرا: سندھ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی،پھر تقریروں میں حصہ لیتی رہی ،ریڈیو پاکستان،بزم ِطلبہ،ٹیلی ویژن پر خبریں بھی پڑھیں۔ یہ سب چھوڑ کر صرف ڈاکٹری کرنے لگی ۔اس کے درمیان جب کبھی وقت ملتا تو شاعری کر لیتی تھی لیکن اندرونی سطح پر میں مستقل ایک شاعرہ ہی رہی اس کو میں نے ایمرجنسی روم میں بھی الگ نہیںہونے دیا جب بھی کوئی شعر کا احساس ہوا، طبیعت مضطرب محسوس ہوئی تو میں کنارے میں جا کر موبائل میں نظم ریکارڈ کرلیتی تھی۔

اسی طرح راستے میں وقت ملتا تھا تو شاعری کرتی تھی۔ دونوں میں متوازن کیسے قائم رکھتی ہوں یہ تو مجھے خود نہیں معلوم بس کوشش کرتی ہوں دونوں کو ساتھ لے کر چلوں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ جو مجھے مسیحائی کا کام ملا وہ اصل میں ‎میری شاعری کا ساتھی ہے، کیوں کہ اصل میں ہم لکھاری کسی نہ کسی سطح پر انسانی روح سے کلام کرنا چاہتے ہیں۔