امریکہ کی دھونس، خوب چل رہی ہے

September 13, 2013

روشن خیال، مذہبی رواداری اور علم و فضل کے حوالے سے۔ جیسے مسلمانوں پر ادبار نازل ہوتارہا، طرح طرح کے فتوے جاری ہوتے رہے۔ اس سلسلے میں نیا فتویٰ یہ بھی جاری کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو کارٹون نہیں دیکھنے چاہئیں۔ اسی فتوے کے زمانے میں یہ تحقیق بھی سامنے آئی ہے کہ آج سے تین ارب سال پہلے زندگی بالکل اسی طرح مریخ پر تھی۔ وہاں بھی جب مذاہب نزول کی جانب رواں ہوئے ہوں گے تو اس طرح کے فتوے جاری ہوئے ہوں گے کہ کبھی ایکسرے کرانے کے خلاف تو کبھی آنکھ کا آپریشن کرانے کی ممانعت کرتے ہوئے، فتوے جاری کئے گئے تھے۔ عیسائیت یا کوئی اور مذہب کی مثال لے لیں فتووں کی نوعیت بالکل اسی طرح کی ہے۔ بڑا کرم کیا ہے پوپ نے کہ انہوں نے اپیل کی ہے کہ سب لوگ شامیوں کے لئے روزہ رکھیں کہ تمام شامی،امریکی عذاب سے نکل آئیں۔ ان بے چارے کو یہ اندازہ شاید نہیں ہے کہ امریکی حکومت اور خاص کر اوباما کو کوئی نفسیاتی مرض لاحق ہے۔ اب جبکہ وہ افغانستان سے فوجیں نکالنے والا ہے وہ اپنی فوجوں کا مسکن شام کو بنانا چاہتا ہے۔ پہلے اس نے کویت اور ایران کو لڑایا کہ ان کی دولت اور تیل کے ذخائر برباد ہوجائیں پھر وہی عراق جو امریکہ کا دوست تھا، وہ اب دشمن ہوگیا اور کہا کہ یہاں مہلک ہتھیار ہیں۔ جب سارے عراق کو تباہ کردیا تو پھر لیبیا کی جانب اپنی توپوں کا رخ کیا۔ بعدازاں مصر کی ساری دولت اور ساری فوج کو تباہ کیا۔ افغانستان میں بھی اپنی فوجوں کی حفاظت کے لئے بنکرز سے لے کر ہوٹل تک بنائے جبکہ افغانی قوم اسی طرح شوربے میں سوکھی روٹی ڈبو کر کھاتی رہی، غاروں میں رہتی رہی، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر چلتی رہی اور اسمبلی میں اپنی کارندہ مخلوق جس میں عورتیں بھی شامل تھیں ان کو بھیجنے کے بعد، امریکیوں کے ذریعہ مشتہر کیا جاتا رہا کہ افغانستان میں جمہوریت بھی ہے، مساوات بھی ہے حالانکہ جو کتابیں احمد رشید اور کینیڈین صحافی کیتھی گینن نے لکھی ہیں، وہ کوئی اور کہانی کہتی ہیں۔ وہ متضاد باتیں بتاتی ہیں۔ پچھلے مہینے پٹیالہ میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں افغانستان سے انارکلی نامی سینیٹ کی ممبر وہاں پہنچیں۔ اصل میں تو ان کا تعلق ایک سکھ خاندان سے تھا مگر حالات کو دیکھتے ہوئے آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے اس کا نام انارکلی رکھا گیا تھا۔ اس نے بڑی گلابی اردو میں تقریر کی اور بہت خوبصورت عورتوں کے درجات کا ذکر کیا۔ ”ہم چب رہے۔ منظور تھا پردہ ترا“۔ سارے میرے سردار بھائی، اس کی تعریف کرتے نہیں تھک رہے تھے۔ ہم جانتے تھے کہ ہندوستان اور افغانستان کے نئے رشتوں کے تسلسل میں اس خاتون کی آمد بھی معنی خیز تھی ورنہ کہاں پنجابی اور کہاں انارکلی کور۔امریکی ایسے ڈرامے بہت کرتے ہیں۔ شرمین چنائے کو بھی بہت چڑھایا۔ اس کی فلم کا امریکی سفیر کے گھر پر شو منعقد کیا گیا۔ بعد میں جب لوگوں نے کہا کہ ہم بھی یہ فلم دیکھنا چاہتے ہیں تو جواب ملا کہ جن خواتین کا قصہ اس فلم میں بیان کیا ہے انہوں نے منع کرادیا ہے۔ اس طرح کئی اور فلمیں جس میں پاکستان کا پس منظر رکھا گیا۔ سرمایہ امریکی لگایا گیا اور دنیا بھر کو یہ تماشا دکھایا گیا۔میرا نائر نے بھی پاکستانی مصنف کے ناول پر فلم بنائی کہ جتنی پاکستان میں القاعدہ کی حرکتوں کو بے نقاب کیا جائے تو اچھا ہے۔ کبھی اس موضوع پر فلم نہیں بنائی کہ ہندوستان میں بھی کس قدر لڑکیوں پر ممبئی اور دلّی میں جنسی زیادتیاں ہورہی ہیں۔ کس طرح 72سالہ سادھو، بارہ سالہ لڑکی کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے پکڑا گیا۔
امریکہ میں تو یہ عام بات تھی کہ سوتیلے باپ، سوتیلی بیٹیوں کے ساتھ زیادتی کرتے تھے۔ ہمارا ملک بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم پردہ پوشی کرتے ہیں۔ البتہ اپنی پسند کی شادی کرنے پر، دونوں خاندان شرم کے مارے اکٹھے ہوجاتے ہیں جہاں موقع ملتا ہے لڑکے اور لڑکی کے ساتھ جیسا سلوک چاہیں کرڈالتے اور پھر خاندان کی عزت بچانے پر یوں فخر بھی کرتے ہیں اور اپنے کئے پہ نادم نہیں ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک پروگرام میں کہا گیا کہ ایک مشہور کرکٹر کے گھر ، ایک خاتون ٹھہری ہوئی ہے جس سے وہ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ تھا کہ کیا یہ شرعاً جائز ہے۔ بھلا کس نے اجازت دی ہے کہ یوں دوسروں کے گھروں میں جھانکیں اور فتوے دینے کے لئے ایسی باتیں مشتہر بھی کریں جن کو سننا ، عام گھروں میں معیوب سمجھا جائے۔ہمیں سب کی بیٹیوں کی حرمت رکھنی چاہئے مگر اکثر ہم اسلام کو فراموش کرکے، دوسروں کی بیٹیوں پہ حرف زنی کرنے لگتے ہیں۔لوگ پوچھتے ہیں۔ جن موضوعات کا آپ ذکر کررہی ہیں۔ کیا ادیب بھی ایسا سوچتے اور لکھتے ہیں ۔ کراچی ہی کو لے لیں۔ ایک تو پوری کتاب فہمیدہ ریاض نے لکھی تھی۔ اجمل کمال نے بھی خاص نمبر کراچی شائع کیا تھا اور اب بھی مسلسل نئی کہانیاں اور نظمیں سامنے آرہی ہیں کہ جو حال بیروت اور فلسطین کا رہا ہے، وہی حال اب کراچی کا ہے۔ کے پی کے نصاب میں بچوں کو جہاد کا سبق سکھایا جائے گا تو پھر صرف ساڑھے تین کروڑ بچے ہی ناخواندہ ہیں۔ ان میں سے آدھے بچے تو خودکش بمبار بن جائیں گے۔ مغرب نے دیکھ لیا کہ بچوں کے کھلونوں میں بندوقیں اور پستول چلانا، چھوٹے بچوں کو سکھانے سے، بڑے ہو کر وہی بچے چاہے پاکستانی ہوں کہ امریکی، یوں ہوائی فائر کرتے ہیں کہ دل دہل جاتا ہے۔ بلور صاحب کے خلاف اس قدر بندوقوں کو چلانے والوں کے باعث، مقدمہ درج کیا گیا تھا مگر مقدمات ادھر درج ہوتے ہیں، ادھر فائل۔ یہ تو غریب لوگ ہیں جو دوسرے شہر سے تاریخ بھگتنے آتے ہیں۔ منشی دوسروں سے پیسے لے کر نئی تاریخ ڈلوا دیتا ہے۔ آخر کس کس بات کی شکایت عدلیہ سے کریں!