موجودہ سیاسی بحران

March 20, 2022

قومی سیاست میں خاصی ہلچل مچی ہوئی ہے، ایک غیر یقینی صورتحال ہے جو ہر گزرتے لمحے بدلتی نظر آرہی ہے۔ متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے، اسپیکر 14 روز میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے پابند ہیں جبکہ 7 روز میں تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانا ہوگی، تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے اپوزیشن کو 172 ووٹ درکار ہیں جبکہ اس وقت متحدہ اپوزیشن کے پاس 162 اراکین موجود ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنی اپنی کامیابی کیلئے پر امید ہیں جبکہ دوسری طرف ق لیگ کے بعد ترین گروپ ایک بار پھر اہمیت اختیار کر گیا ہے پی ٹی آئی رہنما علیم خان 40 اراکین کی حمایت کے دعوے کے ساتھ ترین گروپ میں شامل ہوئے ہیں۔ ترین گروپ کا کہنا ہے کہ مائنس عثمان بزدار سے کم پر بات نہیں ہوگی اگر ترین گروپ سے وزیر اعلیٰ نہ بنایا گیا تو تحریک عدم اعتماد میں ہمارے پاس آپشن موجود ہیں حتمی فیصلہ جہانگیر خان ترین کریں گے۔دوسری طرف ق لیگ کے رہنما چوہدری شجاعت حسین کی مولانا فضل الرحمٰن کے گھر آمد بھی معنی خیز ہے دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں تحریک عدم اعتماد کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ بیساکھیوں کے سہارے کچھ دیر تک تو کھڑا رہا جاسکتا ہے مگر مستقل طور پر کھڑے رہنا نا ممکن ہوتا ہے۔ویسے تو ہر چیز کے بدلنے کا موسم ہوتا ہے مگر سیاستدانوں کے بدلنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا یہ ناشتہ ایک جماعت کے رہنمائوںکیساتھ کرتے ہیں تو لنچ دوسری جماعت کے رہنمائوں کیساتھ اور شام کا کھانا تیسری جماعت کے لیڈر کی میز پر کھاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں اخلاقی، قانونی تقاضوں اور اصول و ضوابط کو نظر انداز کر کے ہمیشہ الیکٹ ایبلز کا سہارا لیتی ہیں اور پھر اس کا خمیازہ انہیں اس وقت بھگتنا پڑتا ہے جب حکومت پر کوئی کڑا وقت آتا ہے جیسا کہ آج کل پی ٹی آئی کی حکومت کو سامنا ہے خفیہ اداروں نے ایسے 28 اراکین کی فہرست فراہم کی ہے جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ تحریکِ عدم اعتماد میں اپوزیشن کو ووٹ دے سکتے ہیں ان میں اکثریت ان اراکین کی ہے جو دوسری جماعتوں سے پی ٹی آئی میں آئے تھے۔ پی ٹی آئی کے 12ایم این ایز کی لسٹ تو سامنے آچکی ہے۔ بہر حال تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا ناکام لیکن ملک اگرایک بحران سے نکلتے نکلتے کسی نئے بحران میں پھنس گیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک جس بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے،مسائل جس قدر بڑھ چکے ہیں،ان کا تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر اعتماد کریں۔

تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے حالات سب کے سامنے ہیں۔وزیراعظم عمران خان لاکھ دعویٰ کریں کہ انہوں نے ملک کو سیدھی راہ پر ڈال دیا ہے، زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ ملک میں قومی حکومت قائم نہیں ہو سکتی تو کم از کم حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ تو قائم کی جا سکتی ہے۔گزشتہ ساڑھے3 سالہ دور میں تو حالات اس حوالے سے کچھ زیادہ ہی خراب رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن سے بات تک کرنے کو اپنے لیے شجر ممنوعہ بنائے رکھا،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آرڈی نینسوں کے ذریعے کام چلایا جاتا رہا، حالات بڑھتے بڑھتے عدم اعتماد کی تحریک تک آ گئے ہیں اور اِس وقت دونوں طرف سے الزامات اور القابات کی پٹاری کھلی ہوئی ہے۔اپوزیشن کی وہ جماعتیں جو اِس وقت مشترکہ طور پر حکومت کے خلاف صف آرا ہیں،یہ فیصلہ کر لیں کہ اگر وہ کامیاب ہو گئیں تو آئندہ 5برس تک ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی رہیں گی،اور حکومت بھی متحد ہو کر بنائیں گی اگر یہی خواب دیکھا اور دکھایا جائے تو اس میں بھی کچھ نہ کچھ اطمینان کا پہلو نکل سکتا ہے،قومی حکومت کا خواب خواہ جیسا بھی سہانا ہو، اس کی تعبیر ڈھونڈنا ممکن نہیں۔

جب سے تحریک عدم اعتماد جمع ہوئی ہے، وزیراعظم عمران خان عوامی جلسے کر رہے ہیں۔اِن جلسوں میں جو زبان استعمال کی جاتی رہی اْس سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے اندر ارکانِ اسمبلی کے ذریعے ہونے والے ایک فیصلے پر اثرانداز ہونے کیلئے جلسوں کی یہ تکنیک کس حد تک کارگر ثابت ہو سکتی ہے، سوائے سیاسی ماحول کو گرمانے اور عوام میں تقسیم پیدا کرنے کے۔چلیں یہ معاملہ بھی اتنا ضرر رساں نہیں تھا اور وزیراعظم عمران خان جلسے کر کے اپناغبار نکال رہے تھے،مگر جب سے تحریک انصاف نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد سے ایک دن پہلے اسلام آباد کے ڈی چوک میں10 لاکھ افراد کا ایک جلسہ کرے گی اور ساتھ ہی وزرا یہ دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ ارکان اسمبلی اْسی10 لاکھ افراد کے اجتماع سے گزر کر قومی اسمبلی کے اندر ووٹ دینے جائیں گے اور وہیں سے واپس گزریں گے تو صورتٍ حال خاصی پیچیدہ ہو گئی ہے۔

کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے،کیا آئین میں اس کی گنجائش ہے؟ حکومت کی اس حکمت ِ عملی کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن نے جوابی تیر چلا دیا ہے، پی ڈی ایم کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ23مارچ کو شیڈول کے مطابق لانگ مارچ کا آغاز ہو گا،جو24مارچ کو اسلام آباد ڈی چوک پہنچے گا اور اْس کے شرکا تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے تک وہیں بیٹھے رہیں گے۔ اپوزیشن کے حامی ارکان اسمبلی کو پارلیمنٹ ہاؤس پہنچائیں گے اور انہیں باحفاظت واپس بھی لائیں گے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈی چوک پر پی ڈی ایم اور اپوزیشن کے حامی اس وقت پہلے سے موجود ہوں گے جب تحریکِ انصاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے سے ایک دن پہلے وہاں جلسہ کرے گی،اس صورت میں وہاں کیا منظر ہو سکتا ہے اس کے بارے میں سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔