تحریک عدم اعتماد اور غیریقینی صورتحال!

March 20, 2022

قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اراکینِ اسمبلی کو کروڑوں روپے کی آفرز کی اطلاعات تشویشناک ہیں، تحریک عدم اعتماد کاکیا نتیجہ نکلتاہے اس کے بارے میں ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتالیکن تحریک انصاف کی حکومت کے پائوں کے نیچےسے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کی خبروں کاالیکشن کمیشن کو فوری نوٹس لینا چاہئے۔ ارکان اسمبلی کی ہارس ٹریڈنگ میں ملوث افراد کے خلاف آرٹیکل 62اور63کے تحت کارروائی عمل میں لائی جانی چاہئے۔ تبدیلی حکومت ناکام،انتخابی اصلاحات کے ذریعے ملک میں نئے انتخابات کاانعقاد ضروری ہو چکا ہے۔

اس وقت اپوزیشن کی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی صرف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سڑکوں پر ہیں۔ تبدیلی سرکار نے عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے،لگتا ہے ظلم و جبر کا یہ دور اب جلد ختم ہو جائے گا۔جو حکومت عوام کو ریلیف فراہم نہیں کرسکتی اس کو برسر اقتدار رہنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنی مقبولیت عوام میں کھو چکی ہے۔ آج ملک وقوم بدترین معاشی حالات سے دوچار ہیں۔ حکومت میں شامل مافیاز اپنے اپنے مفاد کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف سرگرم ہیں۔ 22کروڑ عوام نے نام نہادتبدیلی،حکومت کی اہلیت اور صلاحیت سب کو ہی اچھے طریقے سے دیکھ لیا ہے۔ ان کے پاس اب جھوٹے دعوؤں اور وعدوں کے سوا کچھ نہیں ہے،عوام کو اب حکومت کی کسی بات پر اعتبار نہیں رہا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت ہر شخص پریشان ہے۔

حکومتی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری روک دی ہے۔ ملک میں غیر یقینی صورتحال اور سیاسی عدم استحکام تاجروں کےلیے سب سے بڑی پریشانی ہے۔ حکومت عوام اور سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ اس کے اتحادی بھی ایک ایک کرکے اس کی کارکردگی سے مایوس ہو کر پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ ارباب اقتدار میں عقل اور دانش نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔

موجودہ حکمرانوں کی گھبراہٹ مکمل طور پر عیاں ہوچکی ہے۔ ایسے دکھائی دیتا ہے کہ حکومت اپنے ہی لوگوں کے نشانے پر ہے۔ عوام کو گمراہ کرنے والوںکے دن جلد پورے ہونے والے ہیں۔ قومی اداروں کو سیاست میں گھسیٹنا درست نہیں ہے۔ملک کے حالات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں۔ حکومت کاکام ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھے۔ مگر بد قسمتی سے وہ خود ہی انتشار کی سیاست کرر ہی ہے۔ انتشار اور افراتفری سے ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ ملک کو ان دگرگوں حالات سے نکالنے کے لیےاب نئے انتخابات ناگزیر ہوچکے ہیں۔ حکومت اپنی نااہلی اور نالائقی کے الزامات دوسروں پر ڈال کر بری الذمہ ہوناچاہتی ہے۔ عدم اعتماد لانا اپوزیشن کا آئینی و قانونی حق ہے۔ حکومت اس کا مقابلہ قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کرے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ وزیر اعظم نے حالیہ چند روز کے اپنے خطابات میں نامناسب اور نازیبا باتیں کی ہیں۔وہ قوم کو بتائیں کہ ملک میں اگرریکارڈ ٹیکس وصولی کی گئی ہے۔ بیرونِ ملک سے زر مبادلہ پاکستان منتقل ہوا ہے اورفصلوں کی بھی ریکارڈ پیدوار ہوئی ہے اسی طرح ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور پاکستان ترقی کی راہ پر تیزی سے منازل طے کررہا ہے تو آخر اس کے ثمرات عوام کی زند گی پر کیوں مرتب نہیں ہورہے؟ ایسے معاشی اشاریوں سے قوم کو گمراہ نہیں کیا جاسکتا۔حکومت کے دعوؤں کے برعکس ملک میں اس وقت ریکارڈ مہنگائی ہے۔تمام اشیائے ضروریہ غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ اِس دورِ حکومت میں عوام کو حقیقتاً آٹے دال کا بھائو معلوم ہوا ہے۔حکومت کی طرف سے جو بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات پر ریلیف دیا گیا ہے وہ ملک میں پھیلی مہنگائی کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔

بے روزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہوچکا ہے، عوام خودکشی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، ہر سال جرائم کی شرح میں اضافہ نظر آرہا ہے، کرپشن نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں، لاقانونیت انتہا کو پہنچ چکی ہے،آٹا چینی اور پٹرول مافیا کو پہلے سے بھی زیادہ آزادی مل گئی ہے اور کوئی اسے لگام ڈالنے والا ہی نہیں۔ تبدیلی کی خواہش قوم کو بہت مہنگی پڑی ہے۔ جب حکومت خود ہی قانون کی پاسداری نہیں کرتی، ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑائےگی تو دوسر وں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔؟ حکومت اپنے ہی اتحادیوں اور ارکان اسمبلی کو دھمکیاں دے رہی ہے۔ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے وزیر اعظم سمیت پوری ٹیم کی بوکھلاہٹ کھل کر نظر آرہی ہے۔وزیر اعظم عمران خان شروع دن سے کارکردگی پر توجہ دینے کی بجائے انتقامی سیاست کررہے ہیں جن لوگوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے مایوس ہو کر تحریک انصاف کو ووٹ ڈالا آج مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ عوام پوچھتے ہیں کہ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کے وعدے کا کیا ہوا؟ حکومت کے چار سال مکمل ہونے کو ہیں مگر کوئی ایک وعدہ بھی وفا نہیں ہوا۔وعدوں سے انخراف کا نام یوٹرن رکھ کر قوم کو گمراہ کیا جاتا رہا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)