معاشرے کا برا ”چہرہ“

September 16, 2013

لاہور‘ راولپنڈی‘ فیصل آباد اور لندن میں ہونیوالے واقعات پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ ان واقعات پر روشنی ڈالنے سے پہلے کچھ خبریں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ ایک اہم خاتون سیاست دان ان دنوں اپنی بہن کی جائیداد پر قبضے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ طاقت کے زور پر ہونے والے اس ”حسن سلوک“ سے متاثر ہو کر دوسری بہن بیمار ہوگئی ہے۔ دوسری بہن کی سوچوں کا محور آج کل ”خون کی سفیدی“ ہے۔ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ آئی بی فنڈز کے مقدمے میں عدلیہ نے پہلی مرتبہ ایک خاص شخصیت کے نام کو کاغذی کارروائی کا حصہ بنالیا ہے۔ واقفان حال بخوبی آگاہ ہیں‘ زیادہ روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں۔
اب آتے ہیں ان واقعات کی جانب جن سے بے شمار دل دکھی ہوئے‘ خون کے آنسو روتے رہے‘ کچھ کی آنکھیں روئیں‘ کچھ کے دل روئے کیونکہ اتنی سفاکی‘ درندگی اور بے حسی دنیا نے کم کم دیکھی ہوگی۔ ستمبر واقعی ستم گر ہے۔ میں نے کالم کے آغاز میں تین چار شہروں کا تذکرہ کیا تھا ہوسکتا ہے داستانیں اور شہروں میں بھی گردش کررہی ہوں مگر میں صرف ان چار بڑے شہروں کے واقعات رقم کررہا ہوں جو ہماری مجموعی بے حسی کا ”چہرہ“ ہے ہمارا یہ بھیانک روپ ہمیں دنیا میں کتنا رسوا کررہا ہے لاہور میں ایک پانچ سالہ بچی کے ساتھ درندگی پر کیا لکھوں کہ مجھے لکھتے ہوئے شرم آرہی ہے کہ آخر ہم دنیا کو کیا دکھا رہے ہیں اپنا منحوس ”چہرہ“ ایسی سفاکی کو انسانیت سوز نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے جسے دیکھ کر شرم و حیا بھی شرما جائے۔ اس ایک المناک واقعہ سے آپ معاشرے کی بھیانک تصویر سے آگاہ ہوسکتے ہیں کہ یہ معاشرہ ایسے گھناؤنے کاموں سے بھی گریز نہیں کرتا جو ہمیں دنیا بھر میں بدنام کررہے ہیں ہمارے اپنے معاشرے پر اس واقعہ کی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ جن گھروں میں بھی چھوٹی بچیاں ہیں ان پرگہرا نفسیاتی دباؤ آن پڑا ہے میری ایک بہن لیلیٰ سید نے اپنے گھر کے مرد ملازم کو محض اس لئے فارغ کردیا ہے کہ ان کی ایک بیٹی معصوم ہے۔ اس واقعہ نے دلوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ میڈیا کی اس یلغار میں جتنی معصوم بچیوں کو خبر ہوئی ہوگی ان کی ذہنی اور قلبی کیفیت کیا ہوگی خدا بہتر جانتا ہے۔ اب معاشرے میں صرف ایک’مظلوم بچی کی ماں ہی پریشان نہیں‘ لاکھوں بچیوں کی مائیں خوف کے عالم میں ۔ سپریم کورٹ نے اس واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے اس کے بعد پولیس کی پھرتیاں شروع ہوگئی ہیں ورنہ جب بچی کے ورثاء گمشدگی کا مقدمہ درج کروانے گئے تھے تو پولیس نے کسی بھی طرح کی مدد کرنے سے انکار کردیا تھا۔ یہ تو میڈیا اور مغل پورہ کے لوگوں کے احتجاج نے مجبور کیا ورنہ محافظ رپورٹ کیلئے بھی تیار نہیں تھے۔ پورے پاکستان سے آہوں اور سسکیوں کو سننے کے بعد کیا کہا جاسکتا ہے فقط یہ کہ
اک اجنبی کو شہر میں سانپوں نے ڈس لیا
پھر اس کا زہر پھیل گیا دور دور تک
فیصل آباد میں بھی ایک کم سن بچی کے ساتھ لاہور جیسا ایک واقعہ پیش آیا ہے ہر واقعہ پر کتنے آنسو بہائے جائیں کہ دل بہت رنجیدہ ہے‘ دل کے آنسو سمندروں سے زیادہ ہوگئے ہیں‘ راولپنڈی پولیس کی شائع شدہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز وہاں سے پانچ لڑکیوں کو مختلف علاقوں سے اغواء کیا گیا۔ معاشرے کی اس منحوس تصویر کو پتہ نہیں آپ کیا نام دیں گے۔ پاکستان کے طول و عرض میں پتہ نہیں اس طرح کے کتنے واقعات روزانہ ہوتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ مسلسل پستی کی طرف جارہا ہے اور اس پستی میں گھناؤنے جرائم حد سے تجاوز کرگئے ہیں۔ بھارت میں ریپ کے ایک مقدمے میں ملزمان کو سزائے موت سنا دی گئی ہے ہمارے ہاں بھی ایسا ہونا چاہئے۔ بھارتی سول سوسائٹی نے ریپ کے اس مقدمے کو انجام تک پہنچانے کیلئے بہت احتجاج کیا۔ ہمارے ہاں سول سوسائٹی مذکورہ بالا واقعات پر خاموش ہے۔ میری پاکستان کی بہتری میں ڈاکٹر فرزانہ باری اور ماروی سرمد سمیت دیگر افراد سے گزارش ہے کہ وہ ان واقعات پر پرزور احتجاج کریں تاکہ معاشرے میں ایسے ہولناک واقعات نہ ہوں کیونکہ ان واقعات کی روک تھام کیلئے سزاؤں کے ساتھ ساتھ معاشرے کا جاگنا بڑا ضروری ہے۔ اگر ضیاء الحق دور میں وزیر آباد میں نوجوان لڑکی کی نعش کی بے حرمتی پر کڑی سزا دے دی جاتی تو آج تصویر کا رخ مختلف ہوتا‘ اسی طرح گوجرانوالہ میں ہونے والی نعش کی بے حرمتی پر کسی کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تو یقیناً معاشرہ مختلف ہوتا۔ اگر بھکر میں انسانی لاشوں کا گوشت کھانے والے کو سرعام پھانسی دے دی جاتی تو معاشرے کا ”چہرہ“ خوبصورت ہوتا مگر کیا کیا جائے کہ وطن عزیز میں تو سزائے موت پر پابندی ہے اس پابندی نے جرائم پیشہ افراد کو بے لگام کردیا ہے گھوڑے رکھنے والے بے لگام گھوڑوں کے بارے میں بہتر جانتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ معاشرے کو درندگی اور سفاکی سے بچانے کیلئے سزائے موت پر عملدرآمد شروع کردیا جائے جب تک کچھ لوگ نشان عبرت نہیں بنیں گے پورے سماج کو ایسے دل سوز واقعات کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا۔ عبرت کی مثالیں قائم کرنے ہی سے مثالی معاشرے کی تشکیل ہوسکتی ہے۔
ضیاء الحق دور میں ریڈ لائٹس ایریاز کو ختم کردیا گیا تھا اس کا نقصان پورے معاشرے کو ہوا‘ برائیاں ہر جگہ پھیل گئیں اور یوں معاشرے کا حسن برباد ہو کر رہ گیا آج معاشرہ اسی غلطی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ معاشرے میں طرح طرح کے مسائل سے فرسٹریشن بڑھ گئی ہے اور آج ہمارے سماج کی تصویر بہت بری ہے۔ اس بری تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ لندن سمیت برطانیہ کے کئی شہروں میں پاکستانی کمیونٹی کے بعض نام نہاد علماء نے خفیہ حلالہ سینٹرقائم کررکھے ہیں جس سے پاکستانی کمیونٹی کے اندر بہت بگاڑ پیدا ہوگیا ہے اور ان میں جو کھیل کھیلا جارہا ہے اس نے پورے برطانوی مسلم معاشرے کو داغدار کردیا ہے۔ گھروں کے گھر برباد ہوگئے ہیں۔ خاص طور پر عورتیں مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگئی ہیں کہ کسی کے جرم کی سزا انہیں ملتی ہے۔بدامنی‘ دہشت گردی‘ سفاکی اور ظلم میں لپٹے ہوئے معاشرے کے بارے میں کیا کہوں‘ ہم ایک بھیانک معاشرے میں زندہ ہیں جہاں معصوموں کی آہوں اور سسکیوں سے صدا آتی ہے کہ
جنگل میں سانپ شہر میں بستے ہیں آدمی
سانپوں سے بچ کے آئیں تو ڈستے ہیں آدمی
تھی خاک سب سے قیمتی شے آسمان پر
اور اس زمین پہ خاک سے سستے ہیں آدمی