رحمت برس رہی ہے، برکت برس رہی ہے ...

April 17, 2022

تحریر: عالیہ کاشف عظیمی

مہمان: صابر ملک فیملی

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

دینِ اسلام کے ہر رُکن، ہدایت اور عمل میں انفرادیت سے زیادہ اجتماعیت ملتی ہے، جیسا کہ ماہِ صیام میں ایثار و سخاوت اور اخوّت و یگانگت کے ایمان افروز مناظر جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ نیز، روزہ ایک ایسی خاموش عبادت ہے، جس کے مثبت اثرات جسم و روح دونوں پر مرتّب ہوتے نظر آتے ہیں۔الحمدللہ، رحمتوں کی فراوانی سے بَھرپور پہلا عشرہ، عشرۂ رحمت گزر چُکا۔

عشرۂ مغفرت بھی توبہ استغفار کی تکرار کرتے وداع ہونے کو ہے کہ چار روز بعد تیسرے عشرےکا آغاز ہونے والا ہے، تو ہمیں چاہیے کہ جس قدر فیوض و برکات سمیٹ سکتے ہیں، سمیٹ لیں۔

نہیں معلوم، آیندہ برس یہ سعادت نصیب ہوگی بھی یا نہیں۔ بے شک، خوش نصیب ہیں، وہ افراد جو اللہ کی رضا کے لیے پورا دِن بھوک پیاس برداشت کرتے ہیں، صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑتے۔ اپنے پروردگار کے اطاعت گزار بن کر احکاماتِ خداوندی بجا لاتے ہیں، اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور رب کے حضور توبہ استغفار کرتے رہتے ہیں ۔

ماہِ صیام میں جہاں روز و شب کی بدلی ہوئی مصروفیات، پنج وقتہ نماز، قرآنِ پاک کی تلاوت، مختلف تسبیحات، ذکر اذکار کا لُطف جداگانہ ہوتا ہے، وہیں سحر وافطار کا اہتمام خواتین کو بہت مصروف بھی کر دیتا ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ ان اوقات میں خاندان بَھر کو مِل بیٹھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ چوں کہ اس مبارک مہینے میں ہم عام دِنوں کی نسبت اہلِ خانہ کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں، تو خاص طور پر بچّوں کی دینی و اخلاقی تربیت کا اہتمام کریں، ان کے دِلوں میں اپنے خالق سے تعلق، محبّت اور اطاعت کا جذبہ بیدار کریں۔

اُن کے کردار کی درستی، سیرت کی تعمیر کی کوشش کریں۔ قرآنِ مجید اُردو ترجمہ و تفسیر سے پڑھیں، تاکہ جس بنیاد پر اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے، اُس کا علم ہو۔ بے معنی کاموں، لغویات سے جس حد تک دامن بچا سکتے ہیں، ضرور بچائیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الم نشرح کی آیت نمبر6،7 میں فرماتے ہیں ،’’ جب تُو فارغ ہوجائے، تو محنت کر۔ اور اپنے ربّ ہی کی طرف پس رغبت کر۔‘‘اسی طرح حدیثِ نبویﷺ ہے،’’ذکرِ الہیٰ سے بڑھ کر انسان کا کوئی عمل اس کو اللہ کے عذاب سے نجات دینے والا نہیں۔ ‘‘

عام طور پر عبادت میں دِل لگنے اور روح کی تازگی کےلیےکم کھانے، کم سونے اور کم بات کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، لہٰذا ماہِ صیام میں یہی روش اختیار کریں۔ نیز، جب گھر کے سربراہ، بڑے بہن بھائی قرآنِ پاک پڑھیں ،نماز کی ادائی کے لیے ربّ کے حضور کھڑے ہوں، تو بچّوں کو اپنے ساتھ رکھیں، تاکہ بچپن ہی سے ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہو اور ان کا دِل عبادت کی طرف راغب ہو۔سب مل جُل کرکام کریں، تاکہ ذمّے داریاں تقسیم ہوجائیں اور کسی ایک پر بوجھ بھی نہ پڑے۔

ایسی ہی کچھ ترغیبات کی ایک جھلک تو زیرِ نظر شوٹ میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔ بلاشبہ، ربِّ کریم نے ماہِ رمضان کو ایسا چمن زار بنادیا ہے، جس میں جہاں ذہنی آسودگی کے ساتھ رُوح تک تازہ دَم ہوجاتی ہے، وہیں اہلِ خانہ کے مابین محبّت و الفت بھی خُوب پروان چڑھتی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو رمضان کے اصل مقصد ، حقیقی مفہوم سے آگہی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔