یوم القدس

April 29, 2022

امام خمینی نے 16 مرداد 1358 شمسی(7 اگست 1979) بمطابق 13 رمضان 1399 ہجری کو جنوبی لبنان میں نسل پرستوں اور صہیونی غاصبوں کے حملوں کے دوبارہ شروع ہونے کے موقع پر فلسطین کے عوام اور اُن کی جدو جہد کی حمایت میں ایک پیغام جاری کرتے ہوئے رمضان کے آخری جمعہ ( جمعۃ الوداع) کو عالمی یوم القدس قرار دیا۔اِس وقت کم از کم تین اہم عوامل نے فلسطین کو عالم اسلام کا سب سے اہم ترین مسئلہ بنا دیا ہے: اول، فلسطین کی سرزمین کا تشخص، اس کی حرمت اور اسلام کے پیروکاروں کے ہاں اس کا مقام؛ دوسرا، صہیونی دشمن کا تشخص اور اس کے مذہبی اور تاریخی دعوے، اور اس کا توسیع پسندانہ اور غاصبانہ مزاج (فلسطین کی سرزمین اور مقدس اسلامی مقامات کی ملکیت حاصل کرنے کی کوشش)؛ تیسرا، مغربی- صہیونی اتحاد کی نوعیت، جو ملتِ اسلامیہ کو تقسیم اور کمزور کرنے کے در پے ہے تاکہ اسلامی ممالک اسی طرح بڑی طاقتوں پر انحصار کرتے رہیں۔

امریکی پالیسیاں اس قدر اسرائیل کے مفاد میں ہیں کہ کچھ مصنفین نے امریکہ میں مضامین لکھے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ یہ اسرائیلی ہیں جو اصل میں امریکہ کو چلاتے ہیں۔ امریکہ اسرائیل کو سالانہ 3.8 بلین ڈالر سے زیادہ کی عسکری امداد فراہم کرتا ہے۔اسرائیل کے لیے امریکی سیاسی حمایت بھی وسیع اور لا محدود رہی ہے۔ ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ امریکہ انسانی حقوق کی کونسل، یونیسکو اور اسرائیل کے خلاف جاری ہونے والی بین الاقوامی قراردادوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا رہا ہے۔ امریکہ اسرائیل کے مفادات کے لیے 40 سے زیادہ مرتبہ Veto کااختیار استعمال کر چکا ہے اور یہ بات خود ساری حقیقت کو بیان کرتی ہے۔

•حالیہ برسوں میں نسل پرست اور غاصب صہیونی رجیم نے فلسطینیوں کے خلاف اپنے جنونی اقدامات کو تیز کر دیا ہے۔ ان میں ’’اجتماعی سزائیں‘‘ جو فلسطینیوں کے ’’مستقبل کو تعین کرنے کے اصول‘‘ کی خلاف ورزی کا سب سے اہم عنصر ہیں۔ غزہ کا محاصرہ، آہنی دیوار کی تکمیل، فلسطینیوں کو ان کے آبائی وطن سے بے دخل کرنا اور جبری نقل مکانی، زرخیز علاقوں میں اسرائیلیوں کی تعیناتی اور ان کو وہاں ٹھہرانا، فلسطینی، عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے کمانڈروں اور مجاہدین کا قتل، غزہ کی پٹی میں زرعی اراضی کی تباہی، بستیوں کی تسلسل کے ساتھ آبادکاری کے علاوہ یروشلم (القدس) کو’’ یہودیانے‘‘کے منصوبے پر عمل درآمد، فلسطینیوں کے مکانات کی تباہی، مشرقی یروشلم (القدس) میں عسکری اور سلامتی موجودگی اور نگرانی میں اضافہ، یروشلم میں رہنے والے فلسطینیوں کے آنے اور جانے پر پابندی، ان کے شناختی کارڈز کی منسوخی اور یروشلم میں مقیم فلسطینیوں کے مستقل رہائشی اجازت نامے کو منسوخ کرنا، جو کہ بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں خاص طور پر’’ہیگ کنونشن ‘‘ کے آرٹیکل 43 اور چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے، 2018 ء میں صہیونی حکومت کی پارلیمنٹ میں ’’حکومت اور یہودی قوم‘‘ کے قانون کی منظوری؛ اسرائیل میں آبادکاری کو ایک ’’قومی قدر‘‘ کے طور پر فروغ دینا؛ فلسطینیوں کی مغربی کنارے اور غزہ سے علیحدگی، یروشلم (القدس)، گولان اور نقب کو ’’یہودیانے‘‘ ، فوجی عدالتوں میں فلسطینیوں پر مقدمات وغیرہ۔ صہیونی رجیم روزانہ کی بنیاد پر بچوں کے حقوق سمیت ’’انسانی حقوق کی سنگین، مسلسل اور منظم خلاف ورزیوں‘‘ کا ارتکاب کررہا ہے۔ اسرائیل کی نسل پرست حکومت نے بلاجواز لاکھوں افراد (فلسطینیوں) کو عارضی اور طویل مدتی حراست میں رکھا ہے۔ 1967 عیسوی سے لے کر اب تک 10 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو حراست کے تلخ تجربے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت ایک حربی اور قلیل مدتی حکمت عملی نہیں ہے، اس حمایت کی بنیاد نہ صرف مذہبی عقائد پر مبنی ہے بلکہ سب سے اہم یہ انسانی ہمدردی اور انسان دوستی کا فریضہ ہے جو کہ کسی بھی مذہب یا نسل سے پاک انسانوں کی فطرت پر مبنی ہے۔’’عارضی صہیونی رجیم‘‘ ایران کو عرب دنیا اور عالمِ اسلام کے مد مقابل قرار دے کر اور اسلامی جمہوریہ ایران کو ’’مشترکہ خطرے‘‘ کے طور پر متعارف کراتے ہوئے فلسطینی مقصد (فلسطینی کاز) کو مسلم اُمہ کے ذہنوں سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔

•مغربی حکومتیں اور بڑی بین الاقوامی تنظیموں نے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے میں کوتاہی کی اور تمام تجویز کردہ حل ان کی متعصبانہ سوچ کی وجہ سے ناکام ہوئے۔ فلسطین کے بحران کے حل کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران نے فلسطین میں قومی ریفرنڈم کے انعقاد کا ایک جمہوری اور منصفانہ منصوبہ پیش کیا ہے جو اقوام متحدہ کے سیکریٹریٹ میں بھی درج ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران یقین رکھتا ہے کہ بے گھر فلسطینیوں کی ان کے وطن واپسی اور اس سرزمین کے حقیقی لوگوں کی تقدیر اور سیاسی نظام کی نوعیت کے تعین کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد، اس تنازعے کے حل کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت مسلمان، یہودی اور فلسطینی نژاد مسیحی اپنے اوپر حکومت کرنے والے کسی بھی قانونی نظام کا انتخاب کرتے ہوئے اس کے حقوق سے آزادانہ اور مساوی طور پر مستفید ہو سکیں گے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا منصوبہ جمہوری اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کی بنیاد پر پیش کیا گیا ہے جو تمام حکومتوں اور اقوام کے لیے قابل قبول ہے۔ یہ منصوبہ پچھلے ناکام منصوبوں کا ایک اچھا متبادل ہوگا۔اسرائیلی رجیم کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے جواب دینا ہوگا۔ اس طرح کے جرائم کو بغیر سزا کے نہیں رہنے دینا چاہیے۔ مسئلہ فلسطین کا حل صرف اسی صورت ممکن ہے جب مقبوضہ فلسطین کے عوام کے ناقابل تنسیخ حقوق کو مکمل طور پر تسلیم کرتے ہوئے ان کی بحالی اور قیام کیلئے اقدام کیا جائے ۔

فلسطین پر قابض صہیونی نسل پرست رجیم کو بین الاقوامی قانون کی پاسداری پر مجبور کرنے میں بین الاقوامی برادری کی نااہلی، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے میکانزم کی فلسطینیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن، اور موثر کارروائی کی بھاری ذمہ داری کو دوگنا کردیتی ہے۔ تمام •ممالک کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ظلم و ستم کے تسلسل اور منظم امتیازی سلوک کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کا تحقیقاتی کمیشن قائم کریں اور اقوام متحدہ کا ایک عالمی نمائندہ مقرر کریں جو جبر کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی کارروائی کو متحرک کرتے ہوئے، اپنی ذمہ داری نبھائے۔

(صاحبِ تحریر قونصل جنرل اسلامی جمہوریہ ایران لاہورہیں)