مذاکرات مگر کیسے

September 30, 2013

حکمرانوں کے معاملات ہمیشہ ہی سے عجیب رہے ہیں۔ علائو الدین خلجی برصغیر کا حکمران تھا اور جناب امیر خسروؒ وزیر خاص۔ سروں کے ماہر وزیر سے بادشاہ نے پوچھا کہ ’’یہ علوم آپ نے کہاں سے سیکھے ہیں؟‘‘ جواب آیا ’’اپنے مرشد خواجہ نظام الدینؒ سے‘‘۔ بادشاہ نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو امیر خسروؒ، حضرت نظام الدینؒ کے پاس پہنچے اور بتایا کہ بادشاہ آپ سے ملنا چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ آپ شاہی محل میں تشریف لائیں۔ خواجہ نظام الدین اولیاءؒ نے انکار کر دیا۔ امیر خسروؒ نے بادشاہ کو اس انکار سے آگاہ کیا تو بادشاہ بولا کہ ’’ہم ان کے پاس چلے جاتے ہیں بس تم وقت طے کر آئو‘‘۔ امیر خسروؒ وقت طے کرنے پہنچے تو خواجہ نظام الدینؒ نے بادشاہ کے ساتھ ملنے سے انکار کر دیا۔ امیر خسروؒ نے کہا کہ ’’بادشاہ خود آئے گا، اس کے ساتھ وزیر بھی ہوں گے۔ آپ مل لیں‘‘۔ جواباً پھر انکار تھا۔
خواجہ نظام الدین اولیاءؒ فرمانے لگے ’’امیر خسرو! درویش کے دو دروازے ہوتے ہیں۔ بادشاہ ایک دروازے سے داخل ہو گا تو میں دوسرے دروازے سے نکل جائوں گا‘‘۔ امیر خسروؒ نے وجہ کریدنے کی کوشش کی تو خواجہ نظام الدین اولیاءؒ نے کہا کہ ’’اس سلسلے میں، میں نے اپنے مرشد فرید الدین گنج شکرؒ سے پوچھا۔ انہوں نے اپنے مرشد حضرت بختیار کاکیؒ سے پوچھا اور حضرت بختیار کاکیؒ نے اپنے مرشد خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ سے پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ حکمرانوں سے ہمیشہ دور رہنا کیونکہ بعد از واقعۂ کربلا ہم نے ان سے منہ موڑ لیا تھا‘‘۔ یہاں یہ واقعہ رقم کرنے کا ایک خاص مقصد ہے کیونکہ آج پوری اسلامی دنیا میں ایسے شرپسند پیدا ہو چکے ہیں جنہوں نے اسلام کو بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔ فکری اعتبار سے یہ لوگ صوفیاء کی تعلیمات کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ صوفیاء نے ہمیشہ امن کا درس دیا اور انہوں نے دنیا کو محبت کا پیغام دیا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ صوفیاء کی تعلیمات کی مخالفت کرنے والوں نے پاکستان کی بھی مخالفت کی تھی اور قائداعظم کو برے القابات سے یاد کیا تھا۔ پاکستان ان کی مخالفت کے باوجود بن گیا مگر ان کا کینہ ختم نہ ہو سکا۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تو ان کے ایک بزرگ نے واشگاف کہا کہ ’’ہم تو پاکستان بنانے کے جرم میں شریک نہیں تھے‘‘۔ پیارے پاکستان کا حوصلہ ہے کہ اس نے ایسے لوگوں کو بھی چھت فراہم کر رکھی ہے جنہوں نے پاکستان کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ بد قسمتی سے آج وہی لوگ پاکستان کا امن تباہ کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے آئین کا احترام بھی نہیں کرتے اور نہ ہی لوگوں کو امن سے جینے دیتے ہیں۔ زندہ لوگ تو ایک طرف، ان کے شر سے قبریں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اسی فکر کے لوگوں نے شام میں حضرت زینبؓ کے مزار اقدس پر حملہ کیا، انہی لوگوں نے حضرت عمار بن یاسرؓ کے شام میں واقع مزار پر حملہ کیا۔ ان لوگوں نے پاکستان میں مختلف صوفیاء کے مزارات کو نشانہ بنایا۔ اس تمام صورتحال نے پاکستان کی اکثریتی آبادی کو سوچنے پر مجبور کیا۔ پاکستان کی اکثریت دہشت گردوں کی سوچ اور فکر سے اتفاق نہیں کرتی کیونکہ اس علاقے میں اسلام صوفیاء کے طفیل آیا تھا اور صوفیائے کرام تو غیر مسلموں کیلئے بھی محبت کا پیغام رکھتے تھے۔
دہشت گردوں نے مساجد، امام بارگاہوں، جنازوں، گرجا گھروں، گوردواروں، مندروں اور مورتیوں پر حملہ آور ہو کر انسانیت کیلئے نفرت کا پیغام پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ اس نفرت کے جواب میں پاکستان کی اکثریتی آبادی نے اٹھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگلے چند ہفتوں میں اس سلسلے میں یادگار کنونشن ہونے والے ہیں۔ ان کنونشنوں کے ذریعے یہ پیغام دیا جائے گا کہ پاکستان کی اکثریت دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات نہیں چاہتی بلکہ وہ آپریشن کی خواہاں ہے۔ پاکستان کے اہم ترین اداروں میں بھی اکثریت کی خواہش یہی ہے لہٰذا وزیراعظم نواز شریف، عمران خان اور جنرل کیانی سمیت مذاکرات کے حامیوں کو سوچنا پڑے گا کہ پاکستان کی اکثریت کیا چاہتی ہے۔ مذاکرات کے حامیوں کو یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ کیا وہ ان مذاکرات کے ذریعے اپنے شہداء کے خون سے غداری نہیں کر رہے۔ کیا حکومت پاکستان اور پاکستانی ریاست اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ مٹھی بھر دہشت گردوں کے سامنے بے بس ہو گئی ہے۔ نہیں ایسا نہیں، نہ پاکستانی ریاست کمزور ہوئی ہے نہ حکومت، نہ آئین پاکستان، اگر ایسا ہے تو پھر مذاکرات کیسے؟
جس اکثریتی طبقے نے قیام پاکستان کے وقت بے مثال جدوجہد کی تھی وہی طبقہ پاکستان کو بچانے کیلئے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ طبقہ دہشت گردی میں لپٹے ہوئے نام نہاد لوگوں کو ختم کر دے گا کیونکہ دہشت گردوں کی کارروائیوں سے اسلام کی خدمت نہیں بدنامی ہوئی ہے۔ مزید بدنامی اور بدامنی سے بچنے کیلئے دہشت گردوں کو کچلنا بہت ضروری ہے۔ ایک طرف طالبان سے مذاکرات کا راگ الاپا جا رہا ہے تو دوسری طرف بھارت سے دوستی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ وہی بھارت جس نے عرصے سے پاکستان کے ساتھ آبی دہشت گردی شروع کر رکھی ہے جو ہمارے صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کئی کارروائیوں کے پس پردہ ہے۔ اچھی بات ہے کہ میاں نواز شریف بھارتی وزیراعظم کے ساتھ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے نیو یارک میں طالبان کے حوالے سے اچھی بات کی ہے کہ مذاکرات کو کمزوری نہ تصور کیا جائے۔
رہے بھارت سے مذاکرات تو اس سلسلے میں اتنا عرض ہے کہ جب سے موجودہ حکومت آئی ہے کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں بھارت کا معمول بن گئی ہیں۔ کشمیر پر قبضہ بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ کے ادارے کی توہین ہے بلکہ بھارتی فوجی اور وہاں کی ہندو آبادی کشمیریوں کو تنگ کرنا اپنا فرض اولین سمجھتی ہے۔ حال ہی میں عیدالفطر کے موقع پر جموں کے قصبے کشتواڑ میں ہندوئوں نے کشمیری مسلمانوں کو بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ مذاکرات کریں مگر سوچ سمجھ کر کہ کیا ہندوستانی قیادت کے ارادے اکھنڈ بھارت کے تو نہیں۔
دارالحکومت میں خبر گردش کر رہی ہے اور شنید ہے کہ جنرل کیانی کو مدت ملازمت میں ایک سالہ توسیع دی جا رہی ہے۔ اس کے اثرات پتہ نہیں کیا ہوں گے۔ بقول قیوم طاہر
میں نے جاگیرو زر و جاں سے نفرت کی ہے
چونک جانا، جو کہیں مصرعۂ مدحت نکل آئے