کوٹلیہ چانکیہ، ایک تحقیقاتی مقالہ

June 02, 2022

پڑوسی ملک اور متعدد جدید ممالک میں چانکیہ سے منسوب بے شمار اداروں کی ویب سائٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ پاکستان کے تاریخی شہر ٹیکسلا میں جنم لینے والی مہان ہستی کوٹلیہ چانکیہ کا نام آج ہزاروں سال بعد بھی د زندہ ہے،سینکڑوں سال قبل جب آدھی دنیا یونانی فاتح سکندر اعظم کے سامنے سرنگوں تھی، چانکیہ کی سیاسی رہنمائی میں ایک کنیز زادے چندر گپت موریا نے یونانی افواج کو شکستِ فاش دی تھی۔یہ عمل افسوس ناک ہے کہ بعض لوگ چانکیہ جیسے عظیم دانشور کو ایک منفی شخصیت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو سخت ناانصافی اور تاریخ مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ تاہم گزشتہ دنوں مجھے بے حدخوشی ہوئی جب چانکیہ جی کے حوالے سے پاکستانی اسکالرز کا ایک تحقیقاتی مقالہ میری نظر سے گزرا، یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (بنوں خیبرپختونخوا )اور یونیورسٹی آف سرگودھا (لاہور کیمپس)سے وابستہ ڈاکٹر عبدالقدوس اور ڈاکٹر شمس العارفین نے اپنے مشترکہ ریسرچ پیپر بعنوان ـ’’تصورِ برداشت، عظیم دانشور کوٹلیہ چانکیہ، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں:ایک تقابلی جائزہ‘‘ میں قدیم ہندو فلسفی کی برداشت،تحمل اور رواداری پر مبنی تعلیمات کو اجاگر کیا ہے ، انٹرنیٹ پر دستیاب مذکورہ مقالہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ریسرچ اسٹڈی مقامی یونیورسٹیوں کے شعبہ اسلامی تعلیمات سے وابستہ پروفیسروں نے کی ہے، عظیم فلسفی چانکیہ کی برداشت اور رواداری کے درس کا اسلامی تعلیمات سے موازنہ کرتے ہوئے رواداری کی اصطلاحی تعریف بیان کی گئی ہے کہ جن افراد کے نظریات و عقائد ہمارے نزدیک درست نہیں ہیں، ہم ان عقائد اور اصحاب عقائد کو برداشت کریں، دوسروں کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھتے ہوئے کسی کی دل آزاری نہ کریں، ہر ایک کو اپنے عقائد پر عمل پیرا ہوکر زندگی بسر کرنے کی آزادی ہو اور کسی کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے۔ ریسرچ پیپر کے مطابق تحمل مزاجی و برداشت حقیقت تک پہنچنے کی ایک کڑی ہے کیونکہ برداشت ہی معاشرے کی سماجی، ثقافتی، تمدنی اور فکری ترقی کیلئے قوت محرکہ کی حیثیت رکھتی ہے، لہٰذا باقی تمام امور اور شعبہ ہائے زندگی چاہے کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں، رواداری اور برداشت کے بغیر سماج کو ترقی کی راہوں پہ نہیں ڈال سکتے۔ مذکورہ مقالے میں کوٹلیہ چانکیہ کی ابتدائی زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے ابتدائیہ پیش کیا گیا ہے کہ کسی بھی عظیم قوم کی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے اسلاف میں ان عظیم فلسفیوں، مفکروں اور دانشوروں کی زندگی محفوظ کرتی ہے جنہوں نے اپنے علم و فن اور خیالات و افکار سے لوگوں کے ذہنوں کو بدلا اور صحیح منزل کی طرف رہنمائی کرکے راہ متعین کی اور قوم نے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے کیلئے ان کے نقشِ قدم پر چل کر اپنی تقدیر بدل دی۔ ریسرچرز نے اس امر پر زور دیا کہ اگر کسی قوم کی تعمیر وترقی اور منظم سماج و ریاست کے استحکام میں سیاسی نظام کی ترویج اور تشکیل کو بڑا دخل حاصل ہوتا ہے تو سیاسی نظام کے استحکام میں اعلیٰ اور بلند پایہ عظیم سیاستدانوں کی ضرورت سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا، اس حوالے سے رموزِ سیاست و حکمرانی پر عالمی شہرت یافتہ کتاب 'ارتھ شاستر'تحریر کرنے والے کوٹلیہ چانکیہ نے فنِ حکمرانی کے بنیادی گُر بتلا کر ہندو سیاست میں الہامی درجہ و مقام حاصل کیا۔یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں چانکیہ کو ہند کا میکاویلی بھی کہا جاتا ہے، تاہم مورخین اور مفکرین کے مطابق چانکیہ ہر لحاظ سے میکاویلی سے عظیم تر شخصیت تھا، ذہانت میں بھی اور عمل میں بھی، یہ ہمہ جہتی طاقتور بادشاہ چندر گپت کا محض مقلد نہ تھا بلکہ وہ خود پالیسی ساز تھا۔ چانکیہ جی نے حوصلہ اور برداشت کو وہ ہتھیار قرار دیا ہےجن کے ذریعے ایک انسان ساری دنیا کو فتح کرسکتا ہے،تحقیقاتی مقالے میں چانکیہ کی ان تعلیمات کا احاطہ کیا گیا ہے کہ انسان کو غلطیوں پر صرف پچھتاکر حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے بلکہ صحیح فیصلہ کرکے پچھلی غلطی کا ازالہ کرنے کیلئے مناسب منصوبہ بندی کرنا چاہئے، سب سے طاقتور اور دانا انسان وہ ہے جو اپنی خواہشات اور جذبات کو قابو میں رکھے مذکورہ ریسرچ میں اسلامی تعلیمات سے موازنہ کرتے ہوئے ثابت کیا گیا ہے کہ انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، ہر مذہب کے رہنماانسانیت کی بھلائی کا درس دیتے ہیں اور ان کی بنیادی تعلیمات میں انسانی اخلاق و کردار کی بلندی سرفہرست ہے، لہٰذا ہر مذہب کے پیشواؤں اور پیروکاروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مذہب کی بنیادی اخلاقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانی معاشرے کی کامیابی اور اعلیٰ کردار و اقدار کیلئے کام کریں ، باہمی گفت و شنید ، افہام و تفہیم اور حوصلہ و برداشت کی راہ ہموار کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)