قومی اکنامکس کونسل بنائی جائے

June 07, 2022

پاکستان اس وقت اندرونی اور بیرونی طور جن خطرات سے دوچار ہے اس میں سب سے بڑا خطرہ ملک کی معاشی بدحالی ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں ملک کو جس انداز میں چلایا گیا اس کے ایسے بھیا نک نتائج سامنے آئے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے لیکن عمران خان اور ان کی کابینہ کے سابق وزراء اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے سارا ملبہ موجودہ حکومت پر ڈال کر اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

عمران خان کے جلسوں اور سیاسی اتحادیوں کی طرف سے مطالبات کی وجہ سے حکومت کو سیاسی محاذ پر چیلنجوں کا سامنا تو ہے ہی لیکن کئی ماہرین کے خیال میں اصل چیلنج معیشت کی بہتری ہے۔موجودہ حکومت نے گزشتہ حکومت کی بدترین کارکردگی کو آجکل موضوع بحث بنایا ہوا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے عمران خان کی حکومت معاشی محاذ پر جگہ جگہ بارودی سرنگ بچھا کر گئی ہے۔ نئی حکومت کے مطابق عمران خان نے ایک سو پچاس ارب روپے ماہانہ کی سبسڈی پیٹرول پر دی، جو معاشی اعتبار سے بہت نقصان دہ ہے۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت بہت برے حال میں ہے، وہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ اس میں بہتری لائی جائے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اس بہتری کو لانا اتنا آسان نہیں ہے، پاکستان میں صنعت کاری کے بجائے صنعتیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ جب تک ہم آئی ایم ایف سے جان نہیں چھڑاتے ہمارے یہ مسائل جوں کے توں رہیں گے کیونکہ وہ ہمیں بجلی، گیس اور دوسری پیداواری چیزوں کی قیمت بڑھانے کا کہتا ہے جس سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے، معیشت متاثر ہوتی ہے۔دوسرا اہم چیلنج قرضوں کی واپسی ہے۔ حکومت کو پوری کوشش کرنی چاہئے کہ وہ مزید قرضے نہ لے۔ توازن ادائیگی قائم کرے تاکہ اس کو مزید قرضے لینے کی ضرورت نہ پڑے، اپنی برآمدات کو بڑھانے کیلئے روپے کی قدر میں کمی کی گئی لیکن اس کمی کی وجہ سے ہمارا امپورٹ بل تو بڑھا ،ایکسپورٹ بل نہیں بڑھ سکا۔ ہمیں روپے کی قیمت میں مزید کمی نہیں کرنی چاہیے، اس سے ہماری معیشت کو نقصان ہو رہا ہے، معیشت کو بہتر کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے قلیل المدتی اور طویل المدتی پالیسیاں بنانی پڑیں گی۔ زرعی اصلاحات کرنا ہوں گی،سیاسی اور معاشی بحرانوں کے شکار ملک پاکستان کی نئی حکومت آخری سانسیں لیتی معیشت بچانے کے لیے اپنی پیشروحکومتوں کی طرح آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑی ہے۔ پاکستانی حکومتیں گزشتہ 75 برس سے آئی ایم ایف کے سہارے ہی ملک چلاتی آرہی ہیں۔بھارت نے سن 1991 میں آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ اسی طرح جنوبی کوریا اور ویت نام نے اپنی معیشت کو سہارا دینے کے بعد آئی ایم ایف سے جان چھڑائی،موجودہ حکومت نےوفاقی کابینہ اور سر کاری افسران کےپیٹرول کوٹے میں کٹوتی کا اعلان کیا ہے جو خوش آئند بات ہے، پاکستان میں اس وقت معاشی صور ت حال کو بہتر بنانے کے لیے قومی اکنامکس کونسل بنانے کی ضرورت ہے جس میں ملک بھر کے تاجروں اور صنعت کاروں کو شامل کیا جائے، ان سے حکومت کی مدد کی اپیل کی جائے،اس کے بدلے انہیں ٹیکس میں چھوٹ دی جائے، اوور سیز پاکستانیوں کے نمائندوں کو بھی اس میں شامل کیا جائے، ان سے حاصل ہونے والی آمدنی سے غیر ملکی قرضے اتارے جائیں، اکنامکس کونسل کی باقاعدہ ایک ویب سائٹ بنائی جائے جس میں حاصل ہونے والی رقوم کا مکمل ڈیٹا ہر وقت اپ ڈیٹ ہونا چاہئے، جو ہر شہری بآسانی چیک کر سکے جس سے اس کے اعتماد میں اضافہ ہوگا، ہمیں قرض اتارنے کے لیے انعامی اسکیم شروع کرنا ہوگی، سو روپے کا ٹوکن جاری کیا جائے تاکہ پاکستانی قوم ان کو خرید کر ملک کو قرضے سے نجات دلاسکے، مگر ان تمام باتوں کے لیے حکومت پر عوام کا اعتماد قائم کرنا لازم ہے، قومی اکنامکس کونسل کا سر براہ کسی ایسےشخص کو مقرر کرنا ہوگا جس کی عوام میں اچھی ساکھ ہو، تمام منتخب نمائندوں، حکومتی اور سر کاری عہدے داروں کی مراعات میں کمی لانا ہوگی تاکہ انہیں بھی عوام کی مالی مشکلات اور پریشانی کا احساس ہوسکے، یہ افسوس ناک ہے کہ کوئی بھی حکومت مہنگائی کو روکنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کرتی، ملک کو سیاسی طور پر مستحکم بنانا پڑے گا تاکہ دوسرے ممالک کا ہماری حکومت پر اعتماد بڑھ سکے۔