بڑھتی آبادی ایک ٹائم بم !

June 14, 2022

پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، حکومتیں آتی اور چلی جاتی ہیں۔ وسائل میں کمی کا رونا رویا جاتا ہے لیکن نہ حکومتوں نے نہ ہی کسی سماجی بہبود کی تنظیم نے اس طرف توجہ دی ہے۔

سابق صدر ایوب خان کے وقت میں اس پر خصوصی توجہ دی گئی تھی۔ خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے شروع کیا گیا پروگرام ان کی حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ہی بند کردیا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک اس مقصد کے لئے باقاعدہ وزارت تو ہے، وزیر اور دیگر عملہ بھی تعینات ہے۔

دفاتر بھی ہیں اور ہر سال اس وزارت، متعلقہ عملہ اور دفاتر پر کروڑوں روپے کے اخراجات بھی ہوتے ہیں لیکن کارکردگی بالکل صفر ہے۔ ہو سکتا ہے کاغذوں میں بہت کچھ ہو رہا ہو لیکن عملی طور پر کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔پاکستان کو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چھٹا ملک کہا جاتا تھا۔

لیکن اس شطر بے مہار اضافہ سے اب پاکستان پانچواں بڑا ملک ہے۔ اس وقت وطن عزیز کی آبادی23 کروڑ سے زائد ہو چکی ہے۔ 2020کے اعداد و شمار کی رپورٹ کے مطابق آباد ی میں اضافے کی شرح 3.60فیصد تھی۔ جبکہ 2017میں آبادی میں اضافے کی رفتار 2.40تھی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں آبادی کی شرح میں کتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ غریب طبقہ میں نظر آتا ہے۔ چاہے وہ شہروں میں ہو یا دیہات میں ہو۔ ماہرین کے مطابق آبادی میں بڑھتے ہوئے اضافہ کی دیگر وجوہات کے علاوہ چند درج ذیل وجوہات بھی ہیں۔

حکومتی سطح پر بے مقصد، بے عمل اور بے ربط پالیسیاں اور خاندانی منصوبہ بندی کے شعبہ پر مجرمانہ خاموشی۔ اس کے علاوہ انفرادی طور پرتعلیم سے دوری بہ الفاظ دیگر جہالت بھی آبادی میں تیز ترین اضافے کی بنیادی وجہ ہے۔

ملک میں وسائل تیزی سے کم اور آبادی برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے آبادی اور وسائل کے درمیان ضروری تناسب بھی تیزی سے بگڑتا جا رہا ہے جو آنے والے چند سال میں ٹائم بم کی طرح پھٹ کر تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔

اس وقت وسائل اور آبادی میں عدم توازن کی وجہ سے پاکستان میں رہنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو روزگار ،تعلیم ،صحت اور پانی کی بنیادی اور معیاری سہولیات میسر نہیں ہیں۔ اسی طرح فضائی اور زمینی و آبی آلودگی میں بڑی سرعت سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جو مختلف قسم کی بیماریوں اور ان کے پھیلائو میں اضافے کا باعث ہے۔

کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں بجلی و گیس کی فراہمی میں کمی،پینے کے صاف پانی کی قلت اورپبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل کے ساتھ ساتھ روزگار کے مسائل سنگین صورتحال اختیار کرتے جا رہے ہیں۔یہ بات یقینی ہے کہ جس رفتار سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے مذکورہ بالا مسائل میں مزید اضافہ اور شدت آئے گی۔

عالمی ادارہ خوراک نے گزشتہ دنوں ایک پریشان کن رپورٹ جاری کی ہے کہ غریب ممالک میں اس سال سے اور ترقی یافتہ اکثر ممالک میں اگلے سال سے خوراک کی قلت شروع ہو سکتی ہے۔ جس میں بتدریج اضافہ ہو گا اور ترقی پذیر ممالک کو بالخصوص ترقی یافتہ ممالک کو بالعموم اگلے دو تین سال میں قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تو سوچئے کہ پاکستان کواس وقت کتنے سنگین معاشی مسائل درپیش ہیں۔

مہنگائی میں کمرتوڑ اضافہ جاری ہے اور عام آدمی کی قوت خرید ختم ہو رہی ہے تو قحط کی صورت میں کیا عالم ہو گا۔ آبادی میں تیز رفتار اضافے کی وجہ سے ویسے بھی بیروزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں جرائم بڑھ رہے ہیں۔ تو خدانخواستہ مزید ابتر صورتحال کا سامنا ہم کیسے کر سکیں گے۔

پھر تو خاکم بدہن ایک روٹی قتل کا سبب بن جائے گی ۔فرض کریں قحط نہ بھی ہو، تو پھر بھی اس ناقابل برداشت مہنگائی اور بے روزگاری کے نتائج سے بہتری کی امید کوئی بے وقوف ہی کرسکتا ہے۔موجودہ حکومت میں مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ تو سب کو نظر آ رہا ہے اور اس سے انکار قطعی نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن اس وقت ملک جس معاشی دلدل میں پھنس چکا ہے تو کوئی اور حکومت بھی ہوتی تووہ اس کا کیا حل نکالتی ۔

تنقید تو بہت آسان ہے لیکن حل کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس صورتحال کی بنیادی وجہ پر کوئی توجہ نہیں دیتا اور وہ وجہ آبادی میں بے تحاشا بڑھتا ہوا اضافہ ہے۔ ح

کومتیں قرضے اور وہ بھی سخت شرائط پر لیتی ہیں اور ضرورت مند کی طرح قرضے ملنے پر خوشی کا اظہار بھی کرتی ہیں۔ لیکن ان اقدامات سے قرضوں کے انبار میں اضافہ تو ہو رہا ہے لیکن معاشی مسائل میں کمی نہیں آتی۔

عام آدمی کے مسائل حل یا کم ہونے کے بجائے بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ قرضوں سے عام آدمی مہنگائی کی صورت میں شدید متاثر ہوتا جا رہا ہے ۔حکومت اگر انقلابی قدم اٹھا کر پاکستان کو آئندہ قرضوں سے نجات دلانا اور معاشی دلدل سے واقعی نکالنا چاہتی ہے تو آبادی میں اضافے کو روکنے کیلئے کم از کم دس سالہ ٹھوس پروگرام شروع کرے اور اس کو خصوصی اہمیت اور قانونی حیثیت دے اورپھر اس پروگرام کو سختی کے ساتھ رو بہ عمل کرنا اور جاری رکھنا چاہئے۔

ٹائی فائیڈ کا علاج سردردکی گولیوں سے نہیں ہو سکتا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ جو بھی حکومت آئے وہ ملک وقوم پر قرضوں کے پہاڑ کو مزید بلند کرتی جائے۔ یہ کتنی احمقانہ سوچ اور قوم کو دھوکہ دینا ہے کہ قرضے لو، حکومت کی مدت پوری کرو اور الزام گزشتہ حکومت پر لگائو۔ مدت پوری کر کے گھر جائو۔باقی پاکستانی عوام جانیں اور قرضے جانیں۔

انفرادی طور پر بھی ہر ایک کو چاہئے کہ آبادی میں اضافہ روکنے کیلئے اپنا مخلصانہ کردار ادا کرے۔ اپنے آپ پر مزید نہ ظلم کرے ،نہ آنے والی نسل پر۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)