ایک پیغام ، پیاروں کے نام

June 26, 2022

مرتب: عالیہ کاشف عظیمی

’’فادرز ڈے‘‘کے موقعے پر بھیجے گئے پیغامات کی پہلی اشاعت آپ ملاحظہ کرچُکے ہیں۔ آج چاشنی گھولتے ان پیغامات کی دوسری اشاعت آپ کی نذر ہے۔یاد رہے، اس میں تاخیر سے موصول ہونے والے پیغامات بھی شامل ہیں۔

(میرے پیارے بابا جان کے نام)

بابا جان! آپ میرے بہت اچھے دوست تھے۔ 2020ء میں ہم آپ کے سائے سے محروم ہوگئے۔ اب آپ ہرہر پَل یاد آتے ہیں۔ (نگہت ظہیر بہزاد، ہائی اسکول مومن آباد، کراچی سے)

(والدِ محترم، پروفیسر حکیم منظور احمد خان ڈاھاکے لیے)

حضرت علی ؓ کا فرمان ہے،’’بیٹے کا باپ پر اور باپ کا بیٹے پر حق ہے۔ باپ کا حق تو یہ ہے کہ اولاد اس کی اطاعت کرے،ہر بات میں سوائے مصیبت ِاللہ کے۔اور اولاد کا حق باپ پر یہ ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے۔ اخلاق اچھے بنائے اور قرآنِ پاک کی تعلیم دے۔‘‘ (ڈاکٹر محمد حمزہ خان ڈاھا ،لاہور سے)

( عظیم والد کے نام)

بلاشبہ باپ کی محبّت، چٹانوں سے زیادہ مضبوط اور پھولوں سے زیادہ خوش بو دار ہوتی ہے۔ (جاوید اقبال، بلدیہ کالونی، چشتیاں، بہاول نگرسے)

(بابا جان کے لیے)

آپ بہت یاد آتے ہیں۔ (سیّد واسع الرحمٰن، سیّد سعود الرحمٰن اورسیّدہ رحمہ رحمٰن ،کراچی سے)

(پیارے ابّی جان کے نام)

ابّی! جب تک آپ کی پگ بھائی کے سَرپرسجی رہے گی، آپ ہمارے درمیان موجود رہیں گے۔ (حمیرا گل اورحمیدہ گل، کوئٹہ سے)

(ابّو جی کی نذر)

رنج کتنا ہی کریں ان کا زمانے والے

جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے

کیسی بےفیض سی رہ جاتی ہے دِل کی بستی

کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے

ابّو جی! ہم آپ کی محبّت و شفقت کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ (عشرت جہاں، لاہور سے)

(والدین کے لیے)

یا اللہ ! ہمارے والدین کا شفیق سایا ہمارے سَروں پر تا حیات قائم رہے۔ (ولید اورمریم ،اورنگی ٹاؤن، کراچی سے)

(والد کے نام)

یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بَھر کے دُکھ عابیؔ

سُنا ہے، باپ زندہ ہو تو کانٹے بھی نہیں چبھتے (پرنس افضل شاہین،ڈھاباں بازار، بہاول نگر کا دُکھ)

(والدِ محترم، راجہ عدالت خان، المعروف جاجا جی (مرحوم) کےلیے)

یااللہ ! میرے بابا جان کی لحدپرکروڑ وںرحمتیں نازل فرمائے، جنہوں نے میرا گھر آباد کرنے میں ہر ممکن کوشش اور جدوجہد کی ۔ (ظفر احمد کیانی ڈبل ایم اے، لاہور کینٹ سے)

(میرے باغ و بہار طبیعت کے مالک، ابّا جان کے نام)

ابّا جان! ہماری زندگی آپ کی محبّت و چاہت سے لب ریز ہے۔ (محمّد فصیح، عشنا خان، امتا مبین، موطیبہ فرید اور محمّد مسعود علی،پاک پتن کی دُعا)

(عظمت کے مینار، ابّو (مرحوم)کے لیے)

ہم سب ابو جان کی مغفرت کے لیے دُعاگو ہیں، جو ہمیں بَھری دُنیا میں تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔ (زاہد احمد خان، کامران احمد خان، سمیرا خان اور شازمہ خان،مرشد ٹاؤن، کھنّہ کاک، راول پنڈی سے)

(پیارے والد، حاجی محمّد اسماعیل قریشی (مرحوم)کے نام )

ابّو جان! مختصر علالت کے بعد آپ ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔ آپ کے انتقال کے بعد زندگی میں ایک خلا سا آگیا ہے، جو شاید کبھی پُر نہ ہوسکے۔ ابّو! ہمیں آپ کی تمام نصیحتیں، باتیں یاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے اور آپ کو جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ (محمّد اسحاق قریشی اینڈ برادرز، اورنگی ٹاؤن، کراچی سے)

(محترم بابا کے لیے)

بابا!ہم ہی نہیں، گھر کے دَر و دیوا ربھی آپ کی راہ تک رہے ہیں۔ (بنتِ سومر خانگل، کلی ترخہ، کوئٹہ کا انتظار)

(اپنی ہم شہر، اقصیٰ منوّر ملک اور والدہ کے نام)

اقصیٰ جی! مَیں سب سے پہلے تو کتاب جیسا نادر تحفہ بھیجنے پر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی۔ بلاشبہ، جنگ، سنڈے میگزین کے لکھاریوں میں آپ ایک اچھا اضافہ ہیں۔ ہمیشہ خوش رہیں۔ اور میری پیاری امّی جان، فاطمۃ الزہرا! دُعا ہےکہ آپ کو ڈھیروں خوشیاں دیکھنی نصیب ہوں۔؎تیری خوشبو نہیں ملتی، تِرا لہجہ نہیں ملتا…ہمیں تو شہر میں کوئی تِرے جیسا نہیں ملتا۔ (عیشا نیاز رانا، صادق آباد کا پیغام)

(امّاں جی کے لیے)

ماں وہ گھنی چھاؤں ہے،جس کے سائے تلے دُنیا و آخرت کی راحتیں ہی راحتیں ہیں۔ مَیں 80 برس کی عُمر میں بھی ہر روز اپنی ماں کی لحد پرجاتا ہوں اور گھنٹوں بیٹھ کر ان کے لیے دُعائیں کرتا ہوں۔ ا اے اللہ !میری ماں کی لحد سدا پھولوں سے مہکتی اور ڈھکی رہے۔ (سیّد شاہ عالم زمرد اکبر آبادی، راول پنڈی کی دُعا)

(ماں کی نذر)

فکر میں بچّوں کی کچھ اس طرح گُھل جاتی ہے ماں

نوجوان ہوتے ہوئے بھی بوڑھی نظر آتی ہے ماں (ملک محمّد اسحاق راہی، صادق آباد کی جانب سے)

(عظیم پیاری والدہ ( مرحومہ)کے نام)

1979ء میں ماں جی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں، مگر ان کی باتیں آج بھی ہم سب کے دِلوں میں نقش ہیں۔ آپ نے جس طرح زمانے کی سختیاں، مصائب، تکالیف اور مالی مشکلات کے باوجود اللہ کے فضل و کرم سے ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ نے ہمیشہ صلۂ رحمی اور سچ بولنے کا درس دیا۔ تنگ دستی میں بھی قناعت پسندی اور جذبۂ ہم دردی پروان چڑھایا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو غریقِ رحمت کرے اور آپ کی لحد کو تاحدِنظر کشادہ اور منوّر فرمائے۔ (مبارک علی ثاقب ،راول پنڈی کا اظہارِ عقیدت)

(ماں جی کی نذر )

’’چاہتوں کا دریا ماں…اور خود ہے تشنہ ماں…زیرِ پا تِرے جنّت…عظمتوں کی دُنیا ماں…رحمتوں کی نگری میں…رحمتوں کا سایا ماں…دُکھ کے سخت جنگل میں…سُکھ کا نرم گوشہ ماں…خارزار بستی میں…پھول کا دو شالہ ماں…تلخیوں کے موسم میں…پیار کا بتاشا ماں…ہےدلائی سپنوں کی…نیند کا بچھونا ماں…ہے کتاب شفقت کی…حرف ہے دُعا کا ماں…تتلیوں کا بچپن ہے…پھول سا ہے چہرا ماں۔‘‘ (عائشہ رئیس کی طرف سے)

(عظمت کے مینار ،ڈیڈی(مرحوم )کی نذر)

باپ کی شفقتوں کے سائے میں…جو زندگی ہم نے گزاری ہے…وہ اثاثہ ہے عُمرِ رفتہ کا…اُن کی قربت کے دِل نشیں لمحے…آج بھی ہم کو یاد آتے ہیں…اور پہروں ہمیں رُلاتے ہیں…ان کی یادوں کے سائبان میں ہم…جی رہے ہیں اس اعتماد کے ساتھ…زندگی نغمۂ محبّت ہے…زندگی ہی تو اِک عبادت ہے…باپ کی قربتوں سے سیکھا ہے…تیرگی کیا ہے، روشنی کیا ہے…باپ نے راحتیں عطا کی ہیں…باپ نے جو محبّتیں دی ہیں…ان کو ہم کیسے بھول سکتےہیں۔ (آپ کی چھوٹی اور بہت لاڈلی بیٹی، حرا عباسی کا خراجِ عقیدت)