21 جون: تاریخ کی نئی تفہیم کا دن

June 21, 2022

21 جون شہید محترمہ بے نظیر کا یوم پیدائش ہے۔ اس حوالے سے کرشن چندر کا افسانہ ’’بالکونی‘‘ یاد آر ہا ہے ۔افسانے کا مرکزی کردارگلمرگ کے ہوٹل ’’فردوس ’’میں رہائش پذیر ہے ۔ اسکے کمرے کی بالکونی سے غروب آفتاب کا نظارہ بہت دلکش ہوتا ہے ۔ اس لئے غیر ملکی سیاحوں سمیت ہوٹل میں رہائش پذیر زیادہ ترلوگ اسی کمرے کی بالکونی میں آکر بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔ یہ وہ عہد ہے، جب عالمی سرمایہ دارانہ نظام اپنے ہی تضادات کی بھینٹ چڑھ رہا ہے اور دنیا ’’جنگ عظیم ’’کی تباہ کاریوں سے دوچار ہے ۔ اجتماعی عالمی شعور صورت حال کا مکمل ادراک کر چکا ہے اور وہ انقلابات برپا کرنے کیلئے تاریخ فہمی کی تمام ضروری منزلیں طے کر چکا ہے ۔ اس کمرے کے اوپر والے کمرے میں ایک عمر رسیدہ اطالوی اپنی بیٹی ’’میریا ’’کے ساتھ رہتا ہے ۔ وہ دونوں بھی اس بالکونی میں آکر بیٹھتے ہیں ۔ میریا ہمیشہ اداس اور غم زدہ رہتی ہے ۔ بالکونی میں بیٹھے ہوئے ایک دن افسانے کا مرکزی کردار میریا سے دریافت کرتا ہے کہ جنگ عظیم کے بارے میں اس کا کیا خیال ہے ۔ وہ کہنے لگی ’’جنگ … جنگ … تم بہت اچھے ہو … جنگ بہت بری شے ہے ۔ میں ایک عورت ہوں ۔ میں آدمی کی محبت کو سمجھ سکتی ہوں ، اس کے قاتلانہ جذبے کو نہیں سمجھ سکتی ۔ کشت و خون کیوں ہوتا ہے ؟ اس وقت میرا فوجی بھائی قیدی ہے ۔ ’’اس کی آنکھیں نم ناک ہو جاتی ہیں ۔

افسانے کا مرکزی کردار کہتا ہے کہ ’’معاف کرنا ، یہ جنگ تمہارے فسطائیوں نے شروع کی ہے ۔ ’’وہ بولی ’’میں فسطائی نہیں ہوں ۔ نہ ہی میرا بھائی فسطائی تھا ۔ میرا باپ چھڑیاں بناتا ہے اور رات کو کنسر ٹینا (Concertina) پر گانا پسند کرتا ہے ۔ مجھے پیانو سے عشق ہے ۔ میں نے کبھی سیاست کے متعلق نہیں سوچا ۔ مجھے فسطائیت قطعاً پسند نہیں ۔ جب میں پیدا ہوئی تو عہد نامہ ورسائی پر دستخط ہو چکے تھے اور میں ہندوستان میں تھی۔ مجھے مسولینی سے کوئی ہمدردی نہیں ہے ۔ اس نے تو میرا پیانو سکھانا بھی بند کر دیا ہے ’’اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں آخر وہ یہ بات بھی کہہ دیتی ہے کہ ’’دراصل یہ ہماری غلطی تھی ۔ ہم خوشی کے راگ الاپتے رہے ۔ کنسرٹینا بجاتے رہے ۔ ہم سیاست سے بے بہرہ رہے اور ہم نے فسطائیوں کو من مانی کارروائیاں کرنے کا موقع دیا ‘‘کرشن چندر کے افسانوی کردار ’’میریا ’’نے سیاست سے لاتعلقی اور فسطائیوں کو من مانی کارروائیاں کرنے کا موقع فراہم کرنے کی جس غلطی کا اعتراف کیا ، اس غلطی کا تاریخ میں ازالہ 21 جون 1953 کو جنم لینے والی بے نظیر بھٹو نے کر دیا ۔ انہوں نے بتا دیا کہ عورت مسلط کردہ جنگوں پر صرف آنسو نہیں بہاتی بلکہ وہ لڑ بھی سکتی ہے ۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک ایسے عہد میں سیاست کی، جس میں ’’نو فسطائی ’’( نیو فاشسٹ) قوتوں نے ایک جنگ مسلط کر رکھی تھی ۔ پہلی دو عالمی جنگوں کی طرح اس جنگ میں دو فریقین آپس میں نہیں لڑ رہے تھے بلکہ ایک ہی فریق نے یکطرفہ جنگ مسلط کر رکھی تھی اور عالمی جنگوں سے زیادہ پوری دنیا میں خونریزی ہو رہی تھی ۔ پاکستان اس یکطرفہ جنگ کا حقیقی میدان بنا ہوا تھا۔ پاکستان میں سیاست کرنا اور عوام کے جمہوری حقوق کی بات کرنا زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا ۔ کرشن چندر کی ’’میریا ’’اپنے عہد کا ایک باشعور کردار ہے اور اسکا یہ کہنا درست ہے کہ سیاست سے لاتعلقی ایک جرم ہے کیونکہ فسطائیوں کو اپنی من مانی کرنے کا موقع ملتا ہے لیکن اگر کرشن چندر جیسے انتہائی دانش مند ادیب کو یہ علم ہوتا کہ نو فسطائی عہد میں سیاست سے تعلق کی بینظیر بھٹو نے ناقابل یقین قیمت ادا کی ہے تو شاید بالکونی میں ہونے والی گفتگو میں ایک انتہائی خطر ناک عہد میں عورت کے بہادرانہ کردار کی وہ تفہیم بھی ہو جاتی ، جو اب تک نہیں ہو سکی ۔ 18 اور 19 اکتوبر 2007 کی درمیانی شب محترمہ بے نظیر بھٹو کے استقبالی فافلے پر دہشت گردوں کے وحشیانہ حملے میں ہونیوالے قتل عام اور خونریزی کے بعد 19اکتوبر کی شام کو بلاول ہائوس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی پریس کانفرنس منعقد ہوئی ۔ ان سے یہ سوال کیا گیا کہ اس خون آشام واقعہ کے بعد کیا وہ پاکستان میں رہیں گی اور کیا وہ اپنی انتخابی مہم جاری رکھیں گی؟ تو انہوں نے تھوڑے توقف کے بعد انتہائی مضبوط لہجے میں کہا کہ ’’میں پاکستان کے عوام کو تنہا نہیں چھوڑوں گی ۔ میں میدان خالی نہیں چھوڑوں گی۔ میں جمہوریت دشمنوں ، دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو یہ موقع نہیں دوں گی کہ وہ اپنی مرضی اور اپنا ایجنڈا ہم پر مسلط کریں ۔‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو نے میدان میں رہ کر اپنی جان قربان کر دی اور سیاست سے لاتعلق رہنے والے بے شمار لوگوں کی غلطیوں کا ازالہ کیا ۔ اپنی اس قربانی سے انہوں نے نو فسطائی قوتوں کے پاکستان کیلئے ایجنڈے پر عملدرآمد میں رکاوٹ پیدا کر دی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہ تعلق اسلئے بھی نبھایا کہ 21 جون 1978 ء کو موت کی کال کوٹھڑی سے انکے والد ذوالفقار علی بھٹو نے انکی 25 ویں سالگرہ پر انہیں جو خط لکھا تھا ، اس میں انہوں نے اپنی بیٹی کو سالگرہ کے تحفے میں عوام کا ہاتھ دیا تھا ۔ آج پھر محسوس ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ’’میریا ’’کی طرح اگرچہ فسطائیت کے مخالف ہیں لیکن وہ حالات درست ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ دہشت گردی کیخلاف پاکستان میں جو جنگ شروع ہوئی ہے ، وہ فیصلہ کن ہو گی اور اس سے حالات بہتر ہوجائینگے ۔ یہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں کہ عوام کی جنگ کوئی اور لڑے گا ۔

21 جون کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے 70 ویں یوم ولادت پر آج کے کسی کرشن چندر کو ’’بالکونی‘‘ میں کوئی ایسا کردار بھی لانا ہو گا ،جو اقبال کا ’’بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق ’’والا کلام گا سکے ۔