مسلم لیگ ن کی ناکامی کے اسباب

July 25, 2022

آج سے چند ماہ قبل مسلم لیگ ن ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت تصور کی جاتی تھی۔فروری میں جب پی ڈی ایم کے اکابرین کو راولپنڈی میں بٹھایا گیا اور عدم اعتماد کے حوالے سے گرین سگنل دیا گیا ،تب تحریک انصاف کے منحرف ارکان اسمبلی کی ایک ہی خواہش تھی کہ آئندہ انتخابات میں انہیں مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دیا جائے۔پیپلزپارٹی نے بھی حتی کہ اسی شرط پر مسلم لیگ ن کی مرکز اور پنجاب حکومت کی تشکیل میں حمایت کی تھی کہ اسے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ایڈجسٹ کیا جائے گا ۔قارئین کو یاد ہو گا کہ اسی شرط کی یقین دہانی کے لئے بلاول بھٹو زرداری لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات کرنے گئے تھے۔یعنی ٹھیک چار ماہ قبل مسلم لیگ ن اتنی مقبول تھی کہ ارکان اسمبلی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کو کامیابی کی ضمانت سمجھتے تھے۔ایسے میں مسلم لیگ ن نے اپنے مقبول ترین بیانیے پر سمجھوتہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

میاں نوازشریف کو منصوبہ بندی سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے اس کی مخالفت کی۔مگر مسلم لیگ ن کے صف اول کے رہنماؤں نے ایک لابی کی صورت میں انہیں قائل کیا کہ اگر عمران خان کے خلاف تحریک عد م اعتماد پیش نہ کی گئی تو آئندہ چند ماہ میں ہمارا ناقابل تلافی نقصان ہوجائے گا۔نومبر میں ہونے والی تعیناتی کے حوالے سے بتایا گیا کہ عمران خان کا ہٹایا جانا اشد ضروری ہے،وگرنہ نومبر میں ایسا فیصلہ متوقع ہے ،جس کا خمیازہ آئندہ انتخابات میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ان تمام تاویلوں اور دلیلوں کے باوجود نوازشریف دلی طور پر رضامند نہیں تھے ۔ ایسے میں مسلم لیگ ن کے ان رہنماؤں سے بار بار کہلوایا گیا جن پر میاں نواز شریف انتہائی بھروسہ اور اعتماد کرتے ہیں۔ایسے رہنما جو ظاہری طور پر سویلین بالادستی اور جمہوریت کے داعی کے طور پر پارٹی میں جانے جاتے ہیں۔جب ایسے لوگوں نے میاں نوازشریف کو کہا تو انہوں نے تحریک عدم اعتماد کی خاموش حمایت کی ہامی بھرلی۔یہیں سے غلطی کا آغاز ہوا کیونکہ جن لوگوں نے میاں نوازشریف کو اس سارے سیاسی کھیل پر قائل کیا،آج وہ تمام اہم وفاقی وزارتوں پر براجمان ہیں۔ نوازشریف یہاں پر غلطی کرگئے۔جن لوگوں کے مشوروں کو اہمیت دے کر انہوں نے اپنی رائے تبدیل کی ان کا تو اقتدار سے اپنا مفاد جڑا ہوا تھا۔ اپنی چند ماہ کی وزارت کے لئے انہوں نے وہی مشورہ دیا جس میں ان کا اپنا فائدہ تھا، پارٹی مفاد کو کسی نے مقدم نہیں رکھا اور یوں میاں نوازشریف اور مسلم لیگ ن نے اپنی سیاسی زندگی کی ہولناک غلطی کی۔

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو عدم اعتماد کے بعد اس کو رخصت کرنے میں ہی ایک ماہ سے زائد کا عرصہ لگ گیا۔یہ پہلی نشانی تھی کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔بہرحال تحریک عدم اعتماد کے بعد مرکز اور صوبے میں مسلم لیگ ن حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔حکومت کی تشکیل کے بعد عمومی تاثر تھا کہ مسلم لیگ ن دو سے تین ماہ یا حد نومبر تک تمام ضروری قانون سازی کے بعد انتخابات کا اعلان کردے گی۔مگر خواہش یہ تھی کہ نہ صرف مدت پوری کی جائے اور اگست 2023تک حکومت کی جائے بلکہ اس حد تک اعتماد دلوادیا گیاتھا کہ اس اسمبلی کو چھ ماہ تک قانونی توسیع دی جاسکتی ہے اور بقیہ چھ ماہ سپریم کورٹ سے رجوع کرکے لئے جاسکتے ہیں کہ ابھی مردم شماری و حلقہ بندیوں کا معاملہ زیر التواء ہے،اسلئے کچھ وقت لگے گا۔یوں یہ حکومت ڈیرھ سال نہیں بلکہ ڈھائی سال قائم رہے گی۔مسلم لیگ ن کے صاحب اقتدار دوست اس یقین دہانی کو بھی سچ سمجھ بیٹھے ۔اور یہ دوسری بڑی غلطی تھی۔کیونکہ اس کے بعد مسلم لیگ ن کی ایک ووٹ پر قائم حکومت نے طویل المدت منصوبہ بندی کر نا شروع کردی۔ وہ تمام فیصلے کیے جو دو تہائی اکثریت سے پانچ سال کے لئے منتخب ہونے والی حکومت اپنے ابتدائی چند ماہ کے دوران کرتی ہے۔بہرحال انہی فیصلوں کی قیمت مسلم لیگ ن نے حالیہ ضمنی انتخابات میں ادا کی ہے۔

حکومت کی تشکیل کے بعد جس چیز سے مسلم لیگ ن کو شدید نقصان ہوا ،وہ فیصلہ سازی کا فقدان تھا۔حکومت قائم ہوئے تقریباً تین ماہ ہوچکے ہیں مگر گورنر اسٹیٹ بینک نہیں لگایا جاسکا۔دو صوبے آج بھی اپنے گورنرز سے محروم ہیں ، مسلم لیگ ن اور ان کے اتحادی ابھی تک فیصلہ نہیں کرپائے کہ کسے گورنر لگانا ہے؟

اسی طرح مسلم لیگ ن نے حکومت حاصل کرتے ہی اپنے نظریاتی لوگوں کو نظر انداز کردیا۔جن لوگوں نے گزشتہ چار سال خراب ترین حالات کا سامنا کیا تھا ،انہیں حکومت سازی میں شامل نہیں کیا گیا۔ڈیرہ غازی خان،لیہ ،مظفر گڑھ،ملتان سمیت اہم ترین اضلاع میں پارٹی کا کوئی وارث ہی نہیں ہے۔پورے جنوبی پنجاب میں ایسے افراد پر تکیہ کیا گیا ہے جنہیں شائد خود بھی یاد نہیں کہ انہوں نے پچھلا الیکشن کس جماعت کے ٹکٹ پر لڑا تھا؟ایک یا دو اشخاص کے حوالے جنوبی پنجاب کردیا گیا ہے ۔وہ بھی وہ لوگ ہیں جو اس حکومت کے جانے کے بعد مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑے بھی نہیں ہونگے۔حالیہ ضمنی انتخابات میں سب سے زیادہ سیٹیں جنوبی پنجاب کی تھیں۔تکلیف دہ امر ہے کہ مسلم لیگ ن ڈیرہ غازی خان میں ایسے شخص سے ہاری ہے جو عام انتخابات میں بارہ ہزار ووٹوں سےایک آزاد امیدوار سے ہار گیا تھا، آج وہی امیدوار مسلم لیگ ن کے امیدوار سے تقریبا 25ہزار سے زائد کی لیڈ سے جیتا ہے۔حالانکہ ڈیرہ غازی خان میں مریم نواز کو یہ کہہ کر جلسہ نہیں کرنے دیا گیا کہ یہ سیٹ تو ون وے ہے۔ مگر شکست کا مارجن ڈیرہ غازی خان میں سب سے زیادہ ہے، بہرحال اب میاں نوازشریف کو فرنٹ سیٹ پر آنا ہوگا، وگرنہ مسلم لیگ ن کا مزید ناقابل تلافی نقصان ہوجائے گا اور پھر ملال کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)