آفتاب سلطان کی تقرری نیب کی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارہ دے گی

July 27, 2022

قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کے منصب پر آفتاب سلطان کی تقرری موجودہ حکومت کی جانب سے اب تک کیے جانے والے فیصلوں میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔جس سے حکومت کی اس سوچ کی عکاسی ہوتی ہے کہ ماضی میں احتساب اور انصاف کے چہرے پر لگے داغ دھوئےجائیں۔سابق چیئرمین نیب پر لگائے جانے والے اس الزام کی کہ انہوں نے قومی احتساب بیورو کو حکومت وقت یا اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے موصول ہونے والے احکامات کی بجا آوری کےلیے قانون اور آئین کو پامال کیا۔قومی ادارے کی تذلیل اور انصاف کےلیے شرمندگی کا باعث بنے۔عام تاثر یہی تھا کہ نیب کے سربراہ اپنی عادتوں کی وجہ سے ادارے کی تباہی اور تذلیل کے ذمہ دار ہیں۔ایک طویل مدت تک کمزور اور بے آواز لوگوں کے عصاب پر سوار رہے اور انتقام کی بنیادپر انصاف کی توہین کرتے رہے۔جو ان کے ہر فیصلے اور ہر کارروائی میں جھلکتا رہا ۔ جس کے نتیجے میں اس قومی ادارے کو بدنام، بے وقعت اور متنازع بنایا۔اوربڑی دلیری کے ساتھ سیاسی انتقام کے عمل کو 'انصاف کا نام دے کر مطلوبہ نتائج اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے رجحان کو عام کیا۔اوربے آواز عوام کو احتساب کے نام پر جھوٹےسچے مقدمات میں الجھائے رکھا۔طیبہ گل کاقصہ بھی اسی خود سری کی بنیاد تھا،اخلاقیات مذہب اور قانون جس کی اجازت نہیں دیتا۔ان حالات میں آفتاب سلطان کی اس انتہائی حساس اور اہم منصب پر تقرری انصاف کی چہرے پرلگے بدنما دھبوں کو مٹانے کےلیے ضروری تھا کیونکہ اس ادارے کے جن لوگوں نے اختیارات کے غلط استعمال کے ذریعے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور ایمان کے سوداگری کرتے ہوئے انصاف کے چہرے کو بدنما بنا دیا، ایسے لوگوں کے علاج کےلیے ایسی قیادت کی ضرورت تھی جس کا رابطہ صرف اپنے خالق کے ساتھ ہو ۔ ایسی کئی برگزیدہ ہستیاں اب بھی اس نظام میں موجود ہیں جن کے صدقے یہ ملک قائم ہے۔اور جو لوگ آفتاب سلطان کی شخصیت سے آگاہ ہیں وہ اس بات کی تائید کریں گے کہ باری تعالی نے اس شخص کو ان تمام خوبیوں سی نوازا ہے جس کی بنیاد پر وہ اس قومی ادارے کا اصل مقام واپس دلا سکتا ہے۔بدنمائی کو خوشنمائی اور بدنامی کو نیک نامی میں بدلنے کی اہلیت اور ہمت رکھتا ہے۔

طیبہ گل کا بیانیہ۔درست ہے یا غلط۔بہر حال ایک خاتون نے احتساب کے قومی ادارہ کے سربراہ پر ٹھوس شواہد کی بنیاد پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا ہے جسے کسی فورم پر سننے اور اسے کسی منتقی نتیجے پر پہنچانا حکومت وقت کا اخلاقی، قانونی، مذہبی اور آئینی ذمہ داری تھی لیکن اس وقت کی تحریک انصاف حکومت نے اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا۔لیکن بزبان طیبہ گل عمران خان کی حکومت نے اپنے معاملات سابق چیئرمین نیب کو بلیک میل کر کے سیدھے کرنے کا فیصلہ کیا جس کی ذمہ داری سابق وزیر اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو سونپی گئی۔اعظم خان نے اس سلسلے میں طیبہ گل سے رابطہ کیا اور انہیں اس بات کا یقین دلاتے ہوئے کہ حکومت انہیں انصاف دلائے گی۔انہیں وزیراعظم ہاؤس بلایا اور ان سے سابق چیئرمین نیب کے خلاف تمام شواہد حاصل کرکے انہیں وزیر اعظم ہاؤس میں ہی قیام کرنے کی ہدایت کی اور ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہونے کا جواز بناتے ہوئے انہیں ان کی مرضی کے خلاف 45 روز تک حبس بیجا میں رکھا گیا۔اس دوران انہیں مقررہ حدود سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔لیکن اس دوران طیبہ گل کی اجازت کے بغیر ہی ان کی متنازع تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کی جاتی رہیں۔طیبہ گل کے بقول حکومت وقت نے انہیں محبوس رکھنے کے دوران پی۔ٹی۔آئی کے ان تمام رہنماؤں کو نیب کی چنگل سے رہا کروا لیا جن کے کرپشن کیسز زیر تفتیش تھے۔

طیبہ گل نے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی انصاف کی تلاش شروع کر دی۔آخرکار مبینہ جنسی ہراسانی کا نشانہ بننے والی خاتون طیبہ گل کی آواز سنی گئی اور موجودہ حکومت نے کابینہ کی منظوری سے نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس کی چیئر پرسن رابعہ جاوید آغا کی سربراہی میں کمیشن قائم کر دیا جو سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال اور کچھ دوسرے لوگوں کے خلاف طیبہ گل کی جانب سے عائد کئے جانے والے الزامات کے حوالے سے تحقیقات کرے گا۔کمیشن میں ہیومن رائٹس کمیشن سندھ اور پنجاب کے نمائندے انیس ہارون اور ندیم اشرف بھی ممبرز کے طور پر شامل ہوں گے۔کمیشن کو ایکٹ 10 کے تحت فوجداری عدالت کے اضافی اختیارات دیتے ہوئے شکایت کندہ کی جانب سے جنسی ہراسانی میں شامل جن افراد کی نشاندہی کی گئی ہے ان کے خلاف جنسی جرائم کے تحت انکوائری قرے گا جن میں ہراسانی، اشتعال انگیز اور توہین آمیز الفاظ کا استعمال، نامناسب رویہ، نامعقول حرکات اور اختیارات کا غلط استعمال کے علاوہ8دوسرے نکات کی انکوائری کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔

سب کی نظریں اس دعا کے ساتھ انکوائری کمیشن پر لگی ہیں کہ رب ذوالجلال کمیشن کو صحیح انصاف کرنے اور بے آواز اور کمزور لوگوں کی آواز اور طاقت بننے کی ہمت اور استطاعت عطا فرمائے۔