نفرت انگیز بیانیہ ترک کریں

August 23, 2022

پاکستان کی سیاست پولرائزیشن نہیں بلکہ ریڈکلائزیشن کا شکار ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اختلافِ رائے اب انتہا پسندی کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ یعنی ہم سیاست میں اختلاف سے نفرت تک جا پہنچے ہیں۔ اتنی نفرت کیوں اور کہاں سے آ رہی ہے اور اس کا پاکستان کو آنے والے دنوں میں کیا نقصان اُٹھانا پڑ سکتا ہے؟

نفرت بنیادی انسانی احساسات میں سے ایک احساس ہے۔ یہ ہمارے ذاتی تحفظ کا ایک حصہ بھی ہے یعنی جو چیز ہمیں بظاہر نقصان پہنچائے ہم نفسیاتی طور پر اُس سے نفرت کرنے لگتے ہیں، اِسی نفرت کی بنا پر ہم اُس چیز سے دور رہتے ہیں۔ لیکن سیاسی طور پر اِس بنیادی انسانی احساس کا استحصال کرتے ہوئے اپنے مخالفین سے اختلاف کو نفرت میں بدلا جا رہا ہے۔

عمران خان اور تحریک انصاف کا اِس میں بہت بڑا ہاتھ رہا ہے اور یہ نفرت سب سے زیادہ نوجوانوں میں پھیلائی جا رہی ہے۔ نوجوان سوشل میڈیا کے استعمال سے نہ صرف اس نفرت کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ اسے بڑھا بھی رہے ہیں۔ اِس حوالے سے جو یہ توجیہ پیش کی جاتی ہے کہ یہ نفرت پھیلانے والے سوشل میڈیا ٹرولز ہیں، غلط ہے بلکہ اس نفرت کو پھیلانے والے سوشل میڈیا ٹرولز یا باٹس نہیں بلکہ ہمارے نوجوانوں کا ایک طبقہ بالخصوص جو خود کو زیادہ پڑھا لکھا سمجھتا ہے، اس نفرت کی گرفت میں زیادہ آیا ہوا ہے۔

سیاسی مخالفین عوام میں نفرت پھیلا کر اور اپنی مشکلات اور ناکامیوں کا دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ قراردے لیتے ہیں۔ یہاں اپنی غلطیوں اور احتساب کو مخالفین کے خلاف نفرت کے جذبات پھیلا کر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آج ملک جس حال تک پہنچ چکا ہے اِس کی موجودہ حالت کا ذمہ دار یہ امر بھی ہے۔

ایک اور چیز جو اِس نفرت کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہے،یہ کہ ہمارے نوجوانوں نے کبھی تاریخ نہیں پڑھی، نہ ہی وہ پاکستان کی سیاست کو گہرائی سے سمجھتے ہیں ، اُن کے پاس پاکستان کی تاریخ اور سیاست کو سمجھنے اور جاننے کا واحد ذریعہ عمران خان اور اُن کی تقاریر ہیں، جن کے نزدیک تمام سیاستدان چور ہیں، عمران خان جسے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے نہیں تھکتے تھے، وہ آج اُن کی جماعت کے ووٹوں سے پنجاب کاوزیراعلیٰ بن چکا ہے۔ جب عوام کا زاویہ نظر ہی یہ بنا دیا جائے گا کہ اُن کی غربت اور تمام مسائل کی وجہ تحریک انصاف کے مخالفین ہیں تو وہ اُن سے شدید نفرت ہی کریں گے۔ تحریک انصاف اس نفرت سے بھرپور بیانیے کو ہمیشہ سے استعمال کرتی چلی آئی ہے اور آج بھی بڑی کامیابی سے استعمال کر رہی ہے۔

تحریک انصاف سوشل میڈیا پر فیک نیوز نیٹ ورک بنائے بیٹھی ہے جس کی حالیہ مثال ایک بچے سے زیادتی کرنے والے کی تصویر شہباز گل کے نام پر یہ دکھانے کیلئے چلانا کہ شہباز گل پر کتنا تشدد ہوا ہے۔ یا پھر شہباز گل کی والدہ اور بہنوں کی پریس کانفرنس چلانا ، جن کے بارے میں بعد میں انکشاف ہوا کہ وہ شہباز گل کی سگی والدہ اور بہنیں نہیں تھیں۔ اسی فیک نیوز نیٹ ورک کے تحت اپنی غلطی پر احسن اقبال صاحب سے معافی مانگنے والی فیملی کو ڈرایا اور دھمکایا گیا ،دکھانے کی کوشش کی گئی۔ اِن تمام فیک نیوز پر اسی نفرت انگیز پروپیگنڈا سے ہی یقین آتا ہے۔ اب تو ایسی صورتحال بن چکی ہے کہ سچی چیز جھوٹی اور جھوٹی چیز سچی بن جاتی ہے۔

وقتی سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے جب اِس طرح کے نفرت انگیز حربے استعمال کئے جاتے ہیں تو ملک کو طویل مدت تک اُس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ آج ہم نوجوانوں کو محنت کا درس دینے، انہیں پیداواری سرگرمیوں اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے استعمال کرنے کی کے بجائے نفرت کا بیانیہ بیچ رہے ہیں جس سے نہ صرف ہماری پوری نسل برباد ہونے کا خدشہ ہے بلکہ ملک میں جہاں پہلے ہی لامحدود تفریق نظر آتی ہے، وہاں تفریق کا ایک نیا جواز فراہم کر رہے ہیں۔

اس نفرت کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس سے نہ صرف سیاسی ہم آہنگی ختم ہو جاتی ہے بلکہ ڈائیلاگ کا راستہ بھی مسدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ پاکستان کو درپیش معاشی ابتری سے نکلنے کے لئے سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن جب تک عوام میں نفرت کی آگ بھڑکائی جاتی رہے گی تب تک میثاقِ معیشت کیونکر ممکن ہو گا؟

اب، جبکہ یہ نفرت ریاست اور اُس کے اداروں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تو یہ ملکی بقا کا مسئلہ بنتا چلا جا رہا ہے۔ اِس نفرت کو ختم کرنا ملک کی ترقی و خوشحالی اور بقا کے لئے بہت ضروری ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وقتی مفادات کے حصول کے لئے پھیلائی گئی نفرت پاکستان کو ہمیشہ بہت مہنگی پڑی ہے۔ اگر یہ نفرت شدت پسندی کی طرف مائل ہونا شروع ہو گئی تو اسے روکنا نا ممکن ہو جائے گا۔سیاسی جماعتوں اور اُن کے قائدین بالخصوص عمران خان کو چاہئے کہ ملک کی تعمیرو ترقی اور سالمیت کے لئے نفرت کا بیانیہ ترک کریں اور افہام و تفہیم کا راستہ اپنائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)