سیلاب کی تباہ کاریاں اور ہمارا قومی رویہ

August 27, 2022

میں ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ کے سیلاب میں گھرے ہوئے علاقے وھواکے قاری سہیل صاحب کےمتاثرینِ سیلاب کے حوالے سے وائرل وڈیو کلپ پر یہ کالم لکھتے ہوئے پتہ نہیں اندر سے کتنی مرتبہ ٹوٹا اور پھر جڑا ہوں تاکہ ان کے جذبات اور مصیبت کا شکار افراد اور ان کے دکھ آپ لوگوں کے سامنے لا سکوں ۔قاری سہیل یہ سب بتاتے ہوئے خود بھی شدت جذبات اور کم مائیگی کا شکار ہو کر رو پڑے۔انہوں نے بلکتے ہوئے بتایا کہ میں نے ایسی کیفیت زندگی میں کبھی نہیں دیکھی،سیلاب کا شکار چھوٹے چھوٹے بچے اور عورتیں اپنے اپنے گھروں سے سامان نکال کر باہر رکھ رہے تھے تاکہ جو بچت ہو سکتی ہے ہو جائے، میں بھی ان کی مدد کو پہنچا تو دیکھا کہ چار بچے میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر نہایت یاسیت سے سرائیکی میں بولے،چاچا چووی گھنٹے تھئ گیئن، اساں روٹی دا ہک گئہراں تک نئیں کھادا(چاچا 24گھنٹے ہو گئے ہیں، ہم نے روٹی کا ایک لقمہ تک نہیں کھایا۔)یہ سن کر میرا دل اندر سے کٹ کر رہ گیا ۔وہاں ایسی قیامت گزری ہے کہ اللّٰہ معافی۔قاری صاحب کہنے لگے کہ میں گھر گیا اور والدہ سے کہا کہ گھر میں جتنے پیسے پڑے ہیں، دے دیں۔انہوں نے بتایا، 25 ہزار روپے ہیں وہ رقم لےکر میں دیگوں والے کے پاس گیا اور اس سے چاول بنوا کے شاپروں میں پیک کر کے متاثرین کو بانٹنے پہنچا وہاں ایک تباہ حال گھر کے باہر کھڑے شخص کو شاپر دیا تو وہ چاول لیتے ہوئے کبھی میری طرف اور کبھی اپنے گھر کی طرف بلکتے ہوئے دیکھتا تھا،’’ککھ ہک نئیں بچا آلہڑیں دا توڑیںاساں ہر کہیں کوں آکھے بچا تھئی گئے۔

یہ تو صرف ایک تباہ حال علاقے کی کتھا ہے۔ مون سون کی غیر معمولی بارشوں کے باعث سندھ،بلوچستان،جنوبی پنجاب میں اتنی تباہی آ چکی ہے کہ اس کا اندازہ سوائے متاثرین کے یا سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والے ویڈیو کلپس کے نہیں لگایا جا سکتا۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب تک 820 انسان جان کی بازی ہار چکے ہیں، پانچ لاکھ سے زائد جانورپانی کی لہروں میں بہہ گئے ہیں،2886کلو میٹرطویل سڑکیں تباہ،سینکڑوں دیہات سیلاب برد اور 3لاکھ 19000ہزار مکان تباہ ہو چکے ہیں،میں حیران ہوں کہ ہمارا محکمۂ موسمیات،قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز سیلاب سے قبل کیا کرتی رہی ہیں؟ملکی معیشت میں جتنی جان تھی ، اس کے مطابق متاثرین کے لئے امدادی پیکیج کا اعلان کر دیا گیا اور بالآخر وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کو اقوام متحدہ سے امداد کی اپیل کرنا پڑ ی،جنوبی پنجاب میں سیلاب کے سبب لاکھوں روپے کی املاک اور فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔سینکڑوں رہائشی علاقے زیر آب آکر ویران ہوچکے ہیں، پانی میں ڈوبے ہوئے ہزاروں انسان اور مکان طوفانِ نوح کا منظر پیش کر رہے ہیں۔متعدد افراد لاپتہ ہیں،جن کا کوئی سراغ نہیں مل سکا جس کا نتیجہ ہے کہ آج ملکی سیاست میں بڑھتی ہوئی پولرائزیشن نے عام آدمی کو سیاست اور سیاسی جماعتوں سے بددل کرنا شروع کر دیا ہے۔ بجلی، گیس، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں آئے روز اضافے نے عام آدمی کی قوتِ خرید کیساتھ ساتھ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی پر احتجاج کرنے کی ہمت بھی چھین لی ہے جبکہ ہمارا پورا میڈیاشہباز گل کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی (جوہوئی بھی ہے یا نہیں) یا خان صاحب اور ان کے نو رتنوں کی متوقع گرفتاری،نا اہلی اور مقدمات کی خبروں سے بھرا پڑا ہے مگر سیلاب زدگان کے ساتھ پورے پاکستان میں جو استحصال ہو رہا ہے، اس پر وہ توجہ مرکوز نہیں کی جارہی جس سے کسی زندہ معاشرے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ٹی آر پی کے چکر میں سب ایک سے بڑھ کر ایک نئی درفنطنی سامنے لانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تحریکِ انصاف سمیت ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے متاثرینِ سیلاب کے لئے یکسو ہو جانا چاہئے تھا مگر حالت یہ ہے کہ ابھی تک اپنی سیاسی جماعت کو ملک کی سب سے بڑی جماعت قرار دینے والے خان صاحب کےمنہ سے سیلاب زدگان کے لئے ایک لفظ تک نہیں نکلا۔

ہمارے ایک اور سیاستدان فرماتے ہیں کہ ہماری صوبائی حکومتوں نے عوام کو مایوس کیا،25کلو میٹر پر حکومت کرنے والے بدمعاشبنے بیٹھے ہیں،دس ستمبر تک حکومت کا تختہ الٹ جائے گا۔ اللّٰہ بھلا کرے بلاول بھٹو زرداری کا جو چار ملکی دورے کو ملتوی کر کے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں خود شامل ہونے پہنچ گئے ہیں،کوئی دن نہیں جاتا جب وہ سیلاب سے متاثرہ کسی نہ کسی علاقے میں نہ پہنچے ہوئے ہوں،دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بھی اب سیاسی منافقت سے ہٹ کر بلاول کے نقشِ قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔ہمت اور دل بڑا کریں۔پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیش نظر ملک میں ایمر جنسی لگانے کا اعلان کر یں اور تمام توجہ اس قدرتی آفت کا شکار افراد اور علاقوں کی بحالی پر مبذول کریں۔سیاست اور کرسی کی لڑائی کے لئے بہت وقت پڑا ہے۔اس وقت سیلاب میں ڈوبے اپنے بہن بھائیوں کی مدد کے لئے آگے بڑھیں گے تو اقتدار آپ کے پاؤں کی دھول بن کر رہ جائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)۔