یوکرینی علاقے روس میں ضم ہونے کا ریفرنڈم، تنازع نئے مرحلے میں داخل

September 25, 2022

کراچی (نیوز ڈیسک) روس میں ضم ہونے کیلئے یوکرین کے چار علاقوں میں ریفرنڈم امریکا اور یورپ کی شدید مخالفت اور روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے وعدوں کے ساتھ شروع ہوگیا۔ چائنیز میڈیا میں شائع ہونے والی تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس ریفرنڈم کی وجہ سے روس اور یوکرین کے درمیان تنازع نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گا کیونکہ اب مغربی ممالک کو گیس کی فراہمی کا معاملہ پہلے سے زیادہ جارحانہ انداز سے استعمال کر سکتا ہے جبکہ یورپ کا امریکا کا اتحادی بنے رہنے کی صورت میں تلخ نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریفرنڈم کا پہلا دن انتہائی پرسکون رہا جبکہ تمام پولنگ اسٹیشنوں پر سیکورٹی کے انتظامات سخت ترین کیے گئے ہیں تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔ روسی میڈیا کی رپورٹ میں صدارتی محل کے ترمان دیمیتری پیسکوف کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ڈونباس اور یوکرین کے چنگل سے آزاد کرائے گئے دیگر علاقوں کے لوگوں نے اگر روس میں ضم ہونے کے حق میں فیصلہ کیا تو ان علاقوں کو روس میں ضم کرنے کا عمل تیزی سے مکمل کیا جائے گا۔ روسی صدر نے جمعہ کو اپنے ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ان علاقوں کے عوام کا فیصلہ تسلیم کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ ڈونتیسک اور لوہانسک یوکرین کے دو مشرقی علاقے ہیں جنہوں نے "آزادی" کا اعلان کیا ہے، جبکہ خیرسن اور زاپوراتزیا نامی انتظامی ریجن نے بھی منگل کو اعلان کیا تھا کہ وہ روس میں شامل ہونے کیلئے 23؍ سے 27 ستمبر تک ریفرنڈم کرائیں گے۔ ریفرنڈم کی خبر نشر ہوتے ہی امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اس اقدام کی مذمت کی اور اعلان کیا کہ نتائج کو تسلیم نہیں کیا جائے گا جبکہ جی سیون ممالک کے وزرائے خارجہ نے روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ ایسٹ چائنا نارمل یونیورسٹی میں سنٹر فار رشین اسٹڈیز کے اسسٹنٹ ریسرچر چیوئی ہینگ نے کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کے ساتھ ہی روس یوکرین تنازع موجودہ سطح کی پراکسی لڑائی کے مقابلے میں زیادہ بڑھ کر اصل میں روس اور مغرب کے درمیان تنازع بن سکتا ہے تاہم اس تنازع کی شدت کم رہے گی۔ چیوئی کا کہنا تھا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ روس اور مغرب کے درمیان لفظوں کی جنگ شدت اختیار کر جائے گی، بظاہر امریکا اور مغرب نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو سیاست زدہ اور اپنا آلہ کار بنا رکھا ہے اور اب یہ ادارہ تنازعات کے حل کیلئے پلیٹ فارم کی بجائے ایک ملک کیلئے دوسرے ملک کے ساتھ نمٹنے کا آلہ بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی بات دوسری جنگ عظیم کے بعد کے بین الاقوامی نظام کو کمزور کر رہی ہے ہے اور اسی وجہ سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور عالمی ادارے کے اختیارات کو نقصان ہو رہا ہے۔