اس ملک میں کاروباری طبقے کا کیا ہوگا؟

September 25, 2022

حیران کن اور افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والی تمام غیر ملکی آٹو موبائل کمپنیاں پاکستان میں مینوفیکچرنگ کے نام پر اسمبلنگ پلانٹ لگا کر عوام کو مہنگی ترین گاڑیاں فروخت کررہی ہیں یہ کمپنیاں پہلے آٹو پارٹس کے نام پر کروڑوں ڈالر بینکوں کے ذریعے اپنے ملک بھجواتی ہیں اور پھر غیر معیاری گاڑیاں اسمبل کرکے پاکستان کے غریب عوام کو مہنگے داموں فروخت کرکے تمام منافع بھی ڈالروں کی شکل میں اپنے اپنے ملک روانہ کردیتی ہیں ، ان غیر ملکی کمپنیوں پر حکومت کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے ، ایسی بھی افواہیں ہیں کہ یہ کمپنیاں حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو بھاری رقوم بھی ادا کرتی ہیں جس سے یہ ہر طرح کے مسئلوں سے بچی رہتی ہیں ، یہاں اپنے سادہ لوح عوام کے لیے کچھ آٹو موبائل کمپنیوں کا پاکستان اور بھارت سے موازنہ پیش کیاہے تاکہ عوام سمجھ سکیں کہ ایک ہی کمپنی ایک ہی گاڑی بھارت میں کیوں اتنی کم قیمت میں فروخت کر تی ہے جبکہ وہی گاڑی پاکستان میں پانچ گنا زیادہ قیمت میں فروخت کرتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ، جی ہاں پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والی ایک مشہور غیر ملکی آٹو موبائل کمپنی جو بھارت میں بھی گاڑیاں تیار کرکے فروخت کرتی ہے وہ ایک ہی برانڈ کی چھ سو ساٹھ سی سی کی گاڑ ی بھارت میں صرف چار لاکھ روپے میں فروخت کررہی ہے اوروہی گاڑی پاکستان میں پچیس لاکھ روپے میں عوام کو فروخت کی جارہی ہے ، یہ کمپنی پاکستان میں چالیس سال سے زائد عرصے سے گاڑیاں تیار کررہی ہے اور پاکستان سے ہونے والے معاہدے کے تحت اس کمپنی کو اپنے آغاز کے اگلے سات سال میں سو فیصد گاڑی کو مع پارٹس پاکستان میں تیار کرنا تھا لیکن چالیس سال گزرنے کے باوجود یہ کمپنی صرف پچاس فیصد پارٹس ہی پاکستان میں تیار کررہی ہے جب کہ پچاس فیصد پارٹس باہر سے ڈالر وں میں منگوا کر پاکستان کو زرمبادلہ کے شعبے میں بھاری نقصان پہنچا رہی ہے ۔دوسری جانب یہی کمپنی بھارت میں اپنے معاہدے کے مطابق اپنی گاڑیوں کے سو فیصد پارٹس بھارت میں ہی تیار کررہی ہے جس سے بھارت میں سینکڑوں چھوٹی بڑی فیکٹریاں قائم ہوچکی ہیں جہاں ہزاروں لوگوں کو روزگار میسر آرہا ہے جب کہ بھارتی عوام کو کم قیمت گاڑیاں مل رہی ہیں ۔ پاکستان میں سو فیصد گاڑی تیار نہ کرنا ، نہ صرف سرمایہ کاری کی شرائط کی سخت خلاف ورزی ہے بلکہ اسی وجہ سے پاکستان میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر نہیں ہو پارہی اور عوام کو روزگار کے مواقع بھی نہیں مل رہے ۔ یہ تو چھ سو ساٹھ سی سی کی گاڑی کی چھوٹی سی مثال ہے ،ہزار سی سی سے تین ہزار سی سی کی گاڑیوں کا موازنہ کیا جائے تو چشم کشا اور تکلیف دہ حقائق سامنے آئیں گے، حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے معاشی منصوبہ ساز اتنے نااہل ہیں کہ پاکستانی عوام کی قسمت پر افسوس ہوتا ہے ۔ معاشی پالیسیاں جو ترقی یافتہ ممالک میں کئی سال کے لیے بنائی جاتی ہیں کیونکہ وہاں کی حکومتوں کو احساس ہوتا ہے کہ اچانک پالیسیاں تبدیل کرنے سے ان کے سرمایہ کاروں کا نقصان نہ ہو جائے، جاپان میں صرف سیلز ٹیکس کو پہلے پانچ فیصد سے بڑھا کر آٹھ فیصد کرنے میں پانچ سال لگ گئے جبکہ آٹھ فیصد سے دس فیصد کرنے میں تین سال لگ گئے اس عرصے میں صنعت کاروں اور کاروباری برادری کو موقع دیا گیا کہ وہ نئی پالیسی سے نبرد آزما ہو سکیں، جبکہ پاکستان میں رات بارہ بجے پالیسی تبدیل کرکے اگلی صبح اس پر عمل درآمد شروع کردیا جاتا ہے۔ اس وقت بھی کھربوں روپے کی ڈھائی ہزار گاڑیاں کراچی پورٹ پر کھڑی زنگ آلود ہورہی ہیں کیونکہ دو ماہ پہلے خرید کرمنگوائی جانے والی یہ گاڑیاں جس ڈیوٹی کو مد نظر رکھ کر منگوائی گئی تھیں ان ڈیوٹیوں میں حکومت نے گاڑیاں کراچی پہنچنے سے صرف ایک دن پہلے دس لاکھ سے لیکر پچاس لاکھ روپے کا اضافہ کرکے اگلے دن سے نئی ڈیوٹیوں پر عمل درآمد بھی شروع کردیا تھا، جس سے دو ماہ پہلے خریداری کرنے والے سرمایہ کار لا علم تھے ، یعنی جو گاڑی تیس لاکھ روپے کی بیچی جاچکی تھی اب وہ گاڑی ڈیوٹی ادا کرکے پچاس لاکھ روپے کی پڑ رہی تھی ،لہٰذا تاجر اگر کلیئر کرائے گا تواسے بیس لاکھ روپے کا نقصان ہوگا نہیں کرائے گا تو تیس لاکھ روپے کا نقصان ہوگا ،حکومتی بابوئوں نے ایسی ہی پالیسیاں ہر شعبے میں بنا رکھی ہیں، جس سے ہر روز ہزاروں تاجر قلاش ہوتے جارہے ہیں نہ جانے اس ملک میں کاروبار ی طبقے کا کیا ہوگا؟