اقوامِ متحدہ کا اجلاس اور شنگھائی فورم

October 02, 2022

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے77ویں سالانہ اجلاس میں توقّع کے عین مطابق تین اہم معاملات پر توجّہ مرکوز رہی۔ یوکرین جنگ، عالمی منہگائی کے اثرات اور موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریاں۔ یوکرین جنگ پر تمام عالمی رہنماؤں نے شدید تشویش اور پریشانی کا اظہار کیا۔ واضح رہے کہ اِس اجلاس میں دو اہم عالمی رہنماؤں صدر شی جن پنگ اور صدر پیوٹن نے شرکت نہیں کی۔یوکرین پر روسی حملے نے دنیا کو اُسی طرح ہلا کر رکھ دیا ہے، جیسے چند برس قبل کورونا وبا نے تہہ و بالا کیا تھا۔ یہ جنگ جہاں یوکرین کی تباہی اور شہریوں کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہے، وہیں اس کی وجہ سے دنیا خوراک اور تیل کے بحران کی زَد میں بھی ہے۔

دراصل، اس جنگ کے فوجی اثرات دنیا کے لیے اِس قدر تشویش کا باعث نہیں، جتنے معاشی اثرات پریشان کُن ہیں۔اِس جنگ کی وجہ سے منہگائی کا ایک ایسا طوفان آیا ہے کہ چھوٹے اور غریب ممالک کو اپنی بقا کی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے، جب کہ بڑی اور طاقت وَر معیشتیں بھی اس کے اثرات سے لرز رہی ہیں۔ چین جیسی عالمی طاقت بھی، جس کی ترقّی کی مثالیں دی جاتی ہیں، اس صورتِ حال پر سر تھامے بیٹھی ہے۔ خود روس کی حالت بھی بہت بُری ہے۔اُس کے زرِ مبادلہ کے محفوظ ذخائر پر شدید دبائو ہے۔اگر اُسے چین کا سہارا میّسر نہ ہو، تو صُورتِ حال مزید سنگین ہوسکتی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ اب روس سے تعلقات کی بنیاد پر دنیا سے لڑائی مول لینا سیاسی اور عالمی طور پر قطعاً مناسب حکمتِ عملی نہیں۔ صدر پیوٹن کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بہت سوچ سمجھ کر قدم اُٹھاتے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ یوکرین پر حملے سے قبل جنگ کے اثرات کا درست اندازہ نہیں لگا پائے یا وہ صرف مغرب اور یورپ کو سزا دینا چاہتے ہیں؟ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر پیوٹن، روس کی کھوئی طاقت کی بحالی کے لیے ایسے اقدامات کر رہے ہیں۔تاہم،شاید وہ اِس امر پر غور نہیں کرپا رہے کہ اُن کے اس طرح کے اقدامات کی وجہ سے دنیا کو منہگائی کے جس عفریت نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اُس سے اُن کا عالمی سطح پر کیا امیج بن رہا ہے۔

کل تک ہر طرف امریکا کے حملہ آور اور جارح ہونے کا چرچا تھا، آج یہ لقب روس کو مل چُکا ہے۔ منہگائی کے سبب فضائی سفر ایک خواب بنتا جارہا ہے کہ جو ٹکٹس چند سو ڈالرز میں ملتے تھے، اب ان کی قیمت ہزاروں ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔ منہگائی کی ایک مثال پاکستان بھی ہے، جہاں پیٹرول، ڈیزل، گیس، بجلی اور خوراک کی ہوش رُبا قیمتوں نے لوگوں کی زندگیاں عذاب کر دی ہیں۔اگر اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں یوکرین کی جنگ اور منہگائی کی باتیں ہر لیڈر کی تقریر میں نمایاں رہیں، تو یہ عین حالات کی عکّاسی ہے، کیوں کہ انہی رہنماؤں کو اپنے مُلک سنبھالنے ہیں، الہ دین کے چراغ کا جن اُن کی مدد کو آئے گا اور نہ ہی کوئی چُھومنتر کام کرسکتا ہے۔

اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ معیشت کی بحالی ایک مسلسل، تکلیف دہ، وقت طلب اور پیچیدہ عمل ہے۔ پاکستان میں ایک طرف منہگائی ستم ڈھا رہی ہے، تو دوسری طرف سیلاب نے ایک بڑے علاقے میں قیامت ڈھا دی۔ میڈیا سیلاب کے اندوہ ناک مناظر دِکھا رہا ہے،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ متاثرین کی بحالی کسی امتحان سے کم نہیں اور حکومت یہ معرکہ اکیلے نہیں لڑ پائے گی۔ اُسے متاثرین کو دربارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے قوم کی حمایت کے ساتھ عالمی برادری کی فراخ دلانہ مدد بھی درکار ہوگی۔وزیرِ اعظم، شہباز شریف کے اقوامِ متحدہ سے خطاب اور عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں سیلاب کی تباہ کاریاں ہی گفتگو کا مرکز رہیں۔

حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اِس اجلاس سے قبل خود پاکستان کا دَورہ کر کے سیلاب کی تباہ کاریوں کا آنکھوں دیکھا حال دنیا کو سُناچکے ہیں۔ اُنہوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ دنیا، پاکستان کے قرضے معاف کردے تاکہ وہ یہ رقم سیلاب متاثرین پر خرچ کرسکے۔ امریکا نے بھی پاکستان کی فوری اور بھرپور امداد پر زور دیا۔ اِس دوران آرمی چیف نے چین کا دورہ کیا،یقیناً اُن کی ملاقاتوں کا محور بھی یہی موضوع ہوگا کہ چین ہر مشکل وقت میں ہمارے کام آتا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل شنگھائی فورم کا اجلاس ہوا،جو پاکستان کے لیے اِس لیے بھی اہم تھا کہ اُس کا موضوع ہی موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریاں تھا،جن کا اِن دنوں پاکستان نشانہ بنا ہوا ہے۔ اجلاس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کُن اثرات پر سیر حاصل بحث کے ساتھ متاثرہ ممالک کے لیے امداد کی اپیلز اور وعدے بھی کیے گئے۔ یقیناً پاکستان ایسے ممالک میں سرِ فہرست ہے،جن کی عالمی برادری کی جانب سے مدد کے اعلانات ہوئے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ وہ اقوامِ متحدہ سمیت ہرفورم پر پاکستان کا مقدمہ لڑیں گے۔

گویا یہ سیلاب کی تباہ کاری اور اُس کے سدّ ِ باب کے لیے بات کرنے کا اعلان تھا۔یہ اعلان اِس لیے بھی حوصلہ افزا بات ہے کہ اِس مرتبہ ہمارے سربراہِ حکومت نے قوم کا مقدمہ پیش کرنے کی نوید سُنائی، وگر نہ اس سے قبل ہمارے وزرائے اعظم یا صدور اقوامِ متحدہ سے خطاب میں پاکستان کو چھوڑ کر دنیا بھر کے مسائل پر بات کرتے تھے۔اِس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ عالمِ اسلام کے مسائل اور تنازعات ہمارے لیے بہت اہم ہیں،ہمیں شام، عراق اور لیبیا کے مسائل پر اپنا مؤقف بیان کرنا چاہیے، لیکن پاکستان بہرحال سب پر مقدّم ہے۔

نیز، ہمیں اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ ہم کسی بھی مُلک کی مدد صرف اُسی وقت کرسکیں گے، جب پاکستان خود مضبوط ہوگا۔ اِسی لیے ہمارے حکومتی سربراہان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ اور دوسرے عالمی فورمز پر اپنی قوم کا مقدمہ لڑیں، عالمی برادری کے سامنے اپنی مشکلات اور کام یابیاں پیش کریں تاکہ دنیا کو احساس ہو کہ پاکستان ایک اہم مُلک ہے۔

شنگھائی فورم کا اجلاس اِس مرتبہ ازبکستان میں ہوا، جو وسط ایشیا کا ایک اہم مُلک اور ہمارا قریبی دوست ہے۔اجلاس میں چین، روس، بھارت، پاکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے سربراہ شریک ہوئے۔ ایران ایک عرصے سے شنگھائی فورم کا رکن بننے کے لیے کوشاں تھا، اِس بار اُسے کام یابی ہوئی اور صدر رئیسی نے نویں رکن مُلک کے سربراہ کی حیثیت سے فورم میں ایران کی نمائندگی کی۔ شنگھائی فورم علاقائی ممالک کی تنظیم ہے،جس کا مقصد باہمی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اِس اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم موجود تھے، لیکن اُن کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔

شنگھائی فورم میں چین، روس اور بھارت جیسے بڑے ممالک کی موجودگی نے اسے ایک نمایاں عالمی مقام دے دیا ہے۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ فورم آگے چل کے نیٹو کا مدّمقابل ہوسکتا ہے، لیکن فی الحال اس کا مقصد علاقائی اور اردگرد کے ممالک کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ اسے وہ ترقّیاتی بنیاد فراہم کرتا ہے، جو کسی بھی ایسے فورم کے لیے ضروری ہے اور چین کے اِس ترقّیاتی منصوبے کے اثرات علاقے کے ہر مُلک میں دیکھنے کو ملیں گے۔

سی پیک دنیا میں چین کی کسی بھی مُلک میں سب سے بڑی ترقّیاتی سرمایہ کاری ہے۔ یہ رقم ساٹھ ارب ڈالر کے قریب ہے، جو اب فیز ٹو میں داخل ہوچکی ہے۔چین چاہتا ہے کہ وہ بڑی طاقت اور ایک امیر مُلک ہونے کے ناتے نہ صرف خود ترقّی کرے بلکہ دوسرے علاقائی ممالک بھی اس کی ترقّی سے مستفید ہوں۔یاد رہے، بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ہو یا سی پیک، یہ امدادی منصوبے نہیں ہیں۔اِن میں چینی بینک سرمایہ فراہم کررہے ہیں اور چینی کمپنیز ٹیکنالوجی وغیرہ میں معاونت کر رہی ہیں، جب کہ زمین اور دیگر انسانی وسائل میزبان مُلک فراہم کرہا ہے۔

شنگھائی فورم کے حالیہ اجلاس کا موضوع موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات تھے،جو پاکستان کے لحاظ سے ایک بڑا اور بروقت اقدام تھا۔ اسی لیے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے نہ صرف فورم کے پلیٹ فارم سے اپنے مُلک کی تباہ کُن سیلابی صُورتِ حال، متاثرین کی بحالی اور ضروریات پر کھل کر بات کی،بلکہ مستقبل میں سیلابوں کی روک تھام کے منصوبے بھی پیش کیے۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ فورم میں شامل ہر مُلک نے مشکل کی اِس گھڑی میں پاکستان کی بھرپور معاونت کی یقین دہانی کروائی اور اُس پر عمل بھی کیا۔شہباز شریف کو فورم میں بڑی طاقتوں کے دونوں اہم سربراہان سے وَن ٹو ون ملاقات کا موقع ملا۔

چین سے تو ہمارے تعلقات پہلے ہی بہت اچھے ہیں،جب کہ روس کے صدر سے بھی اُن کی ملاقات خاصی خوش گوار دکھائی دی۔اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس کے لیے اِس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ ہماری اندرونی سیاست کیا ہے، کون کیا کہتا ہے۔ وہ ہر تسلیم شدہ حکومت کے ساتھ بات کے لیے تیار ہے۔ روس، یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد دنیا بھر کو تیس فی صد کم قیمت پر تیل فراہمی کی آفر کرچکا ہے، اب جو مغربی اور یورپی پابندیوں کے اثرات کا مقابلہ کرسکتا ہو، وہ یہ تیل خرید سکتا ہے، لیکن یاد رہے کہ پاکستان کو پہلے ہی تین سال کی مؤخر قیمتوں پر سعودی عرب سے تیل مل رہا ہے، تو پھر ہمیں روس سے نقد ڈالر دے کر تیل خریدنے کی کیا ضرورت ہے۔

بہت سے ماہرین کا خیال تھا کہ شنگھائی فورم پر پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات کا کوئی راستہ ضرور نکلنا چاہیے تھا،خواہ ہلکی پُھلکی ملاقات ہی کیوں نہ ہوتی۔ تاہم، لگتا ہے، پاکستان کی اندرونی سیاست میں چوں کہ’’ غدّار غدّار‘‘ کے نعروں کا بہت شور ہے، ایسے میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات مناسب نہیں سمجھی گئی۔ پھر یہ کہ بھارت کے ہر انتخاب میں پاکستان ایشو رہا ہے اور وہاں اگلے سال عام انتخابات ہو رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ ہو یا دوسرے عالمی فورمز ہمارے کئی ماہرین لاپروائی سے کہہ دیتے ہیں کہ’’ ان اداروں کا کیا فائدہ، اُنہوں نے فلاں فلاں مسائل تو حل ہی نہیں کیے۔‘‘ تاہم، اُنھیں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ایسے عالمی فورمز جدید دَور میں کیوں ضروری ہیں۔ یہی ادارے وہ پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں، جن سے ایک دوسرے کی مدد کی جاتی ہے۔