• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں ملکۂ برطانیہ، الزبتھ دوم 96 برس کی عُمر میں انتقال کر گئیں۔انہوں نے برطانیہ پر 70برس تک حکم رانی کی، اس طرح وہ طویل ترین عرصے تک تاجِ برطانیہ اپنے پاس رکھنے کے اعزاز کی بھی حامل رہیں۔ ملکہ الزبتھ ثانی کے انتقال کے بعد تاجِ برطانیہ اُن کے ولی عہد، بڑے بیٹے، پرنس آف ویلز، چارلس کو منتقل ہوگیا اور وہ برطانیہ کے بادشاہ اور دولتِ مشترکہ میں شامل 14 ممالک کے سربراہ بن گئے ہیں۔ اس موقعے پر برطانیہ کی وزیرِ اعظم، لز ٹرس نے اعلان کیا ہے کہ وہ ’’شاہ چارلس سوم‘‘ کے نام سے جانے جائیں گے۔

اگر یہ کہا جائے کہ کسی حکم ران نے صحیح معنوں میں دنیا کو بدلتے دیکھا ہے، تو وہ ملکہ الزبتھ دوم تھیں کہ انہوں نے 1952 ءکے پُر آشوب دَور میں حکم رانی سنبھالی اور دوسرے ملینیئم کے بائیسویں سال وفات پائی۔ اس دوران انہوں نے بہت کچھ دیکھا، جیسے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے اثرات، سرد جنگ کا آغاز و اختتام، رُوس کا سوویت یونین بننا، پھر دوبارہ رُوس میں ڈھلنا وغیرہ۔ اسی طرح یورپ کو ٹوٹتے، متّحد ہوتے اور پھر بریگزٹ ہوتے بھی دیکھا۔

لیکن ملکہ کے لیے سب سے تکلیف دہ عمل برطانیہ عظمیٰ کا، جس کی حاکمیت پانچ برّاعظموں پر پھیلی ہوئی تھی،بکھرنا تھا کہ اتنی وسیع حاکمیت ایک چھوٹے سے جزیرے میں سمٹ گئی۔ برطانیہ ایک ایک کر کے اپنی کالونیز آزاد کرتا گیا۔ملکہ کے دَور میں برطانیہ میں کُل 15 وزرائے اعظم نے عنانِ اقتدار سنبھالی، جن میں سب سے پہلے وزیراعظم دوسری عالمی جنگ کے دَور کے مشہور و معروف حکمران سر ونسٹن چرچل تھے۔ ملکہ الزبتھ دوم نے اپنے دَور میں دنیا کے اہم ترین حکمرانوں سے ملاقات کی، جن میںکئی صدور، بادشاہ اور وزرائے اعظم شامل ہیں۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران بذریعہ خطوط ملکہ کا رابطہ اپنے دُور پرے کے رشتے دار پرنس فِلپ سے ہوا، جو بالآخر1947 ء میں ویسٹ منسٹر میں ان کی شادی پر منتج ہوا۔ملکہ الزبتھ دوم، پرنس فِلپ سے اپنے 74 سالہ شادی کے بندھن کو اپنی مضبوطی اور طویل حکم رانی کی وجہ قرار دیتی تھیں۔یاد رہے، پرنس فِلپ شادی کے بعد ڈیوک آف ایڈنبرا کہلائے۔ ویسے سوچیں، تو کس قدر عجیب لگتا ہے کہ ’’جمہوریت کی ماں‘‘ کہلائے جانے والے برطانیہ میں ایک طویل عرصے سے بادشاہت قائم ہے، مگر جس بڑی تعداد میں لوگ اپنی ملکہ کے آخری دیدار، انہیں الوداع کہنے کے لیے سڑکوں پر، ہاتھوں میں گُل دستے تھامے گھنٹوں کھڑے رہے، وہ الزبتھ دوم کی مُلک میں مقبولیت ہی کی دلیل ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ثابت ہوگیاکہ تمام جمہوری روایات اور اقدار کی پاس داری کے باوجود برطانیہ کے لوگ آج بھی بادشاہت کو اپنی قومی یک جہتی کی علامت سمجھتے ہیں، اسی لیے انہوں نے بلا توقف ملکہ کے بڑے بیٹے، چارلس کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیاہے۔ گویا برطانوی عوام شاہی تسلسل برقرار رکھنے کے حق میں ہیں۔ یہی نہیں، کامن ویلتھ کے 14 ممالک نے بھی خوش دلی سے پرنس چارلس کو بادشاہ قبول کیا۔

برطانوی جمہوریت کی ایک طویل ترین تاریخ ہے، کئی تجربات کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مُلک کی اصل طاقت عوام ہیں،اسی لیے مُلک کا اصل حکمران، یعنی وزیر اعظم، عوام کا منتخب کردہ نمایندہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں طاقت کا اصل منبع عوامی نمایندوں کے ایوان، ’’پارلیمنٹ‘‘ ہی کو سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں بہت کم لوگوں کو پتا ہوگا کہ برطانیہ کا کوئی تحریری آئین نہیں ہے کہ وہ روایات، قوانین اور تجربات کی بنیاد پر مُلک چلاتے ہیں، مگر مجال ہے کہ کوئی ان سے انحراف کرسکے، عوام النّاس سے لے کرسیاسی رہنماؤں تک ہر ایک قانون کی پاس داری کرتا ہے۔

سر وِنسٹن چرچل کی مثال سامنے ہے، چرچل دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ کے وزیر اعظم تھے۔درحقیقت ،یہ انہی کا عزم،فراست اور سفارتی تدبّر تھا، جس نے ہٹلر کے خلاف یورپ اور مغربی ممالک کو یک جا کرکے بالآخر جرمنی کو شکست دی۔ لیکن، دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد جب برطانیہ میں1947 ء میں انتخابات ہوئے، تو چرچل وہ انتخابات ہار گئے اور کلیمینٹ ایٹلی وزیرِاعظم بنے۔ واضح رہے، یہی وہ زمانہ تھا، جب تقسیمِ ہند ہو رہی تھی، تو کیا اس وجہ سے چرچل انتخابات ہارے، برطانوی عوام میں غیر مقبول ہوئے،اُن پر الزامات لگائے گئے، اُن کے خلاف تحریک چلائی گئی، سازش کی گئی؟ تو ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ 

درحقیقت برطانیہ کے عوام کا خیال تھا کہ جنگ کے لیے تو چرچل ایک بہترین لیڈر ہوسکتے ہیں، لیکن اب وقت معاشی اور معاشرتی بحالی کا ہے، اس لیے اُنہیں ایک ایسے لیڈر کی ضرورت تھی، جو مُلک کو معاشی طور پر مستحکم کرسکے۔ چرچل الیکشن ہار گئے اور خاموشی سے اپوزیشن کی بینچز پر جابیٹھے۔ ذرا سوچیں کہ نہ صرف برطانیہ، بلکہ پورے مغرب کو دوسری عالم گیر جنگ میں فتح یاب کروانے والے لیڈر کے پاس کیا یہ آپشن نہیں ہوگا کہ وہ اپنی کام یابی کے بل پر لوگوں کو جذباتی کرتا، ہزاروں افراد کے ساتھ سڑکوں پر نکل آتا اور ہر طرح سے اقتدار میں آنے کی کوشش کرتا، لیکن چرچل نے ان میں سے کوئی بھی طریقہ اختیار نہیں کیا۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اگلے انتخابات میں وہ کام یاب بھی ہوئے، برطانیہ کے وزیر اعظم بھی بنے اور ’’سر‘‘ کا خطاب بھی پایا۔آج تک چرچل کو نہ صرف برطانیہ، بلکہ پوری مغربی دنیا میں ایک عظیم لیڈر اور فاتح کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

برطانیہ میں بادشاہت کے باوجود ان کا جمہوری نظام اس قدر مضبوط اس لیے ہے کہ وہاں کا بچّہ بچّہ قانون اور آئین پر عمل کرتا ہے۔ برطانیہ کی حکمرانی کے تین بنیادی عنصر ہیں۔ جمہوریت، جس میں پارلیمان شامل ہے اور وہی حکم رانی کی اصل مالک ہے، بادشاہت، جو قومی روایات اوریک جہتی کا تسلسل ہے اور چرچ، جو مذہبی معاملات کی نگہبانی کرتا ہے۔ آرچ بشپ آف کنٹربری اس کے پوپ ہیں۔برطانیہ کی کام یابی کا راز ہی یہ ہے کہ تینوں ادارے اپنے اپنے دائرۂ کار سے بخوبی واقف ہیں اور کسی بھی صورت اس سےتجاوز نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو کوئی مذہب کارڈ کھیلتا ہے، نہ بادشاہت کے باوجود عوام کو غلام سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی پارلیمان کاتقدّس پامال کرتا ہے۔ 

اس کے برعکس اب ذرا اپنے مُلک کا حال دیکھ لیں، جہاں ہر ادارہ دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی کرتا دکھائی دیتاہے۔ کبھی کبھار تو حکومتیں بھی بے بس نظر آتی ہیں، پتا ہی نہیں چلتا کہ کون حکمرانی کر رہاہے،کس کی سنی جاتی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن ہے، جو جلسے جلوس کرکے، عوام کی آڑ میں آئین اور قانون کو کسی خاطر میں نہیں لاتی۔ لیکن ان تمام معاملات میں نقصان صرف اور صرف عوام کا ہوتا ہے۔ کوئی یہ سوچنے والاہی نہیں کہ یہ مُلک اداروں کا نہیں، عوام کا ہے۔ کوئی ادارہ کتنا ہی طاقت وَر یا محترم کیوں نہ ہو، ہمیشہ آئین و قانون کے تابع ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے مُلک میں انتخابات مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔

آئین کی شقوں کے نام پر مہینوں مباحثے جاری رہتے ہیں، جب کہ حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا۔ ویسے تو ہمارے یہاں بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ ہم ایک جمہوری مُلک ہیں، لیکن ذرا گریبان میں جھانک کر تو دیکھیں اور خود سے سوال کریں کہ ’’کیا ایسے ہوتے ہیں جمہوری ممالک؟‘‘برطانیہ میں جمہوریت بھی ہے اور بادشاہت بھی، مگر مجال ہے کہ کوئی عوام کے حقوق سلب کر سکے۔ اور اب ہمارے عوام کو بھی کچھ ہوش کے ناخن لے ہی لینے چاہئیں کہ یہ کبھی کسی کے پیچھے چل پڑتے ہیں، تو کبھی کسی کے،جو گرج دار آواز میں نعرے لگائے، اسی کی دُھن پر ناچنے لگتے ہیں۔ ہمارے عوام کو آج تک صحیح، غلط، سچ، جھوٹ میں تمیز کرنی نہیں آئی۔ 

ہمارے یہاں شخصی سیاست، شخصیت پرستی کی ایک انتہائی بُری روایت ہے، ذرا سوچیں کہ کیا ملکۂ برطانیہ کے بعد برطانیہ کے حالات یا عوام پر کوئی فرق پڑے گا؟ ہر گز نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی جمہوریت مضبوط ہے، چند ہفتے قبل ہی ایک وزیراعظم اپنے پارٹی ارکان کے ’’ووٹ آف نو کانفیڈینس‘‘ سے رخصت ہوا اور دوسری وزیر ِاعظم نےقلم دان سنبھال لیا۔یاد رہے، سابق برطانوی وزیر اعظم، بور جانسن کو ایک معمولی اخلاقی اصول توڑنے پر اپنے ہی پارٹی ارکان کی بغاوت کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑا تھا،حالاں کہ عدم اعتماد کی تحریک میں وہ بھاری اکثریت سے کام یاب ہوئے تھے اور ان کے خلاف ایک سال تک ایسی کسی تحریک کا کوئی خطرہ بھی نہیں تھا، لیکن مہذّب ممالک میں اصولوں کو ’’یوٹرن‘‘ کے نام پر روندا نہیں جاتا۔

لزٹرس بھی ایک منجھی ہوئی، سیاست دان ہیں، جو اس عُہدے سے قبل وزیرِ خارجہ تھیں۔برطانیہ کو اس وقت جن دو بڑے مسائل کا سامنا ہے، وہ منہگائی اور بعد از بریگزٹ اثرات ہیں۔ منہگائی کا معاملہ عالمی گرانی سے جڑا ہواہے، جس میں روس،یوکرین جنگ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ تیل اور اجناس کی قیمتوں نے برطانوی عوام کے اوسان خطا کر رکھے ہیں۔ دوسری طرف بریگزٹ کا عمل بھی ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔ یورپ سے آنے والے تیس لا کھ تارکین ایک دن میں تو واپس نہیں جاسکتے اور نہ ہی ان کے جانے کے بعد فوری طور پر ان کا خلا پُرکیا جاسکے گا۔ شاید عوام سابق وزیرِاعظم، بورس جانسن کے ان اقدامات سے مطمئن نہیں تھے،اسی لیے وہ عوام میں روز بہ روز غیرمقبول ہوتے گئے۔

ویسے بھی دنیا بھر میں اب وہی حکمران مقبول ہوتے ہیں، جو معیشت کنٹرول رکھتے ہیں کہ اب قرض مانگنے یا اپنی نااہلی کا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈالنے کا رواج نہیں۔ اصول یہ ہے کہ کام کرو،ورنہ گھر جاؤ۔ یہی وجہ ہے کہ اب لزٹرس کے لیے معیشت، منہگائی اور بریگزٹ سے نمٹنا بڑا چیلنج ہوگا۔البتہ، جہاں تک بات ہے، ملکہ کے انتقال سے پیدا ہونے والے خلا کی ، توجمہوریت کا تسلسل برقرار ہے، عوام میں کوئی ہیجان نہیں۔ مُلک بھرمیں سوگ کاسماں تو ہے، لیکن انتشار کی سی کیفیت نہیں۔ہمیں بھی یہ سیکھنا چاہیے۔ سارا سال عوام کو سیاست میں اُلجھائے رکھنا،غیر ایشوز کو ایشوز بنانا بچگانہ، ناپختہ سوچ کی عکّاسی کرتا ہے، مہذّب اقوام سوگ بھی مناتی ہیں ، لیکن وہاں کاروبارِ حیات تعطّل کا شکار نہیں ہوتا۔ 

ہمارے سیاست دانوں کو اب بالغ ہو جانا چاہیے۔آج آدھے سے زیادہ مُلک ڈوبا ہوا ہے، لوگ بے یارو مددگار، بے در سڑکوں پر پڑے ہیں۔ ان کے پاس کھانے کو کچھ ہے، نہ علاج معالجے کا کوئی انتظام۔ مائیں چھوٹے چھوٹے بچّوں کو گود میں لیے دہائیاں دے رہی ہیں۔ اقوامِ متّحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو پاکستان آئے، تو یہ مناظر دیکھ کر تڑپ اُٹھے۔ دوست ممالک کے طیارے امدادی سامان لے کر روز پاکستان آرہے ہیں۔ اس کے باوجود کچھ سیاست دانوں کو جلسوں، ریلیوں اور خود نمائی ہی سے فرصت نہیں۔ ان جلسوں میں شرکت کرنے والے ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ اُن کا جشن دیکھ کر بے گھر، بھوکے، بیمار سیلاب متاثرین پر کیا گزرتی ہوگی۔ یہ وقت تو ذاتی رنجشیں، اختلافات بھلا کر صرف اور صرف مُلک و قوم کے لیے کام کرنے کا ہے، مگر ہم اب بھی پارٹیوں میں بٹےہوئے ہیں۔

برطانیہ جیسے بڑے مُلک میں شاید کوئی آرمی چیف کانام تک نہ جانتا ہو۔ نہ کسی کی تعیّناتی جیسے نان ایشو پر رات دن بات کی جاتی ہے۔ عوام اپنی زندگی میں مگن، حکمران مُلک کو مزید ترقّی دینے میں کوشاں۔یہ نہیں کہ دنیا میں برطانیہ کی جمہوریت کے علاوہ کوئی نظام نہیں چل رہا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نظام کے ہوتے ہوئے بھی لندن سے ایسی غلطیاں ہوئیں، جن کا خمیازہ انہوں نے دوسری عالم گیر جنگ کے بعد سلطنت کے بکھرنے کی صورت بھگتا۔برطانیہ جس نظام کا داعی ہے، وہ جمہوریت ہے ۔ اس نظام میں عوام کی حاکمیت اور اس کے ساتھ گڈگورنینس کو فوقیت حاصل ہے۔

یاد رہے، ہم بارہا برطانیہ کی مثال اس لیے دے رہے ہیں کہ پاکستان بھی ویسٹ منسٹر کی طرز کی جمہوری حکمرانی کا دعوےدار ہے۔گوکہ ہم ہر گز یہ نہیں کہہ رہے کہ یہاں بھی بالکل اسی طرز کی حکومت قائم کی جائے، لیکن جمہوریت کے ’’رُولز آف گیمز‘‘ پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ ہمارے مُلک میں اہلِ دانش اور تجزیہ کاروں کا ایک روایتی طریقہ ہے کہ وہ جب کسی اصول پر بات کرتے ہیں اور اصول بھی ان کی پسندیدہ شخصیت یا پارٹی سے متعلق ہوں، تو وہ اس کی لاکھ غلطیوں، کوتاہیوں، غیر ذمّے داریوں کے باوجود اسے درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، جو جائز نہیں۔ ہمیں غلط کو غلط کہنا سیکھنا ہوگا۔ ماضی تاریخ ہے، اس سے سبق تو لیا جاسکتا ہے لیکن ہروقت اس کے ہیر پھیر میں رہ کر ملکی معاملات معطّل رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔پھر ہر وقت مُلک میں بحران کھڑا رکھنا، وہ بھی ایسے مُلک میں ،جس کے منفی انڈیکیٹر دنیا کے بدترین ممالک میں شمار ہوتے ہوں، حماقت نہیں ،خودکُشی کے مترادف ہے۔