آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی

September 27, 2022

موجودہ حکومت کا قیام بھی رسوائی کے ساتھ ہوا تھا اب جب حکومت اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے تو ایک بار پھر اسے رسوائی نے آن گھیرا ہے۔ سازشوں کے تحت بننے والی حکومت سازشوں کا شکار ہو کر رہ گئی ہے ۔مہنگائی مارچ کرنے والوں نے پہلے اپنے عوام کو مہنگائی سے لتاڑا، لوگوں کی زندگیوں میں زہر گھولا پھر امریکہ میں حکمرانوں کی عیاشیوں کے قصے سامنے، ابھی وہ قصے معدوم نہیں ہوئے تھے کہ آڈیو لیکس کا پنڈورا باکس کھل گیا، یہ ساراگورکھ دھندہ کیا ہے اس نے سب کچھ بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے اور اقتدار پر براجمان لوگوں کے گویا چہرے بے نقاب ہو کر رہ گئے ہیں۔ایک آڈیو لیک میں اپنے ایک رشتہ دار کو فائدہ پہنچانے کی باتیں ہو رہی ہیں، اسی آڈیو میں دشمن ملک بھارت سے مشینری منگوانے کا تذکرہ ہے پھر ایک ہائوسنگ سوسائٹی کی سہولت کاری کی بات ہے ۔اس آڈیو میں بتایا جا رہا ہے کہ اسحق ڈار نے جس طرح سابق وزیر اعظم کی گاڑی کلیئر کروائی تھی وہ اسی طرح اس مشینری کو بھی کلیئر کروالیں گے ، آخر میں چیئرمین نیب کے حوالے سے جسٹس (ر) مقبول باقر کی شخصیت پر شک کا اظہار بھی ہے ۔اس پہلی آڈیو سے دو تین باتوں کا کھلا اظہار ہوتاہے کہ کس طرح وزیراعظم اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ، حلف اٹھاتے وقت یہ بات کی جاتی ہے کہ بطور وزیراعظم وہ کسی ذاتی فائدے کے لئے کام نہیں کریں گے اور نہ ہی اپنے کسی رشتے دار کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں گے۔دوسری بات قومی سلامتی کے حوالے سے ہے کہ کس طرح دشمن ملک سے سامان منگوایا جا رہا ہے اور یہ سامان چوری منگوایا جا رہا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ مسٹر ڈار کس طرح پہلے قومی خزانے کا استعمال کرتے رہے ہیں اورکس طرح سابق وزیر اعظم اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے رہے ہیں ۔چوتھی بات میں تو حد ہی ہو گئی ہے کہ کس طرح پسند کا چیئرمین نیب ڈھونڈا جا رہا ہے یعنی وہ ایسا بندہ ہو جو حکمرانوں کا نامۂ اعمال سامنے آنے پر آنکھیں بند کر لے۔پہلی آڈیو سے مجموعی تاثر یہ ملتا ہے کہ عوامی خدمت کے دعوے دار صرف اپنی خدمت پر ساری توجہ مرکوز رکھتے ہیں ، ان کی عوامی محبت کے سب دعوے محض فسانے ہیں ۔

دوسری آڈیو میں پانچ وزراء اپنے وزیر اعظم کے ساتھ مل کر استعفوں کے حوالے سے سازش کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اس سے بھی چند سوال ابھرتے ہیں کہ کیا وزراء اور وزیر اعظم اپنے ملک کے لوگوں کا نہیں سوچتے، کیا وہ صرف اپنے مخالفین کے خلاف سازشی حکمت عملیاں بناتے ہیں، کیا یہ تمام گفتگو جمہوریت کی خدمت ہے؟یہ پوری گفتگو پارلیمینٹ کے خلاف سازش نہیں تو اور کیا ہے؟کیا یہ گفتگو سپیکر کے اختیارات پر سوالیہ نشان نہیں اور کیا یہ گفتگو چیف الیکشن کمشنر کی جانبداری کو بے نقاب نہیں کر رہی ؟کیا اس گفتگو سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک خودمختار آئینی ادارہ نہیں ۔اس آڈیو میں استعفوں کی منظوری کے حوالے سے ایک سزا یافتہ شخص کو فہرست بھیجنے کی بات بھی شامل ہے۔ آرمی چیف کے خلاف باتیں کرنے والا ایک شخص کہہ رہا ہے کہ ’’ہم یہ لسٹ لندن بھجوا دیں گے پھر وہاں سے لیڈر شپ کی منظوری سے فیصلہ ہو جائے گا‘‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور پاکستان کی پارلیمنٹ سے متعلق فیصلے باہر بیٹھا ہوا ایک سزا یافتہ شخص کر رہا ہے کیا یہ عمل درست ہے ؟ کیا پاکستان کی موجودہ حکومت فیصلے کرنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتی یا پھر وہ ایم کیو ایم کی طرز پر معاملات چلا رہی ہے۔

تیسری آڈیو میں کس طرح مفتاح اسماعیل کے بارے میں توہین کی گئی ہے حالانکہ وہ ان کی اپنی حکومت کے وزیر خزانہ ہونے کے ناطے مشکل فیصلے کر رہے تھے۔کس طرح ایک خاتون پٹرول کی قیمت بڑھانے کی بات کرکے ساتھ ہی نئے شوشے چھوڑنے کی باتیں کر رہی ہے ، کیا یہ کھلی منافقت نہیں؟ کس طرح ڈی جی آئی ایس پی آر کی باتوں کا مفہوم تبدیل کرنے کا تذکرہ ہو رہا ہے ، کیا یہ سارا طرزِ عمل درست ہے ؟

ایک چوتھی آڈیو بھی ہے اس آڈیو میں اخلاقیات کا درس دینے والے کس طرح وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی سے متعلق لاف وگزاف سے کام لے رہے ہیں ،کیا یہ عمل درست ہے ؟

متعدد مرتبہ عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان کا حکمران طبقہ نہ پاکستان کا سوچتا ہے اور نہ ہی اس نے کبھی وطن عزیز کے عوام کا سوچا ہے، کیا یہ سب کچھ لیڈر شپ کی دوعملی نہیں ؟کیا یہ وطن سے بے وفائی نہیں ؟کیا یہ جمہوریت اور جمہور کے خلاف گھنائونا کھیل نہیں ؟اسی لئے تو ہر طرف رسوائی ہی رسوائی ہے ۔آج صوفی تبسم کا شعر رہ رہ کے یاد آ رہا ہے کہ؎

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے

آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)