ساکھ اور بے حسی

September 27, 2022

پاکستان معاشی لحاظ سے اقوامِ عالم کے سامنے اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ اگر اس حوالے سے کوئی شک موجود بھی تھا تو آئی ایم ایف کی بیشتر سخت سے سخت شرائط، پیسے ملنے سے پہلے ہی ماننے پر مجبور ہونے سے وہ بھی دور ہو چکا ہے۔ کئی معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی آئی ایم ایف کے اس قدر سخت رویے کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ دوسری طرف ہم کئی دوست ممالک کی طرف سے مالی امداد کے وعدوں کے پورا ہونے کے منتظر ہیں۔

آج ہم جس معاشی ابتری کا شکار ہیں اُس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ماضی میں ہم نے کبھی درست معاشی فیصلے نہیں کیے۔ اپنی سب ناکامیاں ماضی کی حکومتوں پر ڈالنے والے عمران خان نے اپنی حکومت میں محض سیاسی مفادات کی خاطر پاکستان کو آئی ایم ایف کے معاہدوں کی خلاف ورزی کرکے شدید معاشی نقصان پہنچایا۔ ان کے دورِ حکومت میں کیے گئے غلط معاشی فیصلے بھی اِس طرح بنائو سنگھار کے ساتھ پیش کیے جاتے رہے کہ جیسے کوئی بہت بڑا تیر مار لیا ہو۔ "ہم کشکول نہیں اُٹھائیں گے، میں عوام پر بوجھ نہیں ڈال سکتا، عوام کو ریلیف دینا بہت ضروری ہے وغیرہ وغیرہ"۔ عمران خان یہ خوش کن دعوے کرتے رہے لیکن اُن کے دورِ حکومت میں خاموشی سے معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا گیا۔ عوام پر مہنگائی اور قرضوں کی صورت میں بوجھ ڈالا جاتا رہا۔ زمینی حقائق کے مطابق عمران خان عوام کو چند دن کے لیے سبز باغ دکھا کر ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر چھوڑ کر گئے ہیں۔

مفتاح اسماعیل جن کا شاید یہ قصور ہے کہ اُنہوں نے مشکل مگر درست فیصلوں سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے، اُن کے ان سخت فیصلوں سے حکومت کو سیاسی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ عدالت کی طرف سے اسحاق ڈار کی فوری گرفتاری کے احکامات معطل ہونے کے بعد وہ وطن واپس آ رہے ہیں، جس کے بعد حکومت ایک مرتبہ پھر سے ملک کا پیسہ خرچ کر کے معیشت کو مصنوعی طریقے سے سہارا دینے کی کوشش کرے گی اور عوام کے آج کو وقتی طور پر آسان کرنے کے لیے اُن کے کل کو مزید مشکل بنا دے گی۔ ڈار صاحب پہلے بھی ڈالر کو مصنوعی طور پر نیچے رکھ کر زرِ مبادلہ کے ذخائر کو ضائع کر چکے ہیںجس کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا۔ تب ڈالر کی قدر کم ہونے کی وجہ سے درآمدات کے حجم میں بے پناہ اضافہ ہوا تھا ، ان درآمدات کو تمام پاکستانیوں کی دسترس میں رکھنے کے لیے اُن پر مزید سبسڈی بھی دی جاتی رہی۔ پاکستان کی اشرافیہ ویسے بھی یہ سمجھتی ہے کہ معاشی ترقی برآمدات کا حجم بڑھنا یا روزگار میں اضافہ ہونا نہیں ہے بلکہ معاشی ترقی کا تعین ملک میں درآمد کیے جانے والے مہنگے موبائل فونز اور بڑی گاڑیوں سے کیا جاتا ہے۔ ڈار صاحب کے آنے کے بعد اگر پھر سے معیشت کو مصنوعی طریقے سے سہارا دینے کی کوشش کی گئی تو ہم اپنی رہی سہی ساکھ بھی کھو بیٹھیں گے۔

معاشی ابتری کو اگر ایک طرف رکھ کر سیلاب زدگان کی بات کی جائے تو اُن کو ریسکیو کرنے کے علاوہ ان کےریلیف اور بحالی کے لیے جو امداد درکار ہے وہ بھی نہیں مل رہی۔اقوامِ متحدہ کی طرف سے بھی جتنی امداد کی اپیل کی گئی تھی ابھی تک اُس کا تیسرا حصہ ہی وصول ہوا ہے۔ پاکستان، جو دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ایک فیصد سے بھی کم(0.8)کاربن خارج کرتا ہے ، وہ کاربن کے بے تحاشا اخراج کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں کی سب سے زیادہ قیمت چکا رہا ہے۔ اس کے باوجود دنیا، بالخصوص وہ ممالک جو زیادہ کاربن خارج کرتے ہیں، پاکستان کی بھرپور امداد کرنے سے کترا رہے ہیں، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر وہ پاکستان کی مدد کرتے ہیں تو انہیں

موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ دیگر ممالک کی بھی مدد کرنا پڑے گی۔ اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان اتنی بڑی تباہی کا مقابلہ نہیں کر سکتا بالخصوص جب ہمارے یہاں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی روش موجود ہو۔ایسے وقت میں جبکہ پاکستان کا ایک تہائی حصہ سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے، یہاں یہ شور مچا ہوا ہے کہ اِس کو پیسے دینے ہیں اور اُس کو پیسے نہیں دینے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں جب قوم کو متحد ہونا چاہیے تھا، سیاست کی وجہ سے قوم بٹ چکی ہے۔ سیاسی تقسیم بھی رہی ایک طرف، 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب کے مقابلے میں اس مرتبہ ہماری اشرافیہ اور صاحبِ حیثیت لوگوں کی اکثریت نے سیلاب متاثرین کی امداد کے حوالے سے بہت بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔

چند روز قبل کینیڈا میں پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کے ایک بہت بڑے ایوارڈ شو کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان کی شوبز انڈسٹری کی کم و بیش تمام نام نہاد سلیبرٹیز نے شرکت کی۔ سوشل میڈیا پر ان سلیبرٹیز کی کینیڈا کے لیے بزنس کلاس میں سفر، یہاں کے مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام و طعام اور ایک نہایت عالی شان محفل کی تصاویر اور ویڈیوز خوب وائرل ہوئیں۔ اُس ایوارڈ شو کے ٹکٹس کئی کئی سو ڈالرز میں بکے۔ اگرچہ اس حوالے سے دیگر پلیٹ فارمز پر بات ہو چکی ہے لیکن میں یہاں بھی اس کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایسے وقت میں جبکہ تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد پاکستانی سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہیں، لاکھوں ایسے ہیں جو عارضی کیمپوں میں پناہ گزیں ہیں اور بے شمار ایسے ہیں جو تاحال کھلے آسمان تلے موسم کی شدت کے رحم و کرم پر ہیں، اُن کی مدد، حوصلہ افزائی اور زمینی حقائق جاننے کے لیے ہالی وُڈ کی ایک بڑی اداکارہ اینجلینا جولی سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر رہی ہے، پاکستان کے مقامی اداکار جنہیں انہی عوام نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا ہے وہ بیرونِ ملک جا کر موج مستی کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا اِس حوالے سے کہنا ہے کہ چونکہ ایوارڈ شو کے سارے انتظامات پہلے سے کیے جا چکے تھے، اس لیے اسے منسوخ کرنا مناسب نہیں تھا۔ ایوارڈ ہونا یا نہ ہونا بھی ایک الگ بحث ہے لیکن یہاں مسئلہ ایوارڈ شو کا نہیں بلکہ اُس بے حسی کا ہے جسے پوری دنیا نے دیکھا ہے۔ ایک طرف سوشل میڈیاپر اور مین سٹریم میڈیا پر سیلاب زدگان کی امداد کے لیے مہمات چلائی جا رہی ہیں۔ ہمارے قومی لیڈرز اقوامِ عالم سے سیلاب زدگان کے لیے امداد کےلیے دست طلب کیے ہوئے ہیں اور دوسری طرف ہماری شاہ خرچیوں اور بے حسی کا یہ عالم دیکھ کر دنیا میں ہمارا مذاق نہیں بنے گا تو اور کیا ہوگا۔ اگر ایوارڈ شو منسوخ نہیں کیا جا سکتا تھا تو سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کرنا ضروری تھا کیا؟

زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ اشرافیہ کے ساتھ ساتھ معاشرے کا وہ طبقہ بھی بے حس ہو چکا ہےجو سوشل میڈیا پر بہت ایکٹو ہے۔ 2005ء کے زلزلے کے وقت پاکستانیوں نے اپنے زلزلے سے متاثرہ ہم وطنوں کی بھرپور مدد کی تھی۔ 2010ءمیں جب سیلاب آیا تھا تب بھی پاکستانیوں نے سیلاب متاثرین کی دل کھول کر مدد کی تھی۔ یقیناً اس مرتبہ بھی سیلاب متاثرین کی امداد کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، بے شمار توایسے ہیں جو خود بھوکے رہ کر سیلاب زدگان کی امداد کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف یہ طبقہ ہے، جنہیں رول ماڈل سمجھا جاتا ہے، لیکن اُن کی ترجیح سیلاب زدگان کی مدد نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنا ہے۔ زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان چہروں کو لوگ دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں، اگر یہ افراد سیلاب زدگان کے لیے امدادی مہمات چلاتے تو لوگ ان کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیتے۔ اور جو اِکا دُکا لوگ یہ کام کر بھی رہے ہیں وہ سوشل میڈیا پر اُس کی تشہیر کے لیے جب بھوک سے ستائے لوگوں کی کھانا کھاتے، ویڈیوز اور تصاویر بناتے ہیں تو وہ لوگ سخت شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ہمارے اپنوں کے اس رویے کے بعد غیروں سے یہ گلہ بالکل بے جا ہے کہ وہ ہماری مدد کیوں نہیں کر رہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)