اونٹ کے منہ میں زیرہ!

September 30, 2022

ڈیٹ لائن لندن …آصف ڈار
ابھی چند برس پہلے تک اگر کسی بھی ملک میں کوئی ناگہانی آفت آتی تھی تو ساری دنیا اکٹھی ہوجاتی تھی اور اس ملک کی امداد کے لیے ہر کوئی آگے بڑھتا تھا اور عالمی امداد سے نہ صرف آفت کے متاثرہ علاقے خوش حال ہوجاتے تھے بلکہ اس ملک کے اقتصادی حالات بھی بہتر ہوجاتے تھے مگر اب ایسا بہت کم ہورہا ہے، پاکستان میں اتنا بڑا سیلاب آیا، سیکڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے، کروڑوں شدید متاثر ہوئے، آدھا پاکستان ڈوب گیا، سڑکیں، پل، فصلیں اور لوگوں کی ساری امیدیں پانی میں بہہ گئیں، پاکستان نے عالمی برادری سے امداد کی اپیل کی، خود اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان آئے اور دنیا سے اپیل کی کہ پاکستان کی زیادہ مدد کی جائے، انجیلا جولی تک نے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرکے صورت حال کو انتہائی مخدوش اور خطرناک قرار دیا مگر عالمی برادری کی کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی جس نے جتنے ’’ٹکے‘‘ دیئے تھے، اس میں کچھ ’’آنوں‘‘ کا اضافہ کیا اور بس! امریکہ اور دوسرےG-7ممالک کی جانب سے وہ امداد نہیں آئی جس کی توقع تھی، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور پاکستان کی حکومت نے عالمی برادری سے لاکھ کہا کہ اس سیلاب میں پاکستان کا کوئی دوش نہیں بلکہ یہ ان ممالک کی وجہ سے ہے جس کی چمنیاں99فیصد کاربن پیدا کرکے دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کا باعث بن رہی ہیں مگر سب بے سود، کوئی ملک اپنی ’’اوقات‘‘ اور پاکستان کی ضرورت کے مطابق اس کو امداد دینے کو تیار نہیں، وجہ کیا ہے کہ اتنے امیر ممالک آگے نہیں بڑھ رہے، ایک وجہ تو یہ ہے کہ کوویڈ19کے بعد ساری دنیا کنگال ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے، ہر ملک آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے سود خور اداروں سے ان کی شرائط پر قرضہ لینے پر مجبور ہوگیا ہے،اوپر سے روس کی یوکرین پر چڑھائی نے بھی یورپی ممالک کو سڑک پر لاکھڑا کیا ہے، روس کی گیس اور تیل کی سپلائی بند ہونے کے بعد برطانیہ سمیت تمام یورپی ممالک انرجی کے شدید بحران کا شکار ہوگئے ہیں، ان کے انرجی اور روزمرہ کے بل بڑھ گئے ہیں، بینکوں نے شرح سود میں ہوشربا اضافہ کردیا ہے چنانچہ یہ ملک اب اتنی مدد نہیں کرسکتے جتنی کیا کرتے تھے، ان سب کو یہ احساس ہے کہ پاکستان میں انسانی بحران جنم لے رہا ہے، بھوکے پیاسے سیلاب زدگان اب بیماریوں سے مر رہے ہیں تاہم سب نے آنکھیں موند لی ہیں، غیر ملکی امداد میں بھاری کمی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عالمی برادری کے پاکستان پر اعتماد میں کمی آئی ہے، یہ وہی عالمی برادری ہے جس نے پاکستان کے شمالی علاقوں اور آزاد کشمیر میں2005ء میں آنے والے زلزلے کے بعد اپنی تجوریاں کھول دی تھیں، ساری دنیا کیNGOپاکستان میں تھیں، اس غریب ملک کو اربوں ڈالر کی امداد دی گئی، زلزلہ متاثرین کی بحالی اور انفرا اسٹرکچر کے لیے منصوبے بنائے گئے، بدقسمتی سے اس امداد کا عشر عشیر بھی زلزلہ متاثرین کی بحالی پر خرچ نہیں ہوا، لوگ اب بھی امداد کے منتظر ہیں یا پھر اپنوں کی مدد کی آس ہی چھوڑ دی ہے، ان کی عدم بحالی اور عالمی امداد کی ’’غیبی قوتوں‘‘ کے پاس جانے کی ساری خبریں عالمی برادری کو ملتی رہی ہیں، اس زلزلے نے جہاں لاکھوں زندگیاں اجاڑ دیں، وہاں اس نے وطن عزیز کو یہ موقع بھی فراہم کیا تھا کہ اسے خوشحال بنایا جائے مگر سب رائیگاں گیا، امداد سے متوقع خوشحالی نظر نہیں آرہی چنانچہ اب عالمی برادری اس لیے بھی محتاط ہوگئی ہے کہ ان کی امداد کو کوئی اور کھا جائے گا، البتہ یہ بھی نہیں کہ عالمی برادری بالکل آگے نہیں بڑھی مگر یہ امداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ہے، سیلاب کی تباہی سے نمٹنے اور لوگوں کو بحال کرنے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں، اس کے لیے محض بیرونی امداد پر بھروسہ کرنے کی بجائے ملک کے اندر موجود NGOاور اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہوگا، برٹش اور دوسرے پاکستانی اگرچہ اپنے طور پر بہت کوشش کررہے ہیں مگر صورت حال انتہائی خراب ہے، اس لیے سب کو کوششیں کرنا ہوں گی، برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن اور بہت سے پاکستانی کمیونٹی سینٹرز و تنظیمیں اس مصیبت میں پاکستانیوں کے ہمراہ کھڑی ہیں تاہم پاکستان کے اندر اب ایسیNGOاور ادارے ہیں جوکہ سیلاب زدگان کے متاثر کا مستقل حل تلاش کررہے ہیں، اس سلسلہ میں پاکستان کی یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) کے یوکے چیپٹر کے ڈاکٹر طٰہٰ قریشی ایم بی ای نے سائوتھ ایسٹ لندن میں ایک فنڈ ریزنگ تقریب کا اہتمام کیا جس میںNUSTکے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید محمود بخاری نے سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے اپنے ادارے کا ایک عملی منصوبہ پیش کیا جس پر وہ کام کررہے ہیں، ان کا کہنا تھا ان کا ادارہ سیلاب زدگان کو ان کی ضرورت کے مطابق امداد فراہم کرنے کے منصوبے پر عمل کررہا ہے، منصوبہ یہ ہے کہNUSTچاروں صوبوں کے شدید متاثرہ سیکڑوں دیہات کا انتخاب کرکے ان کی تعمیرنو کرے گا اور ان کو ان کی ضرورت کے مطابق کاروبار اور دیگر امداد کے لیے امداد فراہم کرے گا، ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے ادارے کے ہزاروں اسٹوڈنٹس بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں، اس لیے انہیں اندازہ ہے کہ کس طرح لوگوں کی مدد کی جاسکتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس ورک فورس اسٹوڈنٹس شکل میں موجود ہے، اگر پاکستان کی دوسریNGOاور ادارے بھی اسی نظیر کو اپنائیں اور مختلف علاقوں کو ’’گود لیں‘‘ اور ان میں کام کریں تو شاید چند برس کے اندر ان متاثرین کے دکھوں کا کچھ مداوا ہوسکے، اگرچہ یہ کام مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔