ریاست اور مفادات کی سیاست

November 08, 2022

کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ملک میں سیاست کو اس نہج پر پہنچایا جائے گا کہ سیاست کو ریاست پر ترجیح دی جائے گی۔ اس صورتحال پر نہ صرف پوری قوم پریشان ہے بلکہ سنجیدہ سیاستدان بھی حیران ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ یہ کون سی سیاست ہےجس میں ریاستی اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہےکیوں کہ ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کا صاف مطلب ملک کو کمزور کرنا ہے۔

یہ صورتحال نہایت تکلیف دہ تو ہے ہی بلکہ بہت زیادہ حیران کن بھی ہے کہ حکومت اس حوالے سے کوئی خاص کارروائی نہیں کر رہی۔ گزشتہ دنوں وزیر آباد میں جو واقعہ پیش آیا وہ نہایت افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے ۔ اس لانگ اور بعد میں واک مارچ میں میں اب تک تین قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں اور بیانات کے مطابق یہ خونی مارچ ثابت ہوا ہے۔

اس کے بعد وزیر آباد میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان پر فائرنگ کا واقعہ ہوا۔ اس واقعہ میں شکر ہے کہ عمران خان تو بچ گئے لیکن اس میں معصوم بچوں کے باپ اور گھر کے واحد کفیل کی جان چلی گئی۔ اس ’’ خونی مارچ‘‘ میں جن پاکستانیوں کی جانیں جا چکی ہیں، ان کے حوالے سے کیا کارروائی ہوئی؟ جس خونی کنٹینر نے تین بے گناہ قیمتی جانیں لیں، ان المناک اموات پر کنٹینر سواروں اور ذمہ داروں کے خلاف کیا قانونی کارروائی ہوئی؟

کیا وہ اور وزیر آباد میں مارے جانے والے کارکن کی جان کسی سے بھی کم قیمتی تھی؟ کیا یہ سب انسان نہیں تھے؟ کیا یہ سب پاکستانی نہیں تھے؟کیا قانون کی نظر میں ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی؟ کیا عام اور غریب ہونا ان کا قصور تھا؟ ان جانوں کو موت سے ہمکنار کرنے والے تمام لوگ ہر قانون سے بالاتر ہیں۔ ان اموات پر حکومت اور میڈیا کیوں خاموش ہے؟ شکر ہے عمران خان زندہ وسلامت ہیں۔

وہ بے شک سابق وزیراعظم ہیں اور ایک پارٹی کے چیئرمین بھی لیکن جو لوگ اس مارچ کی نذر ہوئے وہ سب اپنے گھر والوں کےلئے عمران خان تھے اور عمران خان سے کہیں بڑھ کر اہم اور قیمتی تھے۔ وہ بھی اس ملک کے شہری تھے، وہ بھی انسان تھے پھر ان غریبوں کا کوئی ذکر کیوں نہیں ؟

ان اموات کے ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی شاید اس لئے نہیں کی گئی کہ نہ تو وہ طاقتور تھے نہ سیاستدان تھے اورنہ ہی ان کے ساتھ مارچ میں چند ہزار لوگ شریک تھے، یہ کیسا ملک ہے یہ ’’جنگل کا قانون جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ نہیں تو اور کیا ہے؟ کسی کو خوفِ خدا نہیں ہے۔ وزیر آباد والے واقعہ کو دیکھ لیں کہ زخمی کو فوری طور پر قریبی سرکاری اسپتال منتقل کرنے کے بجائے 70 کلو میٹر دور ذاتی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں صرف کینسر کا علاج کیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ زخمی ہونے کی صورت میں سرکاری اسپتال اور سرکاری ڈاکٹر کی میڈیکل رپورٹ کی ایف آئی آر اور آگے کی قانونی کارروائی کے لئے نہ صرف ضروری ہے بلکہ تفتیش کے لئے اس رپورٹ کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ مذکورہ بالا معاملات سے کہیں زیادہ اہم اور قابل غور بلکہ تشویشناک بات یہ ہے کہ واقعہ کے دو تین گھنٹوں کے اندر ہی عمران خان کی طرف سے ان کے بعض قریبی لوگوں نے ایک بیان جاری کیا جس کی پھر عمران خان نے خود بھی بذریعہ بیان اور پریس کانفرنس تصدیق کی کہ عمران خان پر حملے میں تین شخصیات ملوث ہیں جو ان کو قتل کرانا چاہتی ہیں۔

ان تین شخصیات میں وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے بھی نام شامل ہیں جب کہ اس واقعہ میں ملوث اور زیر حراست ملزم نے اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے خود اپنی آزاد سوچ کے مطابق فائرنگ کی ، اس کے ساتھ کوئی تھا اور نہ ہی کوئی اس کی پشت پناہی کر رہا ہے۔

دوسری غیر منطقی بات یہ ہے کہ نہ تو حکومت نہ ہی ریاستی اداروں کو عمرانخان سے کوئی خطرہ اور خوف تھا نہ ہی ان تینوں شخصیات کی عمران خان سے کوئی خاندانی دشمنی تھی۔ نہ ہی وہ عمران خان سے کمزور تھے۔ایسا لغو الزام لگانے والوں کی عقل پر ماتم کرناچاہئے کہ بغیر ثبوت اور وجہ کہ کسی پربھی اتنا بڑا الزام کس طرح لگایا جاسکتا ہے اور کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے من گھڑت الزام پر کوئی مستعفی ہوجائے۔

لیکن اس تمام صورتحال میں دوباتیں نہایت ہی قابل غور اور اہم ہیں۔ ایک یہ کہ کیا یہ کوئی پلانٹڈ واقعہ تھا کہ ادھران تین شخصیات پر فوراً الزام لگایا گیا اور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیاگیا کہ یہ تینوں اپنے عہدوں سےمستعفی ہوں۔

دوسری اور اس سارے وقوعہ میں اہم ترین بات جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جس فوجی افسر کواس میں ملوث کرنے کی غلیظ کوشش کی گئی ہے ان کی کیا اہمیت ہے۔ وہ کن دشمن ممالک کو قابلِ قبول نہیں؟ انہوںنے کیا کیا کارنامے سرانجام دئیے ہیں ؟عمران خان کے ان پر الزام اور ان کےاہم ترین عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ نہایت معنی خیز ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کو ٹال مٹول اور اگر مگرکے بجائے مذکورہ افسرپربیہودہ الزام لگانے اور ان سے مستعفی ہونے کے مطالبے کرنے والوں پر الزام لگانے والوں کے خلاف فوری قانونی کارروائی کرنی چاہئے ۔واضح رہے کہ ریاست پرذاتی مفادات کو ترجیح دینا نہایت خطرناک عمل ہے جو ناقابل برداشت ہے۔