سستی بجلی، اہم پیش رفت

December 06, 2022

ملک میں توانائی کے بحران سے تیل ، گیس اور بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافے کی بدولت صارفین کیلئے مشکلات پیدا ہونے کے علاوہ زراعت اور صنعتوں کو جو نقصان پہنچا ہے اس کے خلاف بھی متعلقہ حلقے احتجاج کی آوازیں مسلسل بلند کر رہے ہیں اور حکومت بھی ان کی شکایات دور کرنے کیلئے تمام ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں سندھ کے صحرائے تھر میں پائے جانیوالے کوئلے کے وسیع ذخائر کا استعمال توانائی کے حصول کا ایک سستا ذریعہ ہے جسے بروئے کار لایا جانا ملکی معیشت کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت ہے۔ یہ منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری کا ثمر ہے جس کے تحت 660میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والا پہلا یونٹ کام شروع کر چکا ہے۔ اور اسے نیشنل گرڈ سے منسلک کیا جا چکا ہے۔ منصوبے کے تحت تھرکول سے 1320میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی جو ہائیڈل کی طرح سستی بھی ہو گی۔ اس سے مہنگی تھرمل بجلی پر انحصار کم کرنے میں مدد ملے گی جس کے بل عوام خصوصاً کم آمدنی والے لوگوں کیلئے ناقابل برداشت ہو رہے ہیں۔ تھرکول منصوبے کے دوسرے یونٹ کو بھی پیر کو نیشنل گرڈ سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ اس سے بھی اتنی ہی بجلی نیشنل گرڈ کو ملنا شروع ہو جائے گی جتنی پہلے یونٹ سے حاصل ہوتی ہے۔ یونٹ قابل تجدید توانائی کے 51منصوبوں کا حصہ ہیں جو ملک بھر میں شروع کئے گئے ہیں یا کئے جانے والے ہیں۔ تھرکول پاور پلانٹس ملک کے 40لاکھ گھروں کو سستی توانائی مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور قومی گرڈ کو صاف توانائی فراہم کر رہے ہیں۔ قابل تجدید توانائی کے یہ منصوبے نجی شعبے کے سرمایہ کاروں کے ذریعے مکمل کئے جا رہے ہیں اس طرح گھریلو، تجارتی اور صنعتی و زرعی شعبوں میں صارفین کی سطح پر شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ کوئلے کے استعمال کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے جو وقت کی ناگزیر ضرورت ہے نیٹ میٹرنگ پر مبنی شمسی تنصیبات کی تعداد 591.65ہے جن سے بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 350.29میگا واٹ تک پہنچ گئی ہے جو توانائی بحران سے دوچار ملک کیلئے نیک شگون ہے۔ اس اچھی خبر کے ساتھ ایک لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ تیل اور گیس کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے اور اس کے نتیجے میں درآمدی بل بڑھنے کی وجہ سے حکومت توانائی کے نقصانات پورے کرنے کے ریگولیٹری اہداف حاصل نہیں کر سکی ۔ وزارت پٹرولیم کی تین سالہ کارکردگی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایل این جی درآمدی بل میں 30جون 2022ء تک 91فیصد اضافہ ہو گیا ہے جو اس وقت 14ارب 99کروڑ ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات اور گیس کے نرخوں میں اضافہ بین الاقوامی قیمتوں کے تناسب سے ہوتا ہے جو مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ ایسے میں ایک طرف تیل اور گیس درآمد کرنے سے نہ صرف تجارتی خسارہ مزید بڑھے گا جس کے منفی اثرات معیشت پر پڑیں گے بلکہ عام صارفین پر بھی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ پڑے گا جو پہلے سے موجود بوجھ تلے دبے ہیں۔ حکومت کو اس صورتحال میں ایک طرف ملک کے اندرونی وسائل کے استعمال پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینا ہو گی تو دوسری طرف درآمدی بل کے علاوہ تیل اور گیس کی درآمدپر انحصار بتدریج کم کرنا پڑے گا۔ تھرکول کا استعمال اس حوالے سے ایک اچھی مثال ہے ۔ پاکستان کا طویل ساحل تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال بتایا جاتا ہے۔ اس کی تلاش پر بھی توجہ دینی چاہئے پھر ملک کے دوسرے حصوں میں بھی کوئلے اور گیس کے ذخائر موجود ہیں جن میں سے بعض بروئے کار لائے جا رہے ہیں لیکن اکثر تلاش کے منتظر ہیں ان سے بھی فائدہ اٹھایا جائے۔