مدینہ منورہ... عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک (قسط نمبر 4)

December 18, 2022

حضرت اُمِّ سلمہؓ حرمِ نبویؐ میں: حضرت اُمِّ سلمہؓ یثرب ہجرت کرنے والی پہلی مسلمان خاتون تھیں۔ اُن کے شوہر ابو سلمہؓ غزوئہ احد میں زخمی ہوئے اور 4ہجری میں انتقال کرگئے۔ اُن کے چار بچّے تھے۔ آنحضرتﷺ نے بچّوں کی پرورش و تربیت اور اُن کی دل جُوئی کی خاطر اُن سے نکاح فرمالیا تھا۔ حضرت اُمِّ سلمہؓ کی وفات 63ہجری میں 84سال کی عُمر میں ہوئی۔ (سیر صحابیات، ص54)۔

سیّدنا فاروق اعظمؓ کی ہجرت کا منفرد واقعہ: مسلمانوں کی مکّہ مکرّمہ سے یثرب کی جانب ہجرت کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک صبح آنحضرتﷺ نے حضرت عُمرؓ بن خطاب کو بھی ہجرت کا حکم فرمادیا۔ صحابہؓ کا خیال تھا کہ حضرت عُمرؓ بھی عام لوگوں کی طرح رات کی تاریکی میں خفیہ طور پر مکّے سے نکلیں گے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ’’جب حضرت عُمر فاروقؓ کو ہجرت کا حکم ملا تو آپؓ گھر تشریف لے گئے۔ ایک ہاتھ میں برہنہ تلوار لی، دوسرے میں تیر اور پشت پر کمان لگا کر تنِ تنہا خانۂ کعبہ میں داخل ہوئے۔ اُس وقت قریش کے قبائل اپنے سرداروں کے ساتھ صحنِ کعبہ میں موجود تھے۔ سیّدنا عُمرؓ نے نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ بیت اللہ شریف کا سات بار طواف کیا، پھر مقامِ ابراہیمؑ پر دو رکعت نفل ادا کیے۔

اُن سے فارغ ہوکر دوبارہ ہاتھ میں برہنہ تلوار لی اور سردارانِ قریش کے پاس تشریف لے جاکر نہایت بارُعب اور گرج دار آواز میں کہا ’’اے اسلام کے دشمنو! جان لو کہ آج عُمرؓ مکّہ سے مدینہ ہجرت کررہا ہے۔ تمہارے چہرے سیاہ ہوجائیں۔ اللہ تمہاری ناک خاک آلود کرے۔ تم میں سے جو شخص چاہتا ہے کہ اپنی ماں کو اپنے پیچھے روتا چھوڑے، اپنی بیوی کو بیوہ بنائے اور اپنے بچّوں کو یتیم کہلوائے، وہ حرم کے باہر مجھ سے نبردآزما ہو جائے اور مجھے یثرب جانے سے روک دے۔‘‘

سیّدنا علی مرتضیٰؓ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عُمرؓ کے رُعب و دبدے، ہیبت و جلال کا یہ عالم تھا کہ قریش کے سرداروں میں سے کسی ایک کی بھی اتنی ہمّت نہ ہوئی کہ وہ آپؓ کو روکتا۔ البتہ کچھ کم زور مسلمان ضرور ہجرت کی غرض سے اُن سے آملے۔‘‘ اس طرح سیّدنا عمر فاروقؓ کی رہنمائی میں بیس افراد پر مشتمل یہ قافلہ یثرب کی جانب روانہ ہوگیا۔ (تاریخ الخلفا، علّامہ جلال الدین سیوطی، صفحہ141)۔

کیا گزری راہِ حق کے دیوانوں پر

عیاش بن ابی ربیعہ کی سرگزشت:ابنِ اسحاق نے صحیح سند کے ساتھ خود حضرت عُمرؓ کا بیان نقل کیا ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نے عیاشؓ بن ابی ربیعہ اور ہشامؓ بن العاص بن وائل سے یہ طے کیا تھا کہ وہ دونوں مکّے سے دس میل دُور ’’تناضِب‘‘ کے مقام پر ہم سے آملیں گے، اور جو بھی وقتِ مقررہ پر وہاں نہ پہنچے گا، اس کے متعلق سمجھ لیا جائے گا کہ وہ پکڑا گیا اور باقی لوگ اُس کا انتظار کیے بغیر آگے روانہ ہوجائیں گے۔ ہشام مکّے ہی میں پکڑ لیے گئے، جب کہ عیاشؓ ہمارے ساتھ مدینہ پہنچ گئے۔ پیچھے پیچھے ابوجہل بن ہشام اور حارث بن ہشام بھی مدینہ آگئے۔

یہ دونوں سگے بھائی تھے۔ اُن کے والد ہشام بن مغیرہ کے انتقال کے بعد اُن کی والدہ نے ہشام کے بھائی ابو ربیعہ بن مغیرہ سے نکاح کرلیا تھا، جن سے عیاشؓ پیدا ہوئے۔ اس طرح عیاشؓ اُن کے ماں جائے بھی تھے اور چچازاد بھائی بھی۔ ان دونوں نے پوری مکّاری کے ساتھ یہ کہہ کر عیاشؓ کو رام کرلیا کہ ’’امّاں جان نے قسم کھالی ہے کہ جب تک تمہیں دیکھ نہ لیں، سر میں کنگھی کریں گی، نہ دھوپ سے سائے میں جائیں گی۔‘‘ سیّدنا عمرؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے عیاشؓ کو بہت سمجھایا کہ یہ دونوں تمہیں دھوکے سے پھانس کر اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔

اُن کے فریب میں نہ آئو۔ تمہاری ماں کو جب جوئیں ستائیں گی تو آپ ہی کنگھی کریں گی اور جب مکّے کی گرمی برداشت نہ ہوگی، تو خود ہی سائے میں چلی جائیں گی۔ مگر عیاشؓ پر ماں کی محبت غالب تھی۔ مجھ سے کہنے لگے کہ مَیں بس ماں کی قسم پوری کروں گا اور اپنا مال لے کر واپس آجائوںگا۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’مَیں اپنا آدھا مال تمہیں دیتا ہوں، تم اُن کے ساتھ نہ جائو۔‘‘ مگر وہ نہ مانے۔ آخر میں نے کہا ’’اچھا، اگر تمہیں جانا ہی ہے، تو میری اونٹنی لے جائو۔ یہ بہترین اونٹنی ہے۔ اسے ہرگز نہ چھوڑنا۔ جب اُن دونوں کی نیّت خراب ہو، تو فوراً اس پر بھاگ نکلنا۔‘‘ یہ بات اُنہوں نے مان لی۔ راستے میں ایک جگہ ابوجہل نے اُن سے کہا ’’بھیّا! میرا اونٹ کچھ ٹھیک نہیں چل رہا، تم اپنی اونٹنی پر مجھے بٹھالو؟‘‘

عیاشؓ نے کہا ’’جی ضرور۔‘‘ پھر دونوں زمین پر اُترے، تاکہ ابوجہل اپنے اونٹ سے عیاشؓ کی اونٹنی پر بیٹھ سکے۔ حارث بھی اپنا اونٹ بٹھاکر نیچے اُتر آیا اور دونوں نے مل کر عیاشؓ کو باندھ لیا۔ ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ عیاشؓ بن ابی ربیعہ کے خاندان والوں نے مجھے بتایا کہ ابوجہل اور حارث، عیاشؓ کو لیے ہوئے اس حال میں دن دہاڑے مکّے پہنچے کہ وہ رسّیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور دونوں بھائی اعلان کرتے جارہے تھے کہ ’’اے اہلِ مکّہ! اپنے اپنے نالائق بھگوڑوں کو اس طرح سیدھا کرو، جس طرح ہم نے کیا ہے۔‘‘ (سیرتِ سرورِ عالم، 171/2)۔

محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبّت میں سر کٹانے کو تیار ہیں:ابنِ ہشام تحریر کرتے ہیں کہ رسولﷺ جب ہجرت فرما کر یثرب تشریف لائے، تو ایک دن آپؐ نے صحابہؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’کون ہے جو میرے لیے ہشامؓ بن عاص اور عیاشؓ بن ابی ربیعہ کو کفارِ مکّہ کی قید سے چھڑوا کر لائے؟‘‘ دراصل حضورﷺ کو ان دونوں پر ڈھائے جانے والے تشدّد و بربریت کی خبریں تواتر سے مل رہی تھیں اور آپؐ اُن دونوں کے لیے فکرمند تھے۔ رسول اللہﷺ کے ارشاد کے بعد مجلس میں سے خالدؓ بن ولیدکے بھائی ولیدؓ بن ولید اُٹھے اور عرض کیا ’’یارسول اللہﷺ! مَیں اس کام کے لیے حاضر ہوں۔‘‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے لیے دُعا فرمائی اور وہ خفیہ طور پر مکّہ روانہ ہوگئے۔

مکّہ پہنچ کر ولیدؓ دونوں کی قید کی جگہ کا پتا لگانے میں مصروف ہوگئے۔ کچھ دن بعد اللہ نے اُن کی مدد فرمائی اور انہیں اُس عورت کا سراغ ملا کہ جو روزانہ نہایت راز داری کے ساتھ ایک بند کمرے میں دو آدمیوں کا کھانا پہنچانے کا کام سر انجام دے رہی تھی۔ حضرت ولیدؓ نے دیکھا کہ یہ بغیر چھت کی اونچی چار دیواری تھی، جہاں سایہ نام کو نہیں تھی۔ یوں مکّہ کی سخت تپتی دھوپ بھی اُن دونوں حق کے دیوانوں کی سزا کا ایک حصّہ تھی۔ راوی لکھتا ہے کہ اُن کی ماں نے بھی اُن سے کہا کہ ’’آبائو اجداد کے دین پر واپس آجائو، تو خاندان کی پوری دولت تمہارے حوالے کردی جائے گی۔‘‘ لیکن توحید کے متوالے عیاش ؓکا جواب تھا ’’ماں! تیری محبّت نے سلاخوں کے پیچھے قید میں ڈال دیا، لیکن محمّد ﷺ کی محبّت میں سَر کٹانے کو بھی تیار ہوں۔‘‘

حضرت ولیدؓ چُھپ کر رات گہری ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ پھر دیوار پھاند کر اندر داخل ہوئے۔ دونوں کے ہاتھ پائوں کی بیڑیاں کاٹیں اور نہایت خاموشی کے ساتھ دونوں کو اونٹنی پر بٹھا کر برق رفتاری سے مدینے کی جانب روانہ ہوگئے۔ صبح جب ابوجہل کو اس کا علم ہوا، تو اُس نے گھڑ سوار جنگجو اُن کے تعاقب میں روانہ کیے۔ اس سے پہلے کہ قریش جنگجو اُن تک پہنچتے، وہ تینوں آندھی طوفان کی طرح فاصلہ طے کرتے ہوئے شہرِ نبیؐ میں داخل ہوگئے۔ (سیرت ابنِ اسحاق،338-337)۔

حضرت عبداللہ بن سہیلؓ کی ہجرت:جو لوگ ہجرت سے زبردستی روکے گئے تھے، اُن میں سے ایک حضرت عبداللہ بن سہیلؓ بن عمرو بھی تھے۔ وہ مدینہ ہجرت کی خبر سُن کر حبشہ سے آئے تھے، تاکہ رسول اللہﷺ کے ساتھ نئے دارالہجرت چلے جائیں، لیکن اُن کے مشرک والد کو اُن کے ارادوں کا عِلم ہوگیا۔ انہوں نے عبداللہ بن سہیلؓ کو زبردستی روک کر گھر میں قید کردیا۔ حضرت عبداللہؓ نے اس کا حل یہ نکالا کہ والد سہیل بن عمرو کو یہ اطمینان دلایا کہ وہ دوبارہ اپنے آبائو اجداد کے دین پر پلٹ آئے ہیں۔

والد کو اطمینان ہوگیا کہ بیٹا راہِ راست پر آگیا ہے۔ جب جنگِ بدر ہوئی، تو سہیل بن عمرو بیٹے کو بھی کفارِ مکّہ کی فوج کے ساتھ میدانِ جنگ میں لے گیا۔ حضرت عبداللہؓ ایک عرصے سے ایسے ہی کسی موقعے کی تلاش میں تھے، چناںچہ جب بدر کے میدان میں دونوں فوجیں آمنے سامنے صف بستہ ہوئیں، تو وہ قریش کی فوج سے نکل کر مسلمانوں کی صف میں جا کھڑے ہوئے۔ ٹھیک چھے سال بعد فتحِ مکّہ کے موقعے پر اُن کے والد مسلمان ہوئے، تو اُن کا کہنا تھا کہ اللہ نے میرے بیٹے عبدؓاللہ کے ایمان میں میرے لیے بہت بڑی خیر رکھ دی تھی ۔(سیرتِ سرور عالمؐ، جِلد 2صفحہ718)۔

صہیبؓ نے نفعے کا سودا کیا، ارشادِ نبویؐ

حضرت صہیبؓ کا اصل وطن موصل تھا۔ جہاں اُن کے والد سنان بن مالک کسریٰ کی طرف سے شہر اُبلہ کے حاکم تھے۔ ابھی یہ کم سِن تھے کہ رومیوں نے اُبلہ پر چڑھائی کردی اور تمام مال و اسباب کے ساتھ اس معصوم کو بھی ساتھ لے گئے۔ چناںچہ وہ روم میں پلے بڑھے روایت میں ہے کہ ایک عرب نے انہیں خریدا اور مکّہ لے آیا۔ یہاں عبد اللہ بن جوعان نے اُنھیں خرید کر آزاد کردیا۔ یہ اوّلین مسلمانوں میں سے تھے۔ مکّہ میں اُن کے مالی حالات بہت بہتر ہوگئے تھے، لیکن اسلام قبول کرنے کی وجہ سے اہلِ مکّہ نے انہیں شدید ترین اذیّت و تشدّد کا نشانہ بنایا، جس سے وہ کچھ عرصے تک اپنے حواس کھو بیٹھے تھے۔

مدینہ ہجرت کے وقت قریش نے انہیں راستے میں پکڑلیا، چناںچہ اپنی جاں بخشی کے عوض انہوں نے اپنا تمام مال و اسباب اور کُل پونجی اُن کے حوالے کردی اور ہاتھ جھاڑ کر راہِ خدا پر نکل کھڑے ہوئے۔ حضورؐ کو اس کی خبر ملی، تو فرمایا ’’صہیبؓ نے نفعے کا سودا کیا۔‘‘ (سیرت النبی،ؐ1/149)۔

اللہ کے نبی ؐ جانبِ دارا لہجرت

سراقہ کے گھوڑے کا زمین میں دھنسنا:سراقہ بن مالک بن جعشم، قبیلہ بنی مدلج کا رئیس اور قریش کا ایک مشہور جنگجو تھا۔ اُس کا بیان ہے کہ ’’آنحضرت ﷺ کے مکّے سے ہجرت کرنے کے بعد ابو جہل نے اعلان کیا کہ ’’جو شخص محمدﷺ کو پکڑ کر لائے گا، اُسے 100سُرخ اونٹ انعام میں دیئے جائیں گے۔‘‘ بہت سے لوگوں کی طرح مَیں بھی اس بھاری انعام کے لالچ میں سرگرداں تھا۔ مجھے خبر ملی کہ چند آدمی ساحل کے ساتھ ساتھ جاتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔

چناںچہ میں اپنا گھوڑا سرپٹ دوڑاتا ہوا اُن کے قریب پہنچ گیا۔ یہاں تک کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی تلاوتِ کلام پاک کی آواز صاف سُنائی دینے لگی۔ ابھی میں حملےکے لیے اُن پر جھپٹا ہی تھا کہ اچانک میرے گھوڑے کے اگلے دونوں پائوں گُھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور مَیں نیچے گر پڑا۔ پھر جلدی سے اٹھا اور کئی بار آگے بڑھنے کی کوشش کی، لیکن ہر بار ناکام رہا۔ میں سمجھ گیا اُن کی حفاظت اللہ کی منشاء ہے، چناں چہ اپنا ارادہ ترک کیا اور اسلحہ پھینک کر خالی ہاتھ حضور ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر معافی کا طلب گار ہوا۔

پھر میں نے اپنی سواری اور زادِ راہ دینا چاہا، لیکن آپؐ نے قبول نہیں فرمایا۔ صرف اتنا حکم فرمایا کہ ’’اے سراقہ! ہمارے بارے میں راز داری سے کام لینا۔‘‘ مَیں نے عرض کیا، ’’حضور ﷺ مجھے پروانۂ امن لکھ دیں۔‘‘ آپؐ نے عامرؓ بن فہیرہ کو حکم دیا۔ چناںچہ میں وہ پروانہ لےکر واپس ہوگیا۔ (صحیح بخاری حدیث، 3906)۔ راستے میں جو لوگ آنحضرت ﷺ کی تلاش میں اس طرف آتے تو میں کہتا، ’’اِدھر تو میں دیکھ چکا ہوں، تم لوگ کسی اور طرف ڈھونڈو۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 3615)۔

سراقہؓ اور کسریٰ کے زیورات: سراقہ نے فتحِ مکّہ کے وقت اسلام قبول کیا، تو وہ پروانۂ امن اُس دن اُن کے کام آیا۔ اس موقعے پر حضور ﷺ نے فرمایا۔ ’’اے سراقہ! اُس وقت تیری کیا شان ہوگی، جب تُو کسریٰ کے کنگن پہنے گا۔‘‘ اس ارشاد کے چند سال بعد سیّدنا عُمر فاروق ؓ کے دَورِ خلافت میں ایران فتح ہوا اور کسریٰ کے کنگن، تاج اورکمرپٹّا امیر المومنین کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ آپؓ نے حضرت سراقہؓ کو بلایا اور یہ چیزیں اُنہیں پہنا کر فرمایا ’’ہاتھ اٹھائو اور کہو، تعریف ہے، اُس خدا کی جس نے یہ چیزیں اُس کسریٰ بن ہرمز سے چھین لیں، جو یہ کہتا تھا کہ میں لوگوں کا ربّ ہوں اور ان چیزوں کو بنی مدلج کے ایک بدو سراقہ بن مالک بن جعشم کو پہنادیں۔ (سیرتِ سرورِِ عالم،ؐ 2/732)۔

اسلام کا پہلا پرچم: قافلۂ حق اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا کہ راستے میں بریدہ اسلمی ملے۔ وہ بھی اپنے قبیلے کے سردار تھے اور انعام کی لالچ میں اپنے 70 ساتھیوں کے ساتھ حضور اکرمﷺ کی تلاش میں سرگرداں تھے، لیکن جب دیدارِ مصطفیٰ ﷺ ہوا، تو دل کی دنیا ہار بیٹھے، تلواریں قدموں میں ڈالیں اورکلمہ پڑھ کر شریکِ سفر ہوگئے۔ پھر عالمِ شوق میں اپنا عمامہ نیزے سے باندھا اور سفید پرچم لہراتے ہوئے نعرئہ تکبیر کی گونج میں آنحضرت ﷺ کو اپنے جلو میں لیے دارالہجرت کی جانب روانہ ہوگئے۔ (رحمۃ اللعالمینؐ ،1/101)۔ (جاری ہے)