• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدینہ منورہ... عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک (قسط نمبر 3)

بیعتِ عقبہ ثانیہ: موسمِ حج میں نبوت کے تیرہویں سال جون 622 عیسوی کو فریضۂ حج کے لیے یثرب سے 72 مرد اور 2 عورتیں مکّہ مکرّمہ آئیں۔ آپؐ نے اُن سے 12ذی الحجہ کو وادئ منیٰ میں عقبہ کی گھاٹی کے پاس رات کے وقت ملاقات فرمائی۔ آپؐ کے چچا حضرت عباسؓ ساتھ تھے۔ حضرت عباسؓ تب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، لیکن حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کی ذمّے داری اُن کے کاندھوں پر تھی۔ اُنھیں جب یثرب کے ایک بڑے وفد کے آنے اور آنحضرتﷺ سے ملاقات کا عِلم ہوا، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو تنہا نہیں جانے دیا، بلکہ اُن کے ساتھ خود تشریف لے گئے۔ 

یثرب کے لوگوں نے آپؐ سے درخواست کی کہ یثرب تشریف لائیں، وہاں ہم اللہ کے دین کو پھیلانے میں آپؐ کی مدد کریں گے۔ اس موقعے پر سب سے پہلے حضرت عباسؓ نے اُن کی دعوت کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ’’اے خزرج کے لوگو! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنی قوم اور اپنے شہر میں عزّت و احترام سے محفوظ ہیں۔ ہم ابنِ ہاشم اور ابنِ مطلب اُن کی حفاظت کے ذمّے دار ہیں۔

اب اگر تم لوگ انہیں اپنے پاس مدعو کرنے پر مُصر ہو، تو کیا تم اُن کی حفاظت کی ذمّے داری اٹھانے پر تیار ہو؟ اور اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اس وقت یہ ممکن نہ ہوسکے گا، تو پھر بہتر یہی ہے کہ یہ اپنے شہر میں اپنے لوگوں کے درمیان رہیں، جہاں یہ بہرحال محفوظ ہیں۔‘‘ حضرت عباسؓ کی گفتگو سُن کر حضرت کعبؓ نے حضورﷺ سے عرض کیا ’’اے اللہ کے رسولﷺ! آپؐ ہم سے جو عہدو پیماں چاہتے ہیں۔ ہم اس کے لیے حاضر ہیں۔‘‘ حضوراکرم ﷺ نے تلاوتِ کلامِ پاک سے اپنی گفتگو کا آغاز فرمایا، پھر اُن سب کو اسلام کی دعوت دی۔ (سیرت ابنِ اسحاق، صفحہ325)۔

بیعت کے مندرجات: حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہﷺ! ہم کس بات پر آپؐ سے بیعت کریں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اس پر کہ ہر حال میں میری اطاعت کروگے، تنگی ہو یا خوش حالی، اللہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کروگے، نیکی اور بھلائی کو عام کروگے اور بُرائی سے روکو گے، اللہ کی راہ میں حق بات کہو گے، اور اس کی راہ میں اٹھ کھڑے ہوگے، کسی ملامت کرنےوالے کی ملامت کی پروا کروگے، نہ ڈرو گے، جب میں تمہارے پاس آجائوں، تو میری مدد کروگے اور میری حفاظت بھی اس طرح کروگے، جس طرح اپنے اہلِ خانہ کی کرتے ہو، اور اس کے بدلے اللہ نے تمہارے لیے جنّت رکھی ہے۔‘‘ (سیرت سرورِ عالم، 704/2)۔

جنگجو باپ، دادا کی اولاد: آنحضرتﷺ کی گفتگو سُن کر یثرب کے ایک نوجوان، حضرت براءؓ بن معرور نے محبّت بھرے جذبات سے مغلوب ہوکر آپؐ کا ہاتھ تھاما اور عرض کیا ’’اے اللہ کے رسولﷺ! آپؐ ہم سے بیعت لیجیے۔ ہم آپؐ کی حفاظت اپنے بال بچّوں سے بڑھ کر کریں گے۔ خدا کی قسم! ہم جنگجو باپ دادا کی اولاد ہیں۔ جنگوں کے درمیان پلنے والے بیٹے ہیں، جنگ ہمارا کھیل اور ہتھیار ہمارا کھلونا ہیں۔‘‘ اس موقعے پر ابوالہیثم بن تیہان نے کہا، ’’یارسول اللہﷺ! ہمارے اور یہود کے درمیان عہد و پیماں ہیں۔ 

اب ہم یہ سب توڑنے جارہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ اللہ جب آپؐ کو غلبہ عطا فرمادے گا، تو آپؐ ہمیں چھوڑ کر واپس اپنی قوم اور اپنے شہر میں چلےجائیں گے۔‘‘ نبی مکرمﷺ نے تبسّم فرماتے ہوئے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا ’’نہیں، بلکہ اب خون کے ساتھ خون اور قبر کے ساتھ قبر ہے۔ اب میں تمہارا ہوں اور تم میرے ہو۔ جس سے تم لوگ جنگ کرو گے، اُس سے میں جنگ کروں گا۔ جس سے تم صُلح کروگے، اُس سے میں صُلح کروں گا۔‘‘ اس پر سب نے نہایت رضا و رغبت کے ساتھ بیعت کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ (سیرت ابنِ اسحاق، ص 326)۔ حضرت عباسؓ محفل میں موجود تھے، وہ فرماتے ہیں کہ ’’حضور اکرمﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت سب سے پہلے حضرت اسعدؓ بن زرارہ کو نصیب ہوئی۔ پھر براءؓ بن معرور اور پھر اسیدؓ بن حضیر نے حاصل کی۔ (رحمۃ للعالمین، 183/1)۔

بارہ نقباء کا انتخاب: بیعت کی تکمیل کے بعد حضوراکرم ﷺ نے فرمایا، ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں سے بارہ نقیب منتخب فرمائے تھے۔ اب تم لوگ بھی اپنی قوم کے بارہ نقیب چُن لو۔ یہ لوگ اپنی قوم کے تمام معاملات کے نگراں، کفیل اور ذمّے دار ہوں گے۔‘‘ چناں چہ فوری طور پر بارہ نقیب چُن لیے گئے، نو قبیلۂ خزرج اور تین قبیلۂ اوس سے۔ آپؐ نے ان نقیبوں سے حلف لیا اور سب کو واپس یثرب جانے کی ہدایت فرمادی۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ ’’مجھ سے ایک انصاری نے بیان کیا کہ اس موقعے پر حضرت جبرائیل نشان دہی فرماتے جاتے تھے۔‘‘ (زرقانی، 317/1)۔

یثرب کے پہلے انصار قیدی: ابھی انصار منیٰ سے رخصت ہی ہوئے تھے کہ بیعت کی خبر نے قریشِ مکّہ کو غضب ناک کردیا۔ فوری طور پر سواروں کے ایک تیز رفتار دستے کو انصار کے تعاقب میں روانہ کیا گیا۔ دستے میں شامل سب انصار آگے نکل چکے تھے، لیکن سعد بن عبادہؓ اُن کے ہاتھ لگ گئے، لہٰذا اُن کے ہاتھ پائوں باندھے اور انہیں زدو کوب کرتے ہوئے مکّہ لے آئے۔ یہ خبر مطعم بن عدی اور حارث بن حرب کو پہنچی، تو وہ فوری طور پر جائے وقوع پر پہنچے اور حضرت سعدؓ پر نظر پڑتے ہی چیخ اٹھے،’’قریش کے لوگو! غضب ہوگیا۔ تم جس شخص کو گرفتار کرکے لائے ہو، یہ انصار کا وہ سردار ہے، جس کی پناہ میں اہلِ مکّہ کے قافلے یثرب سے بحفاظت گزرتے ہیں۔‘‘ یہ جاننے کے بعد اُن لوگوں نے حضرت سعدؓ کو اونٹ پر بٹھا کر یثرب روانہ کردیا۔ (سیرت ابنِ ہشام، 66/2)۔

یثرب سے مدینہ منورہ ..... چند ایمان افروز یادیں

مکّہ سے یثرب تک کا 13سالہ جان گسل سفر کفار کے ظلم و ستم اور تلواروں کے سائے میں عبور کیا گیا۔ اس طویل اور پُرکٹھن سفر کے دوران آنحضرتﷺ اور اُن کے رفقاء نے خود کو جان جوکھوں میں ڈال کر بے سرو سامانی کی حالت میں آگ و خون کا دریا عبور کیا اور ایک ان جان و بیمار سرزمین پر قدم فرما ہوکر اُسے ایک پُربہار، بابرکت اور ایمان افروز اسلامی ریاست میں تبدیل کردیا۔ پھر جہاں سے نمودار ہونے والی نبوت کی نورانی شعائوں نے دنیا کو ایک عظیم اسلامی انقلاب سے ہم کنار کرکے عزم و ہمّت، عمل و بیداری کی ایک عظیم، لازوال مثال قائم کی۔

اَن جان راہوں کے مسافر: قدرت کے فیصلے انسانی سوچ سے ماورا ہوتے ہیں، جو تاریخ کے صفحات پر نقش ہوکر نوعِ انسانی کے لیے تاحیات فلاح و نجات کا باعث بنتے ہیں، قوموں کو بے داری کی امنگ، زندگی گزارنے کا ڈھنگ اور عزم و استقلال کا درس دیتے ہیں، شہر کو خیر و فلاح کا داعی، حق و سچّائی کا علَم بردار بناتے ہیں اور باطل قوتوں سے ٹکرا جانے کا حوصلہ پیدا کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک فیصلہ قدرت نے اہلِ یثرب کے ساتھ کیا اور سرزمینِ یثرب کو کفر و جہالت کے لق و دق صحرا میں پہلی اسلامی ریاست کے عظیم منصب کے لیے منتخب فرمایا۔ 

مکّہ مکرّمہ، اللہ ربّ العزت کا پسندیدہ ترین شہرہے، جسے ربِ کعبہ نے قرآن میں مختلف ناموں سے یاد فرمایا۔ مکّہ مکرّمہ، بیت المعمور کے سائے میں اللہ کا پہلا گھر، نبی آخرالزماںؐ کی جائے پیدائش… لیکن جب اس شہر کے باسیوں نے اللہ کے رسولﷺ کو ستانا اور شیطان کے پیروکار بن کر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑنا شروع کیے اورجن اذیّتوں سے انبیائے سابقین گزرے، اُن سب کا کوہِ گراں ایک درِّیتیم اور اُن کے رفقاء کے سَروں پر ڈھادیا۔ اپنے ہم وطن، اپنے قبیلے اور اپنے خاندان کے لوگ ہی خون کے پیاسے ہوگئے… تو ربّ ذوالجلال کے حکم پر یثرب سے آنے والی مشک بار ہوائوں کے جھونکوں نے کفرو الحاد کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اُمیدوں کے چراغ جلادیئے۔ 

یثرب سے توحید کی فضلِ بہار نے اہلِ ایمان کو محبّتوں کے سندیسے بھیجے اور اپنے شہر، گھر اور اپنی بانہوں کو اہلِ مکّہ کے لیے وَا کردیا۔ پھر اہلِ فلک نے دیکھا کہ حق کے دیوانے راتوں کی تاریکی میں دشمنوں سے چُھپ کر اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر، اپنے پیاروں کو تڑپتا، بچّوں کو بلکتا چھوڑ کر، بے سروسامانی کی حالت میں خالی ہاتھ، پُرنم آنکھوں اور اُداس دل کے ساتھ اَن جان راہوں کی جانب چل دیئے کہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کا یہی حکم تھا۔

یثرب کی جانب پہلی ہجرت: آنحضرتﷺ کے رضاعی بھائی اور پھوپھی برّہ بنت عبدالمطلب کے صاحب زادے حضرت ابو سلمہؓ یثرب ہجرت کرنے والے پہلے صحابی تھے۔ اُن کے قبیلے بنو مخزوم نے اُن پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے، ان سے متعلق سُن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ چناں چہ حضوراکرمﷺ کی اجازت سے ایک صبح اپنی اہلیہ اور کم سِن بچّے کے ساتھ اونٹ کی نکیل پکڑ کر خاموشی سے یثرب کی راہ چل دیئے۔ اُن کی پہلی ہجرت حبشہ کی جانب تھی۔ ابنِ اسحاق کے مطابق، یثرب ہجرت کا واقعہ بیعتِ عقبہ ثانیہ سے ایک سال پہلے کا ہے۔ (سیرتِ ابنِ ہشام، 81/2) بیعت عقبہ اولیٰ کے بعد حضرت مصعبؓ اور ابن امِّ مکتومؓ نے مدینے میں اسلام کے لیے بے پناہ خدمات انجام دیں۔

حضرت امِّ سلمہؓ کی داستانِ ہجرت: حضرت امِّ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ’’ مَیں اور میرا بچّہ سلمہ اونٹ پر سوارتھے، جب کہ میرے شوہر اونٹ کی نکیل پکڑے یثرب کی جانب محوِ سفر تھے کہ اچانک میرے میکے ’’بنو مغیرہ‘‘ کے چند مسلّح نوجوانوں نے ہمارا راستہ روک لیا۔ اُن میں سے ایک نے ابو سلمہؓ سے اونٹ کی نکیل چھینی اور بولا ’’ابوسلمہؓ، کدھر کا ارادہ ہے؟‘‘ ابو سلمہؓ نے جواب دیا ’’ہم یثرب جارہے ہیں۔‘‘نوجوان نے سخت لہجے میں پوچھا ’’لیکن تم بنو مغیرہ کی لڑکی کو کیوں لے جارہے ہو؟‘‘ ابو سلمہؓ نے کہا ’’یہ میری اہلیہ ہیں۔ تم لوگوں نے اُن کا نکاح مجھ سے کیا ہے۔‘‘ نوجوان سختی سے بولا ’’کچھ بھی ہو، تم اسے نہیں لے جا سکتے۔‘‘ یہ کہہ کر اُن لوگوں نے اونٹ کا رُخ مکّے کی جانب موڑ دیا۔ 

بات مکّے میں پھیل چکُی تھی، چناں چہ کچھ ہی دیر میں ابو سلمہؓ کے قبیلے بنو عبدالاسد کے لوگ بھی آگئے اور غصّے سے بولے ’’تم نے ہمارے لڑکے سے اپنی لڑکی چھین لی، اب ہم اپنے بچّے کو تمہارے حوالے نہیں کرسکتے۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے زبردستی میرے بچّے کو مجھ سے چھین لیا اور میرے روتے بلکتے معصوم بچّے کو ساتھ لے کر چلتے بنے۔ اس کے بعد ابو سلمہؓ مایوسی کی حالت میں تنہا یثرب کی جانب چلے گئے۔‘‘ امِّ سلمہؓ کہتی ہیں کہ ’’مَیں روزانہ صبح ابطح پہنچ جاتی، جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا اور شام تک روتے ہوئے اپنے خاندان کے ملنے کی دُعا کرتی رہتی۔ 

یوں ایک سال کا عرصہ بیت گیا، بالآخر میرے قبیلے والوں کو مجھ پر رحم آگیا۔ دوسری طرف ایک سال سے ماں کی یاد میں معصوم بچّے کی چیخوں سے بنو عبدالاسد بھی عاجز آچکے تھے کہ ان چیخوں نے اُن کے دِلوں کو دہلا دیا تھا اور ان کی عورتوں نے بھی لعن طعن شروع کر دی تھی۔ جب انہیں بنو مغیرہ کے فیصلے کا علم ہوا، تو انہوں نے موقع غنیمت جانا اور بچّے کو میرے پاس بھجوادیا۔‘‘ (سیرت ابنِ ہشام، 81,82/2)۔

مشرک سردار امِّ سلمہؓ کا محافظ: امِّ سلمہؓ کہتی ہیں کہ ایک صبح میرے قبیلے والوں نے ہم ماں بیٹے کو اونٹ پر بٹھا کر یثرب جانے والی شاہ راہ پر چھوڑ دیا۔ یہ زندگی میں میرا پہلا تنہا سفر تھا، اَن جان اور طویل راستے کی وجہ سے خوف زدہ تھی اور انتہائی پریشان بھی، لیکن مجھے اپنے اللہ پر بھروسا تھا۔ ابھی میری اونٹنی تیغم کے قریب ہی پہنچی تھی کہ اچانک تلوار بردار ایک شخص نے ہمارا راستہ روک لیا۔ 

اُس نے غور سے میری جانب دیکھا اور گرج دار آواز میں بولا ’’اے بنوامیّہ کی بیٹی! تنہا کدھر جارہی ہو؟‘‘ مَیں نے کہا کہ ’’مَیں اپنے شوہرکے پاس یثرب جا رہی ہوں۔‘‘ اس نے بارُعب لہجے میں پوچھا‘‘ تمہارے ساتھ تمہارا کوئی رشتے دار کیوں نہیں ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا کہ ’’اللہ اور اس معصوم کے سوا میرے ساتھ اور کوئی نہیں ہے…‘‘ کچھ لمحوں کی خاموشی ہوئی، تو مَیں نے دیکھا کہ میرے راستے میں مکّہ کا کلید بردار، قریش کے قبیلے بنی عبدالدار کا نام وَر جنگجو سردار اور مسلمانوں کا جانی دشمن، عثمان بن طلحہ کھڑا ہے، مَیں کانپ اُٹھی۔ ابھی مَیں اپنے اللہ سے اپنی عزّت و عصمت کی حفاظت کی دُعا ہی مانگ رہی تھی کہ اس مشرک سردار کی بھاری آواز گونجی ’’خدا کی قسم! اس طویل سفر پر مَیں تمہیں تنہا ہرگز نہیں جانے دوں گا۔‘‘ 

پھر اُس نے میرے اونٹ کی نکیل تھامی اور چلنے لگا۔‘‘ امِّ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ ’’واللہ! میں نے عثمان بن طلحہ سے زیادہ شریف انسان نہیں دیکھا، جب وہ کسی منزل پر پہنچتے، تو میرے اونٹ کو بٹھا کر الگ ہٹ جاتے۔ اور جب مَیں بچّے کو لے کر اُتر جاتی، تو وہ اونٹ کو کسی درخت سے باندھ کر دُور کسی درخت کے نیچے لیٹ جاتے، پھر جب چلنے کا وقت آتا، تو اونٹ کو لاکر بٹھاتے اور الگ ہٹ کر کھڑے ہوکر مجھ سے کہتے کہ ’’سوار ہوجائو۔‘‘ میرے سوار ہونے کے بعد وہ اونٹ کی نکیل پکڑ کر روانہ ہوجاتے۔ یثرب تک کا سارا راستہ انہوں نے اسی طرح پیدل طے کیا اور جب قباء کی آبادی پر نظر پڑی، تو مکّے کے اس مشرک سردار نے جُھکی نظروں کے ساتھ انتہائی احترام سے کہا ’’اے اُمِّ سلمہؓ! وہ سامنے قباء کی بستی ہے۔ 

یہاں سے یثرب شروع ہوجاتا ہے۔ میرا اس سے آگے جانا مناسب نہیں۔ اس بستی میں (تمہارے) اللہ کے ماننے والے بہت سے لوگ ہیں۔ تم بے خطر ہو کر چلی جائو۔ آگے جا کر کسی سے بھی عبداللہ ابو سلمہؓ کا پتا پوچھ لینا۔‘‘ عثمان بن طلحہ نے اونٹ کی نکیل میری جانب بڑھائی، میں نے اونٹ کو قباء کی جانب ہانکا اور وہ پیدل مکّہ کو روانہ ہوگئے۔ امِّ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ ’’خدا کی قسم! میں نے عثمان بن طلحہؓ سے زیادہ پورے عرب میں کوئی نیک اور رحم دل آدمی نہیں دیکھا۔ (تاریخ ابنِ کثیر 169/3،سیرت سرورِ عالمؐ 714,715/2) اس واقعے سے پہلے بیعتِ عقبہ اولیٰ ہوچکی تھی اور حضرت مصعب بن عمیرؓ اور ابنِ امِّ مکتومؓ یثرب میں دین کی تعلیم و تبلیغ میں دن رات مصروف تھے۔ جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ مشرف بہ اسلام ہوچُکے تھے۔ (جاری ہے)