سی ای او کانفرنس ایشیا میں شرکت

June 13, 2016

گزشتہ دنوں سی ای او کلب نے لاہور میں ’’ سی ای او کانفرنس ایشیاء2016‘‘کا انعقاد کیا۔ یہ کانفرنس پاکستان میں کارپوریٹ اداروں کی اہم سالانہ تقریب سمجھی جاتی ہے جس میں ہر سال پاکستان کے 100 کامیاب اداروں کے سربراہان اور کمپنیوں کو ایوارڈز دیئے جاتے ہیں۔ یہ میرے لئے فخر کی بات ہے کہ مجھے گزشتہ کئی سالوں سے 100 کامیاب سی ای اوز ایوارڈ سے نوازا جارہا ہے اور اس سال بھی میں نے تقریب کے مہمان خصوصی گورنر پنجاب ملک محمد رفیق راجوانہ سے سی ای او ایوارڈ 2016ء وصول کیا۔سی ای او کلب ہر سال 100 اداروں کے سی ای اوز کی کامیاب اسٹوریز پر ایک کتاب بھی شائع کرتا ہے جو بزنس مینجمنٹ کے طالبعلموں اور نوجوانوں کو ملک کے کامیاب اداروں اور ان کے سی ای اوز کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔
سی ای او کانفرنس سے ملک کے ممتاز اداروں کے سی ای اوز کو خطاب کیلئے بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ مجھے بھی اس سال کانفرنس میں پاکستان کے پوٹینشل پر خطاب کیلئے مدعو کیا گیا تھا۔ میں نے کانفرنس کے شرکاء کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، قیام پاکستان کے بعد صنعتی شعبے میں زیرو سے سفر شروع کرنے والا پاکستان آج دنیا کی 46 ویں بڑی معیشت ہے۔ اسلامی دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت پاکستان کے پاس انتہائی تربیت یافتہ اور جدید اسلحہ سے لیس دنیا کی پانچویں بڑی فوج ہے جبکہ ملک میں جیٹ فائٹر، آبدوزیں، میزائل اور دیگر جنگی ساز و سامان ملکی ضروریات اور ایکسپورٹ کیلئے تیار کئے جارہے ہیں۔ آج پاکستان کا سالانہ ریونیو 3 کھرب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔ قدرت نے پاکستان کو بے شمار معدنی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ جیولوجیکل سروے کے مطابق ہمارے ملک میں 6 لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے میں معدنی ذخائر موجود ہیں جن میں کوئلے، تانبے، سونے، قدرتی گیس، تیل، ماربل، قیمتی پتھر، گرنائیڈ، نمک اور چونے کے ذخائر قابل ذکر ہیں۔ پاکستان دنیا میں معدنی ذخائر رکھنے والا امیر ترین لیکن اسے استعمال کرنے میں غریب ترین ملک ہے۔ ملک میں دنیا کے کوئلے کے چوتھے بڑے جبکہ سونے (100 ارب ڈالر) اور تانبے (27 ارب ڈالر) کے پانچویں بڑے ذخائر موجود ہیں لیکن 6 دہائیاں گزرنے کے باوجود بدقسمتی سے ہم ان قدرتی نعمتوں کو زمین سے نکال کر فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ پاکستان میں تھر اور لاکھڑا کے مقام پر دنیا کے تیسرے بڑے کوئلے کے 185 ارب ٹن کے ذخائر پائے جاتے ہیں جو سعودی عرب اور ایران کے تیل کے مجموعی ذخائر سے زیادہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو چاروں موسم عطا کئے ہیں اور ملک میں دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی نظام پایا جاتا ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں کینو کی پیداوار میں پہلے، چنے کی پیداوار میں دوسرے، کپاس، چاول، کھجور اور خوبانی کی پیداوار میں چوتھا بڑا ملک ہے۔ اسی طرح پاکستان مچھلی، دودھ اور گنے کی پیداوار میں پانچویں، گندم کی پیداوار میں چھٹے، خشک میوہ جات، پیاز اور آم کی پیداوار میں ساتویں، قیمتی پتھروں اور سنگ مرمر کی پیداوار میں آٹھویں، چینی اور حلال گوشت کی پیداوار میں نویں جبکہ سیمنٹ اور چاول کی پیداوار میں بارہویں نمبر پر ہے۔پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ گھی پیدا کرنے والا ملک ہے جبکہ ملک میں دنیا کے سب سے بڑے نمک کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ملک میں دنیا کے تمام بڑے ٹیکسٹائل برانڈز تیار کئے جاتے ہیں۔ چین جو چند سال قبل تک فٹ بال بنانے والا سب سے بڑا ملک تھا لیکن اب پاکستان فٹ بال بنانے میں سرفہرست ہے۔ اسی طرح پاکستان خطے میں سیمنٹ ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں اسٹیل، سیمنٹ، آٹو موبائل، شوگر، فرٹیلائزر، ٹیکسٹائل، ویجی ٹیبل گھی، صنعتی کیمیکل،پیٹرولیم پروڈکٹس، آٹو پارٹس، بجلی کے پنکھوں کی صنعتوں نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ موجودہ حالات میں ’’ضرب عضب‘‘ اور ’’کراچی آپریشن‘‘ کی وجہ سے ملک میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہوئی ہے۔ بجلی اور گیس کی پیداوار میں اضافے سے ملک میں انرجی کے بحران پر کافی حد تک قابو پایا جاچکا ہے۔
پاکستان میں پہلی بار ایل این جی کی امپورٹ سے آج ہماری صنعتوں میں لوڈشیڈنگ تقریباً ختم ہوچکی ہے اور حکومت نے 2018ء تک ملک سے مکمل لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد ہماری صنعتوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافے سے ملکی جی ڈی پی میں کم از کم 2% اضافہ ہوگا۔ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور (CPEC) کے انرجی اور انفرااسٹرکچر منصوبوں میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو دنیا نے پاکستان کیلئے گیم چینجر قرار دیا ہے جس سے ملک میں بے شمار نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ دنیا میں منی لانڈرنگ کی روک تھام کی وجہ سے ہماری رقوم موجودہ حالات میں پاکستان میں سب سے زیادہ محفوظ ہیں جس کو ملک میں محفوظ سرمایہ کاری میں لگاکر دنیا میں سب سے زیادہ منافع کمایا جاسکتا ہے۔ متبادل توانائی کے منصوبوں میں حکومت نے سرمایہ کاری پر تقریباً 17% اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں میں 27% پرکشش منافع دینے کی گارنٹی دی ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے 37000 کی بلند ترین سطح عبور کرلی ہے اور بہت جلد پاکستان کا ابھرتے ہوئے معاشی ممالک کے EMI انڈیکس میں شامل ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان کے اس پوٹینشل کو دیکھتے ہوئے دنیا کے ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کا سوچ رہے ہیں۔ ہمیں صرف ملک میں سیاسی استحکام، بہتر امن و امان کی صورتحال اور پالیسیوں کا تسلسل قائم رکھنا ہوگا۔
کانفرنس کی شام اندرون لاہور وال سٹی پروجیکٹ کے ڈائریکٹر جنرل کامران لاشاری نے لاہور کے تاریخی مقام ’’شاہی حمام‘‘ میں کانفرنس کے شرکاء کے اعزاز میں عشایئے اور محفل موسیقی کا اہتمام کیا جس میں مقامی فنکاروں نے بابا بلھے شاہ کے صوفیانہ کلام پیش کئے جبکہ محفل میں لاہور کے مشہور ڈھول تاپ نے پاکستان بھر سے آئے ہوئے مہمانوں کو بے حد محظوظ کیا۔ عشایئے سے قبل شرکاء کو دلی دروازے میں مغلیہ دور کے شاہی حمام کا دورہ کروایا گیا۔ 1955ء میں شاہی حمام کو ثقافتی اثاثہ کے طور پر تسلیم کیا گیا جو شہر لاہور سے تقریباً 12 فٹ نیچے ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لاہور تقریباً 6 سے 7 ہزار سال پرانا شہر ہے۔ دلی دروازے پہنچنے پر وال سٹی پروجیکٹ کے ٹورسٹ گائیڈ نے ہمیں علاقے کی عمارتوں اور انکی تاریخ کے بارے میں بتایا۔ وہ ہمیں پہلے دنیا کی تنگ ترین گلی کوچہ غبارچیاں لے گئے۔ میں نے زندگی میں اتنی پتلی گلی کبھی نہیں دیکھی جس گلی کے دونوں طرف تین تین، چار چار منزلہ مکان ہیں اور مکانوں کے درمیان اتنی پتلی گلی ہے جس سے بمشکل ایک دبلا پتلا شخص ہی گزر سکتا ہے۔ میرے ساتھ میرے دوست کراچی کے ایک ہوٹل کے چیئرمین بھی موجود تھے جو اپنی جسامت کی وجہ سے بمشکل اس طویل گلی سے گزرسکے۔ شاہی حمام سے ملحق دنیا کی سب سے پرانی مصالحہ جات اور اناج کی ’’اکبری منڈی‘‘ ہے۔ ہم شاہی حمام کی عمارت میں داخل ہوئے تو عمارت کی خوبصورتی نے دل چھولیا‘ 21 کمروں پر مشتمل عمارت میں گرم پانی اور بھاپ کا زیر زمین نظام تھا، تین بھٹیاں تھیں، بھٹیوں میں لکڑیاں جلائی جاتی تھیں، گرم ہوا عمارت کے نیچے موجود درجنوں سرنگوں سے گزرتی ہوئی،بھاپ اڑاتی ہوئی حماموں تک پہنچتی تھی ، کمروں میں قدرتی روشنی کیلئے چھتوں پر روشن دان بنائے گئے تھے۔حمام کے اندر ٹھنڈے پانی کی آبشاریں اور فوارے بھی تھے جبکہ بھاپ کی ترسیل کا نظام بھی موجود تھا، دیواروں پر پچی کاری اور تصویریں تھیں، یہ حمام شاہ جہاں کے دور میں وزیر خان نے بنوایا تھا۔ شاہی حمام کی بحالی کیلئے تکینکی معاونت آغا خان ٹرسٹ فار کلچر اور مالی معاونت ناروے کی حکومت نے کی جبکہ حمام کی بحالی کیلئے سری لنکن ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں۔ پاکستان میں موہنجو ڈرو، ہڑپہ اور شاہی حمام جیسے تاریخی مقامات دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے کشش رکھتے ہیں اور ہم سیاحت کو فروغ دے کر ملک کیلئے کثیر زرمبادلہ کماسکتے ہیں۔