لوگ کہاں جائیں؟

January 31, 2023

جنرل امجد شعیب نے طویل عرصے تک پاک فوج میں ذمہ داریاں نبھائیں۔ایک سچے پاکستانی کے طور پر انہیں حالیہ صورتحال پر بہت پریشانی کا سامنا ہے، وہ آنکھوں کے سامنے اجڑتے ہوئے باغ کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ’’مجھے تو یوں لگتا ہے کہ کسی کو یہ مشن دیا گیا ہے کہ تو نے پاکستان کو مکمل طورپر برباد کرنا ہے، تہس نہس کرنا ہے اور اس مشن کی تکمیل کے لئے پورا سسٹم کام کر رہا ہے، اس کے مضمرات بڑے سیریس ہیں ‘‘۔سنگا پور کے لیڈر لی کوان یو کہتے ہیں ’’جب تم کسی شہر میں چوروں کو حکمراں بنتا دیکھو تو اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں یا تو اس ملک کا سسٹم کرپٹ ہے یا پھر وہاں کے عوام بے شعور ہیں‘‘۔بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا فرمان ہے’’ عزت و وقار انسان اور انسانی زندگی کا ہوتا ہے، اداروں کی عزت وقار نہیں، ذمہ داریاں ہوتی ہیں‘‘مشہور فلاسفر لینن کا کہنا ہے ’’بدترین غلام وہ ہے جو اپنی آزادی کیلئے کوشش کرنے کی بجائے اپنی غلامی کا جواز پیش کرے ‘‘ پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما عمران خان کہتے ہیں ’’کوفہ کے لوگوں نے ڈر کی وجہ سے یزید کاساتھ دیا حالانکہ وہ جانتے تھے کہ نبی ﷺ کا نواسہ حق پر ہے‘‘۔عالم اسلام کے ایک بڑے مفکر پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان کے نظام پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جاگیردار ، سرمایہ دار اور فوجی ڈکٹیٹر تینوں کی نفسیات ایک ہے، تینوں کی نفسیات جمہوریت کی نفی پر قائم ہے۔ جاگیردار کی نشوونما ایسے ماحول میں ہوتی ہےجہاں اسے جو پسند آیا اسے اٹھا لیا، اسے قوم کی کوئی بھی بیٹی اپنی بیٹی دکھائی نہیں دیتی، جس نے سراٹھایا اسے قتل کروا دیا، اسے کسی کی بہن بیٹی کی عزت سے کوئی غرض نہیں ہوتی بلکہ جب اس کے حوالے اقتدار ہوتا ہے تو وہ ملک کو اپنی جاگیرکی طرح چلانے کی کوشش کرتا ہے جس میں کوئی سر اٹھا کے نہ چل سکے، سرمایہ دار کی نفسیات یہ ہے کہ وہ پورے ملک کو اپنی انڈسٹری کے طور پر چلانے کی کوشش کرتا ہے ۔سرمایہ دار نے پوری زندگی میں ایک ہی سبق سیکھا ہے کہ دنیا کا کوئی کام پیسے کے بغیر نہیں ہوتا اور کوئی کام ایسا نہیں کہ پیسہ لگائیں تو ہو نہ سکے۔ایک ہی اصول ہے اس کے ہاں، وہ ہر ایک کو خریدنا جانتا ہے، ایک چپراسی سے لے کر بجلی کے لائن مین تک، ایک ای ٹی او سے انکم ٹیکس کمشنر تک، اسے ہر ایک کو پیسے سے خریدنا سیکھا ہے، جب وہ ملک کے اقتدار پر آتا ہے تو تمام اداروں کو پیسے سے خریدنا چاہتا ہے، اس سے پورے کے پورے ملک کا سسٹم تباہ وبرباد ہو جاتا ہے، اس کے ذہن میں بھی جمہوریت کی نفی ہے ۔فوجی ڈکٹیٹرنے بھی زندگی بھر ایک ہی بات سیکھی ہے کہ جو حکم دوں، آگے سے کسی کو انکار کی جرأت نہ ہو، جب وہ اقتدار میں آتا ہے تو وہ پورے ملک کو بٹالین کی طرح چلانا چاہتا ہے۔ پاکستان میں زمام اقتدار بدل بدل کے انہی تین طبقات کے پاس رہی، یہی وجہ ہے کہ چہرے ہی بدلتے رہے نظام نہ بدلنا تھا، نہ بدل سکا اور نہ بدلے گا جب تک اقتدار کی کرسیوں پر جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرے قابض ہیں، اس وقت تک اس ملک کی تقدیر، اس کا نظام، اس ملک کے غریب کا مقدر نہیں بدل سکتا۔ اگر غریب کو اپنا مقدر بدلنا ہے تو اقتدار ان سے چھیننا ہو گا، ایوانوں سے ان کو نکالنا ہو گا، انقلاب نعروں سے نہیں آئے گا، انقلاب خون مانگتا ہے ، انقلاب قربانیاں مانگتا ہے‘‘۔ڈاکٹر طاہر القادری کی ان باتوں کو نظر انداز کرنا مشکل ہے کیونکہ یہی وہ تلخ حقائق ہیں جو 75برس سے پیش آتے رہے، جن تین طبقات کی طرف انہوں نے اشارہ کیا یہی طبقات تو اقتدار پر قابض رہے، یہی وہ لوگ ہیں جو ملک کو ترقی کے راستے پر لے جانا نہیں چاہتے، یہی اہل اقتدار اپنے لوگوں کو ترقی سے محروم رکھنا چاہتے ہیں، اقتدار کے اس کھیل نے ہمیں ایک ایسے موڑ پر لاکھڑا کیا ہے جہاں سے وہ سوال ابھرنا شروع ہو گیا ہے کہ کیا یہ نظام کچھ کر بھی سکتا ہے یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ نظام ہی فیل ہو گیا ہو؟ یا نظام ہی جواب دے گیا ہو؟ چونکہ اس ملک کی رہائشی آبادیوں میں طبقاتی تقسیم واضح نظر آتی ہے، اس ملک کے تعلیمی اداروں میں طبقاتی تقسیم بول رہی ہے، اس ملک کی انتظامی مشینری میں بھی طبقاتی درجہ بندی ہے،اس ملک کے ایوانوں میں اصل عوامی نمائندے تو پہنچ ہی نہیں پاتے بلکہ ان کیلئے تو دروازے بند ہیں ، وی آئی پی کلچر یہاں کے بوسیدہ نظام کی گواہی دے رہا ہے۔

یہاں کا سیاسی نظام بھی عجیب ہے جہاں ایک مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والا فواد چوہدری سیاست میں قدم آگے بڑھاتا ہے تو اسے محض ’’منشی‘‘ کہنے پر غدار بنا دیا جاتا ہے حالانکہ میرے نزدیک تو وہ لوگ غدار ہیں جو اس ملک کی دولت لوٹ کر باہر لے گئے ، ایسے تمام لوگوں پر غداری کا مقدمہ چلنا چاہئے کیونکہ اپنے وطن کو لوٹنا کسی غداری سے کم نہیں مگر یہاں کسی کو کیا معلوم، نہ اپنی قدر منزلت اور نہ ہی وطن کی محبت، احمد فراز کی ایک غزل یاد آ رہی کہ

کس طرف کو چلتی ہے اب ہوا نہیں معلوم

ہاتھ اٹھا لئے سب نے اور دعا نہیں معلوم

موسموں کے چہرے سے زردیاں نہیں جاتیں

پھول کیوں نہیں لگتے خوش نما نہیں معلوم

رہبروں کے تیور بھی رہزنوں سے لگتے ہیں

کب کہاں پہ لٹ جائے قافلہ نہیں معلوم

سرو تو گئی رت میں، قامتیں گنوا بیٹھے

قمریاں ہوئیں کیسے، بے صدا نہیں معلوم

آج سب کو دعویٰ ہے اپنی اپنی چاہت کا

کون کس سے ہوتا ہے کل جدا نہیں معلوم

منزلوں کی تبدیلی بس نظر میں رہتی ہے

ہم بھی ہوتے جاتے ہیں کیا سے کیا نہیں معلوم

ہم فراز شعروں سے دل کے زخم بھرتے ہیں

کیا کریں مسیحا کو جب دوا نہیں معلوم