رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے

February 01, 2023

رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے

درد پھولوں کی طرح مہکے اگر تو آئے

بھیگ جاتی ہیں اس امید پہ آنکھیں ہر شام

شاید اس رات وہ مہتاب لب جو آئے

ہم تری یاد سے کترا کے گزر جاتے مگر

راہ میں پھولوں کے لب سایوں کے گیسو آئے

وہی لب تشنگی اپنی وہی ترغیب سراب

دشت معلوم کی ہم آخری حد چھو آئے

مصلحت کوشئ احباب سے دم گھٹتا ہے

کسی جانب سے کوئی نعرۂ یاہو آئے

سینے ویران ہوئے انجمن آباد رہی

کتنے گل چہرہ گئے کتنے پری رو آئے

آزمائش کی گھڑی سے گزر آئے تو ضیاؔ

جشن غم جاری ہوا آنکھوں میں آنسو آئے

گماں تھا یا تری خوشبو یقین اب بھی نہیں

گماں تھا یا تری خوشبو یقین اب بھی نہیں

نہیں ہوا پہ بھروسہ تو کچھ عجب بھی نہیں

کھلیں تو کیسے کھلیں پھول اجاڑ صحرا میں

سحاب خواب نہیں گریۂ طلب بھی نہیں

ہنسی میں چھپ نہ سکی آنسوؤں سے دھل نہ سکی

عجب اداسی ہے جس کا کوئی سبب بھی نہیں

ٹھہر گیا ہے مرے دل میں اک زمانے سے

وہ وقت جس کی سحر بھی نہیں ہے شب بھی نہیں

تمام عمر ترے التفات کو ترسا

وہ شخص جو ہدف ناوک غضب بھی نہیں

گلا کرو تو وہ کہتے ہیں یوں رہو جیسے

تمہارے چہروں پہ آنکھیں نہیں ہیں لب بھی نہیں

مفاہمت نہ کر ارزاں نہ ہو بھرم نہ گنوا

ہر اک نفس ہو اگر اک صلیب تب بھی نہیں

برا نہ مان ضیاؔ اس کی صاف گوئی کا

جو درد مند بھی ہے اور بے ادب بھی نہیں