فواد چوہدری کی درخواستِ ضمانت منظور

February 01, 2023

فواد چوہدری—فائل فوٹو

اسلام آباد کی عدالت نے الیکشن کمیشن کے خلاف نفرت پھیلانے کے کیس میں پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی درخواستِ ضمانت منظور کر لی۔

اسلام آباد کی عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج فیضان گیلانی نے ضمانت منظور کی۔

عدالت نے 20 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض فواد چوہدری کی ضمانت منظور کی۔

جج نے ریمارکس دیے کہ فوادچوہدری کو ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا، پارلیمنٹیرینز کو ایسے بیانات نہیں دینے چاہئیں۔

ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدرگیلانی نے فواد چوہدری کی مشروط ضمانت منظور کی اور کہا کہ اس شرط پر ضمانت منظور کر رہا ہوں کہ فواد چوہدری دوبارہ ایسا بیان نہیں دیں گے۔

وکلاء کے دلائل

اس سے قبل فواد چوہدری کی درخواستِ ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت کے دوران فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان اور الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

اس موقع پر تفتیشی افسر نے کیس کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔

جج فیضان گیلانی نے فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان سے کہا کہ مبارک ہو، کیس کا ریکارڈ آ گیا ہے۔

وکیل بابر اعوان نے فواد چوہدری کی درخواستِ ضمانت پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید مدعیٔ مقدمہ ہیں، وہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں، الیکشن کمیشن کے سیکرٹری انفرادی طور پر خود ریاست نہیں، میرا سوال ہے کہ کیا الیکشن کمیشن حکومت ہے؟ الیکشن کمیشن ریاست نہیں، کسی کو کہنا کہ تمہارے خلاف کارروائی کروں گا، مطلب دھمکی دینا نہیں، بغاوت کی دفعہ انفرادی طور پر کچھ نہیں، بغاوت کی دفعہ کو سیاسی رنگ دیا گیا، لگانے کو تو مقدمے میں قتل کی دفعہ بھی لگا سکتے تھے، کیس ثابت ہونے پر ان دفعات پر 10 سے 15 سال کی سزا ہو سکتی ہے، جبکہ ان دفعات پر کم سے کم 3 سال سزا دی جاسکتی ہے، فواد چوہدری کو جھوٹے کیس میں نامزد کیا گیا، ان پر لگی دفعات پر عدالتوں کے کم فیصلے موجود ہیں، آج کل جو کیسز بن رہے ہیں اس کے بعد چند عدالتوں کے فیصلے آئے ہیں، قوم یقین نہیں رکھتی کہ 2 لفظ بولنے پر کسی پر ایسی دفعات لگا دی جائیں، میری استدعا ہے کہ فواد چوہدری کی درخواستِ ضمانت منظور کی جائے۔

جج نے وکیل بابر اعوان کو مقدمہ پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری نے مقدمے کے ایک مخصوص حصے تک تنقید کی، فواد چوہدری کی طرف سے گھر والوں کے بارے میں بات کرنے کا کیا مطلب ہے؟ فواد چوہدری سینئر وکیل اور پارلیمنٹیرین ہیں۔

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ماضی میں خاتون کو ٹریکٹر ٹرالی کہہ کر بھی مخاطب کیا گیا۔

جج فیضان گیلانی نے استفسار کیا کہ خاندانوں کے حوالے سے بات کرنے کا کیا مطلب ہے؟ پاکستان میں لٹریسی ریٹ آپ کو معلوم ہے کیا ہے؟ سیاسی لیڈر کا ایسی بات کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس سے قبل ہماری ایک کولیگ کے بارے میں بھی کہا گیا، اتنا آگے جانے کا کیا مطلب ہے؟

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ اس معاملے کو بھی میں نے جا کر حل کروا دیا تھا۔

وکیل بابر اعوان کے دلائل مکمل ہونے پر پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے فواد چوہدری کی درخواستِ ضمانت کی مخالفت کی اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے ملازم کو ٹارگٹ کر کے منشی کا لفظ استعمال کیا گیا، فواد چوہدری کے بیان سے عوام میں نفرت پھیلائی جا رہی ہے، انہوں نے ٹیلی ویژن پر کہا کہ ملک میں بغاوت فرض ہے، سوشل میڈیا پر طوفانِِ بدتمیزی جاری ہے، پولیس کی جانب سے ڈاکیومنٹری شواہد اکھٹے کیے گئے۔

جج نے استفسار کیا کہ منشی کے لفظ کو غلط کیوں سمجھا جا رہا ہے؟

پراسیکیوٹر کی جانب سے درخواستِ ضمانت کے خلاف دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کا فوٹو گرامیٹرک اور وائس میچ کا ٹیسٹ ہوا ہے۔

جج نے سوال کیا کہ اگر فواد چوہدری اپنا بیان مان رہے ہیں تو ٹیسٹ کیوں کروائے گئے؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے کہا کہ فواد چوہدری ٹرائل کے دوران اپنے بیان سے مُکر سکتے ہیں، بیان فواد چوہدری کا تھا جس کے لیے فوٹو گرامیٹرک ٹیسٹ کروایا گیا، فواد چوہدری کے بیان پر مزید تفتیش نہیں کرنی، وہ اپنے بیان کا اقرار کر رہے ہیں، مزید تفتیش کیس میں کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے۔