IMF کی سخت شرائط پر حکومتی رضامندی

February 06, 2023

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے منصب سنبھالتے ہی PTI حکومت اور مفتاح اسماعیل کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 200روپے تک محدود رکھیں گے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہیں بڑھائی جائیں گی، منی بجٹ کے ذریعے غریب عوام پر نئے ٹیکس نہیں لگائیں گے، ایکسپورٹ صنعتوں کو بجلی اور گیس کے رعایتی نرخ جاری رہیں گے اور بجلی، گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ نہیں ہوگا لیکن IMF اپنی شرائط منوائے بغیر معاہدے کی بحالی کے مذاکرات کیلئے تیار نہیں تھا۔ IMF پروگرام کی معطلی کے باعث ڈونرز ایجنسیوں، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور اسلامک ڈویلپمنٹ بینک نے پاکستان کیلئے نئی فنانسنگ روک دی جبکہ دوست ممالک نے اپنے سافٹ ڈپازٹ کی مدت میں توسیع اور نئی مالی امداد کو IMF پروگرام کی بحالی سے مشروط کردیا جس کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر آنے کے تمام دروازے بند ہوگئے لیکن بیرون ملک ڈالر جانے کے دروازے کھلے رہے۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں مسلسل ہورہی ہیں اور رواں مالی سال 2.8 ارب ڈالر کی مزید ادائیگیاں کرنی ہیں جس کے نتیجے میں ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 10سال کی کم ترین سطح 3 ارب ڈالر پر آگئے ہیں۔ پاکستانی روپیہ خطے کی کرنسیوں میں سب سے کمزور ثابت ہوا ہے جو انٹربینک میں 277روپے اور اوپن مارکیٹ میں 280پر پہنچ گیا ہے لیکن روپے کو فری فلوٹ کرنے سے پہلے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے 30روپے فرق کی وجہ سے پاکستان کی ترسیلات زر میں کمی ہوئی ہے کیونکہ بیرون ملک مقیم کچھ پاکستانیوں نے اتنے زیادہ فرق سے فائدہ اٹھانے کیلئے اپنی ترسیلات زر ہنڈی یا حوالے کے ذریعے پاکستان بھیجنے کو ترجیح دی جس کے باعث بینکنگ چینل سے ترسیلات زر میں کمی دیکھنے میں آئی جبکہ خام مال کی امپورٹ میں رکاوٹوں کی وجہ سے گزشتہ ماہ جنوری میں ملکی ایکسپورٹس میں 15 فیصد اور FBR کے پہلے 6 مہینے کے ریونیو ہدف میں 217 ارب روپے کی کمی ہوئی۔معاشی بحران کو دیکھتے ہوئے بالآخر حکومت نے IMF کی سخت ترین شرائط ماننے کی ہامی بھرلی جس کیلئے حکومت کو سخت اور غیر مقبول فیصلے کرنا پڑرہے ہیں۔ حکومت نے روپے کی قدر کے مصنوعی نظام کو ترک کرکے مارکیٹ مبنی فری فلوٹ نظام پر چھوڑ دیا جس کی وجہ سے جنوری سے اب تک انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں ریکارڈ 50روپے یعنی 20 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جس سے صرف ایک دن میں بیرونی قرضوں میں تقریباً 2800 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ قارئین!یہ وہ قرضے ہیں جو ہم نے دراصل لئے نہیں لیکن راتوں رات روپے کی قدر (ایکسچینج ریٹ) میں کمی کی وجہ سے ہمیں اضافی دینا پڑیں گے۔ اسٹیٹ بینک نے افراط زر کنٹرول کرنے کیلئے پالیسی ریٹ مزید بڑھاکر 17فیصد کردیا جس سے بینکوں کے شرح سود 19 سے 20 فیصد تک ہوگئی اور بزنس کی مالی لاگت میں شدید اضافہ ہوا جو نئی سرمایہ کاری کیلئے حوصلہ افزا نہیں۔ اتوار 29جنوری کو حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 35 روپے فی لیٹر کا اضافہ کردیا جس سے پیٹرول کی نئی قیمت 250 روپے اور ڈیزل کی نئی قیمت 263 روپے فی لیٹر ہوگئی ،جس سے جنوری میں مہنگائی (CPI) 1975ء کے بعد 48 سال میں ریکارڈ 28 فیصد تک پہنچ گئی، جس کے آنیوالے دنوں میں 32 فیصد ہونے کی توقع ہے کیونکہ IMF پیٹرولیم مصنوعات پر 17 فیصد سیلز ٹیکس اور 10 روپے فی لیٹر PDL بھی عائد کرنے کا مطالبہ کررہا ہے جس سے پیٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی ہوجائیں گی۔گزشتہ حکومت نےIMF کی مرضی کے بغیر ٹیکس ایمنسٹی کا اعلان کیا جس پر IMF نے معاہدہ معطل کردیا تاہم موجودہ حکومت کے IMF مطالبات پر رضامندی کے بعد IMF مذاکراتی ٹیم 31جنوری کو پاکستان آئی اور آرڈیننس اور منی بجٹ کے ذریعے اضافی ٹیکسز لگانے، گردشی قرضے کم کرنے کیلئے بجلی کے نرخوں میں 12.50 روپے فی یونٹ اور گیس کے نرخوں میں 74فیصد اضافہ، 283ارب روپے سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی، ادویات اور LPG کی قیمتوں میں 60روپے فی کلو اضافہ، سیلاب متاثرین کیلئے 500 ارب روپے کے اخراجات کی اجازت، بیورو کریسی کے اثاثوں کی تفصیلات اور 2017ء کے بے نامی ٹرانزیکشنزایکٹ پر عملدرآمد جیسی شرائط پیش کیں جبکہ حکومت نے پہلے مرحلے میں بجلی کے نرخ میں 6.32 روپے فی یونٹ اضافے اور 300 یونٹ تک سبسڈی ختم کرنے کی تجویز دی ہے ۔ IMF بجٹ خسارہ کم کرنے کیلئے 600ارب روپے کے اضافی ٹیکسز لگانے پر بھی زور دے رہا ہے مگر حکومت پہلے مرحلے میں 200ارب روپے کے اضافی ٹیکسز لگانے پر آمادہ ہے ۔ حکومت نے گردشی قرضے کم کرنے کیلئے IMF کو سرکلرڈیٹ مینجمنٹ پلان پیش کیا ہے لیکن IMF کو حکومتی مینجمنٹ پلان کے عملدرآمد پر تحفظات ہیں۔ وزیر خزانہ IMF معاہدے کی بحالی کیلئے دوست ممالک سے 4 سے 5 ارب ڈالر کے نئے سافٹ ڈپازٹس کیلئے بھی کوشاں ہیں تاکہ حکومت اور IMF کے مابین ڈیڈلاک ختم اور اسٹاف لیول معاہدہ کیا جاسکے۔معیشت کے طالبعلم کی حیثیت سے میرے نزدیک اگر IMF کے تمام مطالبات مان کر ان پر عملدرآمد کیا گیا تو ملک میں مہنگائی کا طوفان کھڑا ہوجائے گا جس سے بیروزگاری اور غربت میں مزید اضافہ ہوگا لیکن موجودہ حالات میں حکومت کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے!