بے نظیر بھٹو شہید اور فاروق لغاری!

February 13, 2023

فاروق لغاری مرحوم نے 1996ءمیں اپنی ہی جماعت کی حکومت کو برطرف کرکے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو شدید سیاسی دھچکا پہنچایا تھا۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کا فاروق لغاری سے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ ان کی حکومت برطرف کرنے سے قبل معروف صحافی عارف نظامی مرحوم نے یہ خبر شائع کی کہ فاروق لغاری اپنی ہی جماعت کی سربراہ بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کرکے اسمبلیاں تحلیل کرنے جارہے ہیں۔صبح اٹھ کر جب خبر بے نظیر بھٹو کے سامنے آئی تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے منہ سے یہ برجستہ جملہ نکلا کہ ’’فاروق بھائی ایسا نہیں کرسکتے‘‘یہ خبر جھوٹی ہے۔فاروق لغاری مرحوم سمجھتے تھے اسٹیبلشمنٹ کی مکمل سپورٹ کے ہوتے ہوئے ان کی صدارت کو کوئی خطرہ نہیں مگر چند ماہ بعد فاروق لغاری سے بھی میاں نوازشریف صاحب نے استعفیٰ وصول کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہیدکی حکومت برطرف کرنے کے بعد فاروق لغاری بہت پراعتماد تھے کہ ایک دن نواب اکبر بگٹی مرحوم ان سے ملنے ایوان صدر تشریف لائے۔ نواب صاحب نے ملاقات کی ابتداء میں ایک ایسا مطالبہ کردیا ،جس سے محفل کا ماحول گرم ہوگیا،اکبر بگٹی مرحوم ایوان صدر سے رخصت ہونے لگے تو لغاری صاحب نے بلوچ روایات کے برعکس پروٹوکول افسر کو کہا کہ نواب صاحب کو گاڑی تک چھوڑ آئیں۔شام کوبلوچستان کے ایک معروف سیاستدان اکبر بگٹی صاحب سے ملنے گھر تشریف لائے تو شیر علی مزاری بھی وہاں موجود تھے۔انہوںنے شیر علی سے پوچھا کہ نواب صاحب کی کب واپسی ہے تو شیر علی نے جواب دیا کہ نواب صاحب کی واپسی تو آج تھی مگر اب کہہ رہے ہیں کہ فاروق لغاری کو بھی ساتھ لے کر جاؤں گا۔وہ سیاستدان پریشانی کے عالم میں فاروق لغاری کے پاس پہنچے اور انہیں بتایا کہ نواب صاحب نے اسلام آبا د میں اپنا قیام طویل کردیا ہے اور آپ کے رویے سے شدید نالاں ہیں۔فاروق لغاری کہنے لگے کہ نواب صاحب کہتے ہیں کہ جنرل عمران کو گورنر بلوچستان کے عہدے سے ہٹا دوں،جوکہ میں کسی صورت نہیں کرسکتا۔بہرحال اس واقعے کے چندروز بعد پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں آٹھویں آئینی ترمیم کے خلاف سخت تقریریں کیںتو نواب صاحب نے کہا کہ میاں صاحب آپ صاف صاف الفاظ میں اس کی مخالفت کیوں نہیں کرتے،میاں صاحب نے جواب دیا کہ فوج اس ترمیم کو ختم نہیں کرنے دیتی۔نواب صاحب نے اپنے روایتی جارحانہ انداز میںفورا جنرل جہانگیر کرامت کو فون کیا اور کہا کہ اگر ہم سب مل کر آٹھویں آئینی ترمیم ختم کردیں تو آپ کو اس پر کیا اعتراض ہے ،جنرل جہانگیر کرامت نے واضح کردیا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے اور یوں اکبر بگٹی صاحب اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔اورمیاں نوازشریف نے فاروق لغاری سے چوٹی زیریں آکر استعفیٰ لیا۔

بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف ہونے کے بعدعام انتخابات ہوئے اور میاں نوازشریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے۔فاروق لغاری مرحوم نے میاں صاحب پر دباؤ ڈالا کہ ذوالفقار کھوسہ کو پنجاب کی صوبائی کابینہ میں وزیر نہ بنائیں،مگر میاں نوازشریف ڈٹ گئے اور انہوں نے ذوالفقار کھوسہ کو صدر پاکستان فاروق لغاری کی شدید مخالفت کے باوجود وزیر بنادیا۔پھر تاریخ نے وہ منظر دیکھا کہ میاں نوازشریف رضی فارم پہنچے،عالمی میڈیا ان کے ہمراہ تھا۔بطور ڈی جی آئی بی ریٹائر ہونے والے اختر حسن گورچانی میاں صاحب کے ہمراہ تھے،اختر حسن گورچانی اس وقت ایس ایس پی ہوا کرتے تھے۔آج تقریبا25سال پرانے یہ واقعات اسلئے یاد آگئے کہ تاریخ ایک مرتبہ خود کو دہرارہی ہے۔آج فاروق لغاری کے فرزند اویس لغاری مسلم لیگ ن میں ہیں،ان کے بیٹے عمار لغاری جامپور کے اسی حلقے سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر شیر کے امیدوار ہیں،جہاں رضی فارم واقع تھا۔حالات بدل چکے ہیں،28فروری کو ہونے والے الیکشن میں اختر حسن گورچانی فاروق لغاری کے پوتے عمار لغاری کے مقابلے میں قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب لڑ رہے ہیں۔فرق یہ ہے کہ پہلے لغاری خاندان میاں نوازشریف کا سیاسی مخالف تھا اور اختر حسن گورچانی بطور پولیس افسر میاں صاحب کی گڈ بکس میں تھے۔مگر آج معاملہ الٹ ہے۔مسلم لیگ ن کے جنوبی پنجاب میں سیاسی روح رواں ذوالفقار کھوسہ آج میاں صاحبان اور مسلم لیگ ن سے بہت دور جاچکے ہیں۔فاروق لغاری صاحب جب تک پیپلزپارٹی میں رہے محسن نقوی مرحوم کی شدید مخالفت کرتے رہے مگر ان کی مخالفت محترمہ بے نظیر بھٹو کے دل سے ان کی قدر کم نہ کرسکی،بلکہ بلاول گزشتہ سال دوست کھوسہ کی دعوت پرڈیرہ غازی خان آئے تو کسی نے کہاکہ چیئرمین صاحب ہم ذوالفقار کھوسہ کے شہر آئے ہیں ،بلاول نے ٹوکتے ہوئے کہا کہ نہیں’’ہم محسن کے شہر آئے ہیں‘‘اور بلاول بھٹوذوالفقار کھوسہ کے گھر جانے سے پہلے محسن نقوی کے گھر ان کے بیٹوں اور خاندان کے دیگر افراد سے ملنے گئے،کسی نے کہا کہ محسن نقوی کے چچا اور بھائی اب مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہیں تو بلاول نے جواب دیا کہ مما(بے نظیر بھٹو)کا محسن نقوی سے تعلق ان عہدوں سے بہت بالاتر تھا۔وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔انسان کو ہمیشہ اپنے ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے۔سیاسی مفادات اور تکبر میں اتنا آگے نہیں جانا چاہئے کہ پھر چاہ کر بھی پیچھے نہ آسکیں۔