اساتذہ کے نام ... !!

March 26, 2023

نگہت شفیع، گلشنِ اقبال، کراچی

اُستاد اور شاگرد کا رشتہ معنی و مفہوم کے اعتبار سے گویا انسانی زندگی کا ستون ہے۔ وہ ستون، جس پر ایک نسل نہیں، بلکہ کئی نسلوں کی اچھی یا بُری تعلیم و تربیت کا سارا وزن، بوجھ لدا ہوتا ہے۔ اگر ایک بہترین استاد اپنے طلبہ کو اچھے اخلاق و اعتماد کی بلندیوں تک لے جاسکتا ہے، تو ایک استاد ہی کے غیر ذمّے دارانہ عمل، رویّوں کا بوجھ اگلی کئی نسلوں کو اُٹھانا پڑ سکتا ہے۔ یوں ہی تو اساتذہ کو روحانی والدین کا درجہ حاصل نہیں کہ ماں کی نرم و گرم گود اور باپ کی گھنیری چھاؤں سے نکل کر جب ایک بچّہ تعلیمی میدان میں قدم رکھتا ہے، تو اپنے اساتذہ ہی کی اُنگلی تھام کر سمجھ بوجھ، شعور و آگہی کی منازل طے کرتا ہے۔

لیکن پچھلی چند دہائیوں سے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعلق خاصا کم زور پڑتا دکھائی دے رہا ہے اور اِس کی وجوہ کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔ جس طرح ہر شعبۂ ہائے حیات معاشرتی و اخلاقی زوال کا شکار ہوا ہے، بعینہ استاد و شاگرد کا رشتہ بھی اپنی اصل پر قائم نہیں رہ پایا۔ وہ اساتذہ، جو کبھی اپنے شاگردوں کی علمی ہی نہیں، اخلاقی تربیت بھی کرتے تھے، اب بس کلاسز لینے کی حد تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ جہاں جلدی جلدی نصاب مکمل کروا کر بس اپنے سر سےگویا ایک بوجھ اُتارا جاتا ہے۔ اور اس ضمن میں بھی اِس بات کی بھی پروا نہیں کی جاتی کہ استاد کا دیا ہوا سبق بچّے کی سمجھ میں بھی آیا ہے یا نہیں۔

نیز، تعلیمی میدان میں بعض کم زور طلبہ کے ساتھ تو کچھ اساتذہ کا رویّہ اس قدر ہتک آمیز ہوتا ہےکہ بجائے اس کے کہ طلبہ، اپنے روحانی والدین سے کچھ حاصل کریں، اُنھیں اپنے رول ماڈل کے درجے پر فائز کریں، اُلٹا اُن کی عزّتِ نفس، خُود اعتمادی، سیکھنے، آگے بڑھنے کی چاہ تار تار ہو کے رہ جاتی ہے۔

ایسے واقعات آئے دن خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ جن سے اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں کہ اب تعلیمی اداروں میں اخلاقی نہیں، بس رَٹی رٹائی نام نہاد تعلیم ہی دی جا رہی ہے۔ کہیں محض اُردو زبان بولنے پر طالبِ علم کے منہ پر کالا نشان لگا دیا جاتا ہے۔ کہیں ٹِک ٹاک بنانے کے لیے بچّہ اسکول میں گن لے آتا ہے، ساتھی طالبہ کو زخمی کر دیتا ہے اور کسی کو پتا نہیں چلتا۔ کہیں فن گالا کے نام پر ایسا طوفانِ بدتمیزی مچایا جاتا ہے کہ ایک بچّہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور اساتذہ یا انتظامیہ کا کوئی چیک اینڈ بیلنس ہی نظر نہیں آتا، تو کہیں پڑھائی میں نسبتاً کم زور طالبہ کو اساتذہ کی جانب سے اس قدر تنقید و تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ خود کُشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔

ذرا سوچیں، اس قدر تحقیر آمیز رویّوں کے بعد کیا نسلِ نو کے دل میں اساتذہ کے لیے کوئی عزّت، رُتبہ یا مقام باقی رہے گا…؟ ہمارا تو خیال ہے کہ جیسے جیسے یہ بچّے شعور کی منازل طے کریں گے، اس طرح کے واقعات کا اثر اُن کے ذہنوں پر مزید پختہ ہوتا چلا جائے گا، نتیجتاً وہ تعلیم اور اساتذہ سے دُور ہی ہوتےچلےجائیں گے۔ بلاشبہ، اساتذہ روحانی والدین کا درجہ رکھتے ہیں۔ دینِ اسلام میں معلّم کا بہت بڑا رتبہ ہے، لیکن ایک مدرّس کوخود بھی یہ سوچنا چاہیے کہ آخردین میں اُسے اتنا اعلیٰ مقام کیوں دیا گیا ہے۔ مانا کہ آج کے طلبہ کا طرز عمل، اساتذہ کےساتھ اختیار کیاجانے والا رویّہ قطعاً قابلِ رشک نہیں۔

وہ جس طرح اپنے والدین اور دیگر بڑوں، بزرگوں کا ادب احترام بھول چُکے ہیں، اُسی طرح اُنھیں اپنے اور اپنے استاد کے مابین قائم تعلق، رشتےکابھی احساس وادراک نہیں رہا۔ مگر اساتذہ کو بھی اپنے انتہائی اہم مقام، رُتبے کا خیال رکھنا چاہیے۔ فروغِ علم، درحقیقت ایک تحریک کا نام ہے اور معلّم ہی اس تحریک کو زندہ رکھتے، آگے بڑھاتے ہیں کہ اُن کے ہی ہاتھوں میں اقوام کا مستقبل ہے۔

اِسی لیے کہتے ہیں کہ ایک استاد اپنے طلبہ کی زندگی بنا بھی سکتا ہے اور بگاڑ بھی۔ معلّم کی مثال اُس چراغ کی مانند ہے، جس کی روشنی سے ہزاروں دیے روشن ہوتے ہیں۔ تو خدارا! اپنا مقام و رُتبہ، ذمّے داریاں پہچانیں اور مُلک کے معماروں کا مستقبل روشن بنانے میں اپنا درست اور مثبت کردار ادا کریں، وگرنہ یہ شکوہ کرنا بھی چھوڑ دیں کہ ’’آج کا طالبِ علم اپنے استاد کو عزّت و احترام نہیں دیتا۔‘‘