• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیماتِ نبویؐ اور اُسوۂ رسولِ اکرمﷺ اعلیٰ انسانی اقدار اور مثالی اخلاق کیلئے دائمی نمونۂ عمل (پانچویں اور آخری قسط)

سیرت و کردار سازی، اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ میں معلّمِ انسانیت ﷺ کا کردار اور ہمہ گیر اثرات 

سرکارِ دو عالم، حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی سیرتِ طیّبہ کا یہ پہلو تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ آپؐ نے انتہائی مختصر عرصے میں معاشرے کو عادلانہ نظام اور اعلیٰ تہذیبی اقدار سے آراستہ فرمایا۔ معاشی اعتبار سے تقسیم و گردشِ دولت کا مثالی نظام نافذ فرمایا، جس سے ارتکازِ دولت کے امکانات ختم ہوگئے۔ معاشرے کے غرباء و مساکین، یتامیٰ و بیوگان، مزدوروں، غلاموں اور دیگر محرومین و مستحقین کو اجتماعی دولت میں یوں حصّے دار بنایا گیا کہ اُن کے مالی حقوق مقرر کرکے ریاستی سطح پرلازمی کفالت کا نظام نافذ کردیا گیا۔ 

اس طرح اسلامی ریاست ایک ویلفیئر اسٹیٹ بن گئی۔ جس کی پہلی مثال مواخاتِ مدینہ تھی۔ معاشرے کو مختلف اکائیوں اور اداروں کی شکل میں منظّم کیا گیا۔ افرادِ خاندان سے لے کر حاکم اور ریاست تک سب کے حقوق و فرائض کا نظام وضع ہوا۔ تعلیم اور خواندگی کی مہم شروع کی گئی۔ تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لیے اقدامات کیے گئے۔ 

اقتصادی، سماجی اور سیاسی اصول و قوانین نافذ کیے گئے۔ عوامی مشاورت اور رعایا کی شرکتِ اقتدار کا اعلیٰ جمہوری نظام نافذ کیا گیا۔ عوام کو بنیادی انسانی حقوق (Fundamental Human Rights) عطا کیے گئے۔ جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفّظ کی قانونی و ریاستی ضمانت مہیّا کی گئی۔ آزادیٔ رائے اور اختلافِ رائے کی اجازت دی گئی۔ 

غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق تسلیم کرکے اُنہیں تحفّظ فراہم کیا گیا۔ حتیٰ کہ عام شہری کے نجی و انفرادی حقوق و فرائض سے لے کر اقوامِ عالم کے معاملات تک قانون سازی ہوئی۔ بعدازاں، حُسنِ اخلاق کی مثالی تعلیم اور کردار سازی کی بدولت عرب کا جاہل معاشرہ دنیا کا مہذّب ترین معاشرہ بن گیا۔ فروغِ علم و تعلیم کے ساتھ ساتھ بعض افراد میں مختلف علوم میں تخصّص کا رجحان پیدا ہوا، اخلاقی و روحانی تعلیم و تربیت کے لیے مدینۃ النبی میں صحابۂ کرامؓ کی پہلی درس گاہ ’’صفّہ‘‘ اور رُوحانی خانقاہ تیار کی گئی۔ 

عبادات کے نظام کو منظّم کرنے کے لیے مسجدِ نبویؐ کے علاوہ دیگر مساجد کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا، پوری قوم کے ہر فرد کو سپاہی بنادیا گیا، تاکہ اجتماعی طور پر جہاد کاشعور بے دار رہے۔ غرض حضورِاکرمﷺ نے بہ حیثیت معلّمِ انسانیت، و معلّمِ اخلاق اس معاشرے کو جو سماجی، تہذیبی اور عمرانی اسٹرکچر عطا فرمایا، یہ آپؐ کی سیرتِ طیّبہ کا وہ تاریخی کارنامہ ہے، جس کی کوئی نظیر اقوامِ عالم کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

دنیا میں بے شمار مصلحین پیدا ہوئے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں بہت سی اصلاحی و انقلابی تحریکیں اٹھیں، مگر اُن میں سے ہر ایک نے انسان کے خارجی نظام کو تو بدلنے کی کوشش کی، لیکن اس کے اندرون کو نظر انداز کردیا۔ معلّمِ انسانیت ﷺ کی تحریک میں شامل ہونے والا انسان باہر کے ساتھ ساتھ اندر سے بھی بدل گیا۔ جو لوگ آپ ﷺ کی دعوت پر لبّیک کہتے گئے، وہ آپؐ کی تربیت پاکر کندن بنتے گئے۔ 

اسلام کی آغوش میں آنے والے ہر فرد کے اندر ایسا کردار نمودار ہوا، جس کی نظیر تاریخِ انسانی پیش کرنے سے قاصر ہے۔آپؐ کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں برپا ہونے والے انقلاب اور تاریخ انسانی پر اس کے ہمہ گیر اثرات کے حوالے سے کیا خوب کہا گیا ہے؎ دُرافشانی نے تیری، قطروں کو دریا کردیا.....دل کو روشن کردیا، آنکھوں کو بینا کردیا.....خود نہ تھے جو راہ پر، اوروں کے ہادی بن گئے.....کیا نظر تھی، جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا۔

اس کردار نے کفّار کے نرغے میں کلمۂ حق بلند کیا۔ جاہلیت کے پجاریوں کے درمیان جاہلیت کو چیلنج کیا۔ اس کردار نے مکّے کی وادیوں میں تپتی ریت پر، ابتلاء و آزمائش کی بھٹّیوں سے گزرتے ہوئے ’’اللّٰہُ اَحد، اللّٰہُ اَحد‘‘ کی صدا بلند کی اور دولت و آسائش کو لات مارکر فقر و قناعت کی زندگی کو ترجیح دی۔ نجاشی کے دربار میں جرأت و بے باکی اور حق گوئی کی ایک نئی تاریخ مرتّب کی۔ 

اس کردار نے اگر ایک طرف گھر کا تمام اثاثہ خدمتِ رسالت مآب ﷺ میں لاحاضر کیا، تو دوسری طرف افلاس کی حالت میں دن بھر کی مزدوری میں حاصل ہونے والی کھجوریں راہِ خدا میں دے کر خوشی و مسرّت کی سانس لی۔ خود بھوکا رہ کر پکا پکایا کھانا دوسروں کو کِھلا کر شکم سیری کا لُطف محسوس کیا اور بیوی سے چراغ گُل کروادیا، تاکہ مہمان کو یہ احساس بھی نہ ہو کہ میزبان بھوکا ہے۔ 

اس اسوہ نے میدانِ جنگ میں تشنگی کی حالت میں جان، جانِ آفریں کے سپرد کردی، مگر یہ گوارا نہ کیا کہ اپنے پیاسے بھائی سے پہلے پانی کا کٹورا اپنے ہونٹوں سے لگالے۔ راہِ خدا میں جامِ شہادت پی کر اس کردار کی رُوح جھوم اُٹھی اور اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا ’’فُزتُ بربّ الکعبۃ‘‘ ربِّ کعبہ کی قسم، میں کام یاب ہوگیا۔

اس کردار نے رات کے اندھیرے میں ماں کے کہنے کے باوجود دودھ میں پانی ملانے سے انکار کردیا۔ اس پختہ سیرت نے جب شراب حرام ہونے کی منادی سنی، تو گھروں میں رکھے ہوئے شراب کے مٹکے اور ہونٹوں سے لگے ہوئے جام توڑ ڈالے۔ جب جہاد کا اعلان ہوا، تو اس کردار نے ایڑیوں کے بَل کھڑے ہوہو کر اپنے آپ کو جہاد میں شریک ہونے کا اہل ثابت کیا۔

اس کردار کا دامن اگر کبھی داغ دار ہوا، تو اس نے رسولِ خدا ﷺ کی خدمت میں باربار آکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ، مجھے پاک کردیجیے۔ اس پیکر کو جب گورنری سونپی گئی، تو مدائن کے لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کا گورنر قُلی کی طرح سر پر گٹھری لادے چلا آرہا ہے، تاکہ اس سے اپنا خرچ چلاسکے؟ یہ وہ کردار ہیں، جن کی عظمت اور درخشانی و تابندگی پر ہر مورّخ انگشتِ بدنداں ہے۔

یہ وہ ناقابلِ تردید اور تاریخ ساز حقیقت ہے، جسے کسی صورت جھٹلایا نہیں جاسکتا، چناں چہ مغرب کا مورّخ، معروف دانش ور، ول ڈیورانٹ (Will Durant) اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’Heroes of History‘‘ میں اعترافِ حقیقت کے طور پر لکھتا ہے۔ ’’اگر ہم تاریخ پر اثرات کے حوالے سے تجزیہ کریں، تو پیغمبرِ اسلام، حضرت محمدؐ کا کوئی ثانی نہیں۔

آپؐ نے جاہلیت کی دلدل میں دھنسے ہوئے لوگوں کو روحانی اور اخلاقی رفعت سے ہم کنار کیا اور کسی بھی دوسرے مصلح یا پیغمبر کی نسبت کہیں زیادہ کام یاب رہے، تاریخِ انسانی کا شاید ہی کوئی اور فرد کبھی اپنے خوابوں کو اس قدر بھرپور انداز میں تعبیر دے سکا ہو۔ آپؐ نے عربوں کو تہذیب کے ساتھ ساتھ ایک نیا مذہب بھی دیا، کیوں کہ مذہب کے علاوہ کوئی اور طریقہ دست یاب ہی نہ تھا۔ 

آپؐ نے عربوں کے تخیّل، خوف اور امید تک رسائی حاصل کی اور انہیں قابلِ فہم انداز میں ہدایت دی۔ آپؐ کی بعثت کے وقت عرب ایک صحرا تھا، جہاں بہت سے بُت پرست قبائل آباد تھے۔ آپؐ کے وصال کے وقت تک عرب ایک متحد قوم بن چکے تھے۔‘‘(Willdurant Heroes of History ،مترجم، یاسر جواد،صفحہ 234)۔ 

سرورِ کائنات ﷺ کی تعلیم و تربیت اور پیغامِ رُشدو ہدایت کے نتیجے میں مثالی انقلاب کی تاریخی عظمت و اہمیت جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس انقلاب کے رونما ہونے سے قبل عہدِ جاہلیت کے عرب معاشرے اور دنیا کے مختلف مذاہب اور قوموں کا کیا حال تھا؟ مختصر طور پر یہ جان لیا جائے۔ 

اس تاریخی حقیقت کے حوالے سے علامہ سیّد سلیمان ندوی لکھتے ہیں۔ ’’اگر یہ سچ ہے کہ دنیا کی ہر شے اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے، بارش کی خنکی، سخت حبس کے بعد ہی زیادہ خوش گوار معلوم ہوتی ہے۔ روشنی کی پوری قدر شبِ تار ہی میں ہوتی ہے اور فضا جس قدر تاریک ہو، بجلی کی چمک اتنی ہی زیادہ درخشاں نظر آتی ہے، تو اس میں شبہ نہیں کہ ہر اصلاحی تحریک کی وقعت اور عظمت کے جانچنے میں یہ لحاظ رکھنا چاہیے کہ دنیا اس وقت کتنی گم راہی میں مبتلا اور اصلاح کی محتاج تھی اور ایسی اصلاح کی محتاج تھی، جس کے لیے پیغمبرانہ دست و بازو کی حاجت تھی اور وہ بھی ایک ایسے پیغمبر کے دست و بازو کی، جس کے متعلق خود اللہ تعالیٰ یہ فرما چکا ہے۔ ترجمہ۔’’جو آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں، وہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے۔‘‘(سورۃالفتح/10۔ بحوالہ سیرت النبیؐ، 4/133)۔

علّامہ سیّد سلیمان ندوی کے الفاظ میں ’’اسلام اورپیغمبرِ اسلامﷺ کے پیغام اور تعلیم کے متعلق ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی ایک عظیم الشّان روحانی، اخلاقی و معاشرتی دعوت ہے، اس بِنا پر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ظہورِ اسلام کے وقت دنیا کی کیا حالت تھی؟ اُس وقت کی دنیا کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ وہ ایک ایسا کرۂ ارض تھا، جس پر آفتاب نہیں چمکتا تھا، تو بالکل سچ ہوگا۔

تمام دنیا میں سچّے اور صحیح عقیدے کا کہیں وجود نہ تھا، توحید کی روشنی سے دنیا کا ذرّہ ذرّہ محروم تھا، مصرو یونان و روم میں سورج، چاند اور مختلف سیّاروں اور ستاروں کی خدائی تھی، ان ہی کے معبد تھے اور ان ہی کے ناموں پر بے گناہ انسانوں اور جانوروں کی قربانیاں چڑھائی جاتی تھیں۔ ہر جگہ پتّھر کی مُورتوں، مٹّی کی صُورتوں، سونے چاندی اور جواہرات کے بُتوں کی پوجا کی جاتی تھی۔ 

اُس وقت کی دنیا میں اخلاق کے تین معلّم تھے، رواقی، عیسائی اور بدھ مت کے پیرو اور یہ تینوں کے تینوں تجرّد، رہبانیت اور جوگی پَن میں مبتلا ہوکر اس طرح عضو ِمعطّل ہوگئے تھے کہ دنیا کا دستِ ترقی شل ہوکر رہ گیا تھا اور ایسی سخت سنگ دلانہ ریاضتوں کو نیکی اور ان کے پیروکاروں نے عبادت کا مترادف سمجھ رکھا تھا، آج ان کی تفصیلات سُننے سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ 

یہ سچ ہے کہ مسیح ؑنے چھے صدی قبل تزکیۂ نفس کے کچھ درس دیے تھے، لیکن مدّت ہوئی، دنیا اس سبق کو بُھلا چکی تھی۔ یہ بھی سچ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے اس سے بھی پیش تر ہدایت و نجات کی ایک شمع جلائی تھی، لیکن فتنوں اور ہنگاموں کی آندھی میں چراغِ طُور بھی جل کر گُل ہوگیا تھا اور پھر یہ بھی سچ ہے کہ مدّتِ مدید ہوئی کہ زرتشت نے روحانیت کی آگ سلگائی تھی، لیکن یہ شعلہ بھی انسانی خون کے چھینٹوں سے سرد ہوچکا تھا۔ 

یہ بھی سچ ہے کہ اس سے پہلے بودھ نے آریا ورت کے پہاڑوں اور غاروں میں رُوح کا دارالامن ڈھونڈ نکالا تھا، مگر حوادث کے طوفان نے ان پہاڑوں کو بے نام و نشان صحرا اور ان غاروں کو درندوں کا بھٹ بنادیا تھا۔ ہر قوم دوسری قوم سے برسرِ پیکار اور ہر قبیلہ دوسرے قبیلے کے خون کا پیاسا تھا، حرص و طمع اور کشت و خون کی گرم بازاری تھی، نفسِ انسانی کی ملکوتی طاقت جذباتِ خبیثہ کے دیوتا کے سامنے پامال ہوچکی تھی۔ عدل و راستی اور پاک بازی و پارسائی کے عطر و عنبر کی خوش بو انسان کے جامۂ خاکی سے اُڑ چکی تھی۔ 

توحید اور خدا پرستی کا نور دیوتاؤں، دیویوں، ستاروں، شہیدوں، ولیوں اور مجسّموں کی پرستش کی عالم گیر تاریکی میں چُھپ گیا تھا، غرض دنیا کے حالات ہر طرح سے اس ضرورت کے متقاضی تھے کہ کوئی عالم کا مصلح، اخلاق کا معلّم، حق کا داعی، بنی نوعِ انسان کا نجات دہندہ آخری بار وجود میں آئے اور انسانیت کے شیرازے میں، جو عرصۂ دراز سے پراگندہ اور منتشر ہو رہا تھا، پھر نظم و انتظام پیدا کردے۔ 

روحانیت کے خزاں رسیدہ باغ کو ازسرِ نو پُربہار، بلکہ سدا بہار اور دنیا کے ظلمت کدے کو پھر مطلعِ انوار بنادے۔‘‘(خطباتِ مدراس، صفحہ 134)۔رسول اکرم ﷺ نے دنیائے انسانیت کو جو علمی بلندی اور اخلاقی پاکیزگی عطا کی، اُس نے پوری دنیا کو آپؐ کا ثنا خواں بنا دیا۔ اللہ نے مزید آپؐ کا رُتبہ اس طرح بلند کردیا کہ دنیا کے ہر خطّے میں روزانہ پانچ مرتبہ آپؐ کا ذکرِ خیر ہوتا ہے اور آپؐ کا اجر بڑھتا رہتا ہے۔؎ اِک نامِ مصطفیؐ ہے، جو بڑھ کر گھٹا نہیں.....ورنہ ہر اِک عروج میں پنہاں زوال ہے۔

’’عظمتِ اخلاق‘‘ خاتم الانبیاء ﷺ کا امتیاز ہے۔ یوں تو تمام انبیاؑء دنیا میں اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے آئے، مگر امام الانبیاء ﷺ صرف اخلاق کی تعلیم دینے نہیں آئے، بلکہ اخلاق اور مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے تشریف لائے۔ قرآن، ہدایتِ الٰہی کی آخری کتاب ہے اور حضرت محمد ﷺ اس ہدایت کے آخری رسول ہیں۔ قرآن نظریۂ اخلاق ہے اور رسول اللہ ﷺ نمونۂ اخلاق ہیں۔ جب نظریہ عمل میں ڈھلتا ہے، تو کمی بیشی عموماً ہوجاتی ہے، مگر یہاں اخلاق کا نظریہ جتنا معقول اور مستحکم ہے، اتنا ہی مستحکم اخلاق کا نمونہ بھی ہے۔

اسی لیے تو قرآن نے کہا ہے۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃ۔‘‘رسول اکرم ﷺ کا معاملہ یہ ہے کہ آپؐ کی گفتار جتنی پاکیزہ ہے، کردار اُتنا ہی پاکیزہ نظر آتا ہے۔ تعلیم جتنی روشن نظر آتی ہے، سیرت اُتنی ہی صیقل دکھائی دیتی ہے۔ کہیں کوئی جھول، کوئی کھوٹ نہیں، سماجی اور ذاتی زندگی میں کوئی تفریق نہیں۔

دنیا کے سارے مذاہب عبادت پر زور دیتے ہیں، مگر اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے عبادت کے ساتھ علم اور اخلاق کو بھی جوڑا ہے، کیوں کہ تینوں عناصر سے مل کر انسان کا وجود مکمل ہوتا ہے۔ عبادت، دل کی غذا ہے، تو علم ذہن و دماغ کی اور اخلاق دل و دماغ دونوں کی غذا ہے۔ 

رسول اکرم ﷺ نے علم اور عبادت کی زینت ’’اخلاق‘‘ کو قرار دیا اور میزانِ عمل میں سب سےباوزن ’’اخلاق‘‘ ہی ٹھہرا۔ ضیائے محمد ﷺ کی تابانی نے کائناتِ ارض و سماء کے ذرّے ذرّے کو نورانی بنادیا اور انوارِ محمدی ﷺ کی جلوتوں میں نورِ کبریا کی جھلکیاں نمایاں ہونے لگیں۔ 

خاتم النّبیینؐ کی تعلیماتِ عالیہ کے باعث پروردگارِ عالم کا یہ کائناتی نظام صالح بن گیا۔ بنی نوع انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو سنوارا گیا۔ مختصر یہ کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات نے زندگی کے ہر شعبے کو نکھارا اور منزلِ رفعت پر پہنچا دیا۔

سنڈے میگزین سے مزید