آپ کا صفحہ: بہت کچھ سیکھا ہے ...

June 04, 2023

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

عرفان جاوید کے سادہ لوح، بانسری بابا؟

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کی سلطنتِ عثمانیہ کےعہدِرفتہ اور سعودی حکومت کے قیام پر مبنی دینی بصیرت سے بھرپور معلوماتی تحریر پسند آئی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں مدثر اعجاز اور ڈاکٹر معین الدّین عقیل نے علامہ اقبال کو ان کے145 ویں یومِ ولادت پر خصوصی مضامین میں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا برطانیہ کے سیاسی و اقتصادی نظام پر اپنے قلمِ منور سے خُوب روشنی ڈال رہے تھے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال کا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک نئےسائنسی معمّے ’’میٹاوَرس‘‘ پر مضمون بےحد متاثر کُن تھا۔ ’’متفرق‘‘ اور ’’ڈائجسٹ‘‘ کی تحریریں اور عربی کھانوں کی سوندھی سوندھی خوشبوئوں سے مہکتا، ’’پیاراگھر‘‘ بہت اچھا لگا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں نمونیا کے عالمی یوم کے حوالے سے معروف ماہرِ امراضِ اطفال، ڈاکٹر دانش عزیز کا انٹرویو بےحد معلوماتی تھا۔

عرفان جاوید کے سادہ لوح، سادہ دل ’’بانسری بابا‘‘ بھی راہیٔ مُلکِ عدم ہوئے، اللہ غریقِ رحمت کرے۔ اگلے شمارے میں منور مرزا کا تجزیہ لاجواب تھا۔ یوں ہی تو ایک زمانہ اُن کا معترف نہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کی مکّہ کی مساجد کے تاریخی پس منظر پر مبنی تحریر رُوح پرور اور معلوماتی تھی۔ سلیم اللہ صدیقی نے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں آرمی چیفس کی تقرّریوں کا تاریخی جائزہ پیش کیا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں باصلاحیت رائٹر، شفق رفیع کا نمایاں ڈیجیٹل اسٹارز کا موزانہ اپنی مثال آپ تھا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر شکیل احمد کا عالمی یوم کے موقعے پر ’’ذیابطیس‘‘ پر مضمون بیش بہا معلومات کا خزانہ لگا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ’’قازقستان‘‘ سے متعلق تاریخی معلومات فراہم کی گئیں۔ اور ’’کہی ان کہی‘‘ میں بلوچستان کے فن کار حمید شیخ سے بات چیت بہت پسند آئی۔ نیز، سرورق کی ماڈل کے سادہ، پُروقار انداز کا بھی جواب نہ تھا۔ (مبارک علی ثاقب، راول پنڈی)

ج: ارے بھئی، آپ کیا ہائبرنیشن میں چلے جاتے ہیں۔ آپ کو اکتوبر، نومبر کے ایڈیشنز پر تبصرے کا خیال اب کیوں آرہا ہے، جب کہ اِس سے قبل بھی آپ کو تنبیہ کی جاچُکی ہے۔ پہلے ہمارا خیال تھا کہ شاید محکمۂ ڈاک کی غفلت کے سبب خطوط تاخیرسےملتےہیں، مگر آپ کےخط کے آخر میں اپریل 2023 کی تاریخ دیکھ کر تو ہمارا خون ہی جل گیا۔ ’’کون لوگ او تسیٔ اوئے…؟؟‘‘ کیا ایک سے بڑھ کر ایک شاہ کار ’’سنڈے میگزین‘‘ ہی کے حصّے آگیا ہے۔

’’بارہویں کھلاڑی‘‘ پر نہ لے جائیں؟

22؍ جنوری سے 11؍فروری تک کے شماروں پر تبصرہ و اظہارِ خیال پیشِ خدمت ہے۔ آغاز ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی ایک دل فگار کہانی سے کرنا چاہتا ہوں۔ ’’میری زندگی کی دمکتی مالا کے چار نایاب موتی‘‘ پڑھی، جب کہ پانچواں نایاب موتی (سعدیہ افضل مرحومہ) خُود تھیں۔ اللہ اکبر، اپنی انتہائی خُوب صُورت تحریر کی اشاعت سے قبل ہی دنیا کو خیرباد کہہ گئیں۔ اللہ پاک اگر تھوڑی سی مہلت اور دیتاتو اپنی تحریر کی پاکیزگی اور نورانیت بھی اپنے ساتھ لے جاتیں۔ نم آنکھوں سے آگے بڑھے تو ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ سے سامنا ہوا۔ نووارد ڈاکٹر عادل حسن اور ڈاکٹرامجد جعفری کے معلوماتی مضامین سے فیض یاب ہوئے۔ آگے ’’پیارا گھر‘‘ کو دروازہ کھولے منتظر پایا۔ (انشاء جی کے ساتھ تو اس کے برعکس ہوا تھا) ملک اسلم ور اقصیٰ منور کےمضامین نےمتاثر کیا۔

خصوصاً ’’سفارش اوراجروثواب‘‘ بڑا اچھوتا اور اصلاحی مضمون لگا۔ ’’متفرق‘‘ میں بابر سلیم ’’سات عجائباتِ عالم‘‘ کے ساتھ موجود تھے۔ تحقیق و جستجو کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ چھوٹی سی جمپ لگا کے ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر پہنچے تو یاد آیا کہ اس پر تبصرہ پچھلے خط میں کرچُکاہوں۔ اگلے شمارے میں حسبِ معمول نجمی صاحب کے معلوماتی مضمون اور نورانی چہرے سے آمنا سامنا ہوا۔ دوبارہ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے دوارے پہنچے، تو ڈاکٹرعزیزمیمن بہت ہی پُراثر تحریر کے ساتھ حاضر تھے۔ اس کے بعد اظہار یک جہتیٔ کشمیر کے تناظر میں ایک دردناک تحریر ’’روزن زنداں‘‘ کے عنوان سے پڑھی، قانتہ بی بی ہمیشہ ہی کوئی مثبت واصلاحی،فکر انگیز تحریر لے کرآتی ہیں۔ ’’کشمیر، ہماری شہ رگ‘‘ کے عنوان سے محبوب حیدر سحاب نے بھی عُمدہ نظم پیش کی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ واقعات تو دل پر اثر کر گئے۔ اور اس صفحےکی ’’اعزازی چٹھی‘‘ تو لبوں پر تبسّم بکھیر گئی کہ ڈاکٹر تبسّم کی تحریر بہت ہی متبسم و مترنّم معلوم ہوئی۔ اگر اِسی طرح لکھتی رہیں تو خدشہ ہے کہ راجا جی کو یہ ’’بارہویں کھلاڑی‘‘ پر نہ لے جائیں۔ (ہومیو ڈاکٹر ایم۔شمیم نوید، گلشنِ اقبال کراچی)

ج: راجا جی تو غالباً خُود ہی میدان چھوڑ گئے ہیں۔ اُنہیں کوئی کیا بارہویں، تیرہویں نمبرپر لے جائے گا۔ مگر، بخدا آپ بھی اپنے نام کے ایک ہیں کہ آج تو آپ کا خط90 فی صد ایڈٹ کرنا پڑا ہے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دو واقعات پر آپ نے 3 صفحات لکھ مارے، حد ہے۔ آپ براہِ مہربانی اپنے خط کی ایک کاپی اپنے پاس بھی رکھا کریں اور پھر شایع شدہ خط سے اُس کا موزانہ کیا کریں تاکہ آپ کواندازہ تو ہوکہ آپ خُود اپنے ساتھ بھی کس قدر ظلم فرما رہے ہیں۔

ڈانٹ سے ڈر لگتا ہے

پیاری نرجس جی! اُمید کرتی ہوں، خیریت سے ہوں گی۔ دیکھیے ناں، رمضان المبارک کی بابرکات ساعات میں بھی آپ کو یاد رکھا ہے، دل میں بھی اور دُعائوں میں بھی، جبھی تو آپ کو خط لکھنے بیٹھی ہوں۔ ویسے بتانا ضروری تونہیں تھا، لیکن بتا دینےسے محبت بڑھتی ہے۔ سو، اپنے پُرخلوص جذبات کا اظہار بھی کردیا۔ خط کے ساتھ آپ کو ایک کارڈ بھیج رہی ہوں۔ بُک پوائنٹ کے کئی چکر لگانے اور بار بار ڈیزائیننگ تبدیل کروانے کے بعد پسند آیا ہے۔ ویسے اب عید کارڈزکہیں ملتے ہی نہیں، وگرنہ کیا اچھی روایت تھی، عید کارڈز لینے دینےکی بھی۔ویسے تو مَیں آپ کو بڑی بےتکلفی سےخط لکھتی ہوں، لیکن نہ جانے کیوں، آج کنفیوژ ہو رہی ہوں، سمجھ نہیں آرہا، کیا لکھ رہی ہوں۔ سو، درگزر کیجیے گا۔

میگزین مصروفیات کے باعث مکمل طور پر تونہیں پڑھ سکی، لیکن جو پڑھا ہے، اُس پرتبصرہ کردیتی ہوں تاکہ آپ سے جواب مل سکے۔ ہاہاہا…’’مدینہ منوّرہ: عہدِ قدیم سےدورِجدید تک‘‘ محمود میاں نجمی بڑی عرق ریزی سے سپرد ِقرطاس کررہے ہیں۔ اللہ پاک قبول فرما کراجرعظیم عطا فرمائے۔ مسجدِ نبوی ﷺ کی توسیعات سے متعلق پہلی مرتبہ اس قدر وضاحت کے ساتھ کچھ پڑھنے کو ملا ہےاور سچ تویہ ہے کہ جن چند لوگوں کے اندازِ تحریر سے ہم متاثرہوتے ہیں، اُن میں سے ایک محمود میاں بھی ہیں۔ ویسےتو خیر، جو بھی اچھا لکھتا ہے، اُس کی پذیرائی، تعریف ضرور ہونی چاہیے۔

راؤ محمّد شاہد اقبال نے زکوٰۃ سےمتعلق اہم مسائل و موضوعات کا جامع احاطہ کیا اور بالکل ٹھیک لکھا کہ لوگ زکوٰۃ و صدقات کو جانے کیا بلا سمجھتے ہیں کہ جس کے کھاتے ہی مصیبتیں، بیماریاں اُنہیں لگ جائیں گی۔ اور ہاں، ہم نے اپنے مضامین بھی پڑھے۔ وہ بھی دو دو بار۔ ہا ہا ہا…ایک مرتبہ تو سرسری سے، یہ یقین کرنے کے لیے کہ واقعی ہماری تحریرہے اور دوسری مرتبہ بطورِخاص یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا اصلاح کی گئی۔ اور جانتی ہیں نرجس جی! اپنی تحریروں والا میگزین تو ہاتھ میں لے کر یوں خوشی ہوئی کہ کیا ہی ماں کو بچّے کو گود میں لے کرہوتی ہوگی۔ اس ہفتے کی چٹھی بھی مزے کی تھی۔ مدرسے سے افطاری کے لیے گھر آئی تھی اوراب باجی جان یادکررہی ہیں۔ سو اجازت، آج یہ بے تُکا سا تبصرہ قبول کیجیے اور پلیز، ڈانیےگانہیں کہ ڈانٹ سے ڈرلگتاہےاورہو سکے تو پچھلے خط کے سوالات کے جواب بھی دے دیں۔ ابھی تک دل میں کھٹک رہے ہیں۔ (اقصیٰ منور ملک، صادق آباد)

ج: آپ کا کارڈ بہت خُوب صُورت ہےاورآپ کے عمدہ ذوق کی عکاسی کررہا ہے، بےحد شکریہ۔ پچھلے خط کے کون سے سوالات آپ کے دل میں کھٹک رہے ہیں، قطعاًیاد نہیں اور اب اتنی فرصت بھی نہیں کہ جریدہ دوبارہ چھانا جائے۔ سو، آپ بھی ’’رات گئی،بات گئی‘‘ کےمثل بُھول جائیں۔ رہی ڈانٹ ڈپٹ تو وہ کبھی بے وجہ نہیں ہوتی۔

بہت کچھ سیکھا ہے

’’سنڈے میگزین‘‘ ایک کام یاب ترین جریدہ ہے، اِس کے جاذب نظر سرِورق سے لے کر خطوط تک کا صفحہ اپنی مثال آپ ہوتا ہے۔ مَیں نے تو بخدا اِس جریدے سے بہت کچھ سیکھا ہے اور آج بھی مطالعے کے بعد پہلے روز والا لُطف پاتا ہوں۔ (شری مُرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

خوابوں کی تعبیر میں مددگار

سچ تو یہ ہے کہ مَیں نے اپنا بہترین دوست جنگ، سنڈے میگزین ہی کو پایا۔ بہترین، اُجلی تحریریں، جنہیں پڑھ کر ہمیشہ تروتازگی کا احساس ہوتا ہے، جو منزلِ مقصود پر پہنچانے، خوابوں کو تعبیر دینے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ مَیں خود تاریخ سے گہرا شغف رکھتی ہوں، تو کئی مضامین میری معلومات میں بیش بہا اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ اس دورِ جدید میں بھی جنگ اخبار اور اس کا میگزین سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبارات و جرائد میں شامل ہیں۔ مَیں اپنی کچھ شعر و شاعری بھی بھیجنا چاہتی ہوں، اُمید ہے، آپ ضرور جگہ عنایت فرمائیں گی۔ (مریم طلعت محمود بیگ، لاہور)

ج: مریم! ابھی آپ نثر ہی پر توجّہ مرکوز رکھیں کہ فی الوقت تو آپ کی نثر بھی خاصی ناپختہ ہے، تو شعر و شاعری تو ہر ایک کے بس کا روگ ہی نہیں۔

راحت محسوس ہوتی ہے

مَیں ہر اتوار’’سنڈے میگزین‘‘ باقاعدگی سے پڑھتاہوں، خصوصاً تاریخی، اسلامی اور اصلاحی مضامین تو بہت ہی ذوق و شوق سے پڑھتا ہوں کہ پڑھ کر کافی راحت محسوس ہوتی ہے۔ جب کہ مَیں قابلِ صد احترام محمود میاں نجمی کا بھی بڑا پرستار ہوں اور اُن کی تحریریں بہت دل جمعی سے پڑھ کر، اُن سے بہت کچھ سیکھتا، حاصل کرتا ہوں۔ (سیّد محمّد، گلی قائم دین، نیا محلہ، جہلم)

فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

جب وہ قلم کو عقیدت و اُلفت کی روشنائی میں ڈبو کر، لہجے میں جہاں بَھر کی شیرینی سمو کر، بے حد چاہت و احترام کے ساتھ ’’شہرِ جاناںﷺ‘‘ رقم کرتے ہیں ناں، تو اُس لمحے بس نہیں چلتا کہ روح و بدن، قلب و جان، جان و جگر، دیدۂ بینا اور سماعت، سب کچھ اِس شہر جاناں کی دہلیزپربےمول دان کراَن مول ہوجائیں۔ مدینہ، بحرِ عشق ہے اوریہ تحریرپڑھتے ہوئے ہم اس بحر میں بارہا ’’اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے‘‘۔ جب آنسوئوں سےوضو ہونےلگےاوردل بےقرار ہو کر اِک اِسی شہر جاناں کی ضد پکڑلے، پھر اُسےکیا کہیں اور کیا نہ کہیں۔ اگر پڑھنے والوں پر یہ کیفیت طاری ہو، تو خیال آتا ہے، لکھنے والے نے عشق ومَستی، محبّت وعقیدت کےکیسے کیسے بابرکت مراحل اس سفرِ مبارک کے ساتھ طے کیے ہوں گے۔ خیر، آپ کے اِس جریدے کی جو خاص بات نظر آتی ہے، وہ یہ کہ فرقہ واریت، مسلک پرستی سے بالاتر ہو کر اسلام کی اصل رُوح کی عکّاسی کی کوشش میں مصروف ہے، اِس پر دنیا میں جدیدیت کے نام پر متعارف ہونے والے نت نئے اطوار کا پریشر نظر نہیں آتا۔ ایسے میں، جب کہ فیمینزم کے نام پرنسوانی وقارکوتارتارکرنےکی تحریک زوروں پر ہے، جریدے میں اس کے خلاف کُھل کر بات ہوتی ہے۔ اِسی طرح مُلکی تاریخ کی ریکارڈ توڑ منہگائی کی صُورتِ حال میں سارا فوکس عوام اوراُن کےمصائب کوطبقہ ہائےاقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے پر ہے۔

جو فی زمانہ، جہاد بالقلم سےکم نہیں۔ جیسا کہ برانڈڈ کافی کے حصول کےلیےقطاروں، دہرےمعیار زندگی کے موضوع پر کافی سخت رپورٹ شائع کر کے صحیح معنوں میں لتّے لیے گئے۔ شعروشاعری سےکچھ خاص شغف نہ ہونے کے باوجود نور جہاں خالد کی نظم ’’آئیڈیل‘‘ نے متاثر کیا کہ محترمہ نے نہایت ذہانت کے ساتھ آئیڈیل کی حقیقت بیان کی۔ سال بھر کی مسندِ خاص راجا صاحب نے سنبھالی، تو قطعی کوئی اچنبھا نہیں ہوا کہ راج دھانی، راجا ہی کا حق ہے، مگر ساتھ ہی ایک معمولی ذرّۂ خاک کو مانندِ ستارہ جگمگا کر ٹانک دینا، بجاطور پرحیران کُن تھا اوریہ خاصّہ آپ ہی کا ہو سکتا ہے۔ مجھے تو تعجب نے اس قدر گھیرا کے شکریے کےالفاظ بھی گڈمڈ سےہورہے ہیں۔

کبھی اُس قبیل سے متعلق سُنا ہے، جس کاعمل تو کُجا، سوچ بھی قید رکھی جاتی ہے۔ جو بس، کئی کئی ماہ بعد رات کے کسی پہر خاموشی کا پیرہن اوڑھ کر محض کاغذ، قلم ہی کو ہم راز کرسکتاہے۔ گہری تاریکی میں اپنےدلی احساسات رقم کرنا اور پھر بارہا سوچنا کہ ؎ یہ جو ہم لوگ ہیں، احساس میں جلتے ہوئے لوگ… ہم زمیں زاد نہ ہوتےتو ستارے ہوتے۔ کہاں مشقّتِ معاش کے دن اور مشقّتِ دوراں کی شامیں…اور کہاں اِن دو پاٹوں کےدرمیان پِستے ہوئےکوئی یک دَم ہی تھام کر کہہ دے۔ ’’سنو ! تم آئو تو مقابل کوئی ٹھہرتا ہی نہیں‘‘ مجھے کہہ لینے دیجیے، نرجس آپی! اب یہ واقعی بہت زیادہ ہوگیا۔ جس مُشتِ خاک کے وجودِ ذات کا کسی کو گمان تک نہیں، تو اُس کا کون سا میدان اور کہاں کے مقابل۔

پہلے ہی قلم کی طرف لوٹانے، گویا میری ہستی کو مجھ تک لوٹانے میں آپ کا کلیدی کردار ہے۔ اب مزید کتنا زیر بار کریں گی۔ قابل صد احترام، شمیم صاحب، جاوید صاحب لحاظ کو بروئے خاطر رکھتےہوئے جس قدر شفقت سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ واللہ، کبھی خُودکو، کبھی اس پذیرائی کو دیکھتی ہوں۔ اب یہ کیا بات کہ صفحہ اول تا آخر ایک رپورٹ، نامے کی شکل میں تیار کر کے میگزین کے تیارکنندگان ہی کو خبر نامہ سُنا دیا جائے۔ یہ ’’انداز ِمبارک‘‘ ہم سے تو نہ ہو پائے گا بھیّا۔ سوچوں کے اُڑتے پِھرتے سے دھوئیں کو ہاتھ بڑھا کر چُھو لینا، پھر اِک عالمِ سرشاری یا خدا معلوم وہ عالم بے چارگی ہے کہ اُس دھوئیں کی لکیریں سی صفحے پر کھینچ دینا۔ نہ جانےاسی کو تحریر کہتے ہیں، جب کہ اچھی اقصیٰ کو لگتا ہے، مَیں ’’دِل دیاں گلاں‘‘ کر جاتی ہوں۔ سُنیں اقصیٰ، بقول باہوؒ ؎ دل، دریا،سمندروں ڈُونگے… کون دِلاں دیاں جانے، ہُو۔ اور ہاں، وہ جو ایک نامہ نگار کو آپ نے ’’اسٹائل‘‘ کا رائٹ اَپ لکھنے کی صلاح دی، تو یہ کیا کسی نئے سلسلے کی شروعات ہے؟ (شائستہ اظہر صدیقی، سیال کوٹ)

ج: ارے نہیں، اچھی شائستہ! وہ تو ہم نے اپنے سَر کی بلا ٹالنے کو ایک تجویز دی تھی کہ اگر کوئی ذرا منفرد انداز میں ’’اسٹائل‘‘ رائٹ اَپ لکھنے میں دل چسپی رکھتا ہے، تو بےشک لکھ بھیجے، ہم کچھ ترمیم واضافے کےساتھ، تھوڑی نوک پلک سنوار کےاُسی کے نام کے ساتھ شایع کردیں گے۔

گوشہ برقی خطوط

* سنڈے میگزین میں نِت نئے موضوعات پر شامل ہونے والے مضامین سے معلومات میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک گزارش ہے کہ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کا صفحہ کسی صُورت ڈراپ نہ کیا کریں۔ میری تین تحریریں آپ کی پائپ لائن میں موجود ہیں۔ جلد اَز جلد شایع کر دیں، تو ممنون رہوں گا۔ ایک تحریر خون کے عطیے کے موضوع پر تھی، ایک موٹاپے سے متعلق اور ایک سلسلہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے لیے بھیجی تھی۔ (ڈاکٹر شاہ جہاں کھتری، لکھنؤ سوسائٹی، کورنگی، کراچی)

ج: ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے لیے بھیجی گئی آپ کی تحریریں لائقِ اشاعت نہیں ہیں، جب کہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی کہانی کی اشاعت کا فیصلہ بھی تحریر دیکھ کر کیا جائے گا۔

* ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں والدہ عمار احسن کی کہانی پڑھ کر دِل خون کے آنسو رویا۔ دِلی دُعاہے کہ اللہ لواحقین کوصبرِجمیل عطا فرمائے اور مرحومین کے درجات بہت بُلند ہوں۔ (عزیز الرحمٰن)

ج: آمین، ثم آمین۔

* ’’مدینہ منوّرہ: عہدِ قدیم سے دَورِ جدید تک‘‘ کی قسط نمبر20 عید کے دُوسرے دن جو سنڈے میگزین شایع ہوا، اُس میں شایع ہوئی، لیکن اُس روز اخبار ہی شایع نہیں ہوا، تو براہِ مہربانی قسط نمبر20 مجھے ای میل کر دیں یا سنڈے میگزین میں دوبارہ شایع کریں۔ (فیصل شہزاد)

ج: آپ کو یہ اہم اطلاع کس نے دی کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ عید کے دُوسرے دن شایع ہوا اور وہ بھی بغیر اخبار کے۔ ارے بھائی! یہ صرف اِسی عیدالفطر کی بات نہیں، ہماری ماضی کی بھی یہی پریکٹس ہے کہ عید اگر جمعے یا ہفتے کی پڑ رہی ہو، تو پھر سنڈے میگزین عین عید ہی کے روز شایع ہوتا ہے اور اس بار بھی شمارہ عید والے روز آیا، نہ کہ عید کے دُوسرے دن، جب مُلک بھرکے تمام اخبارات کا ناغہ تھا۔ اور ہمارا یہ ایڈیشن، ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے، آپ وہاں سے جا کر خود مطالعہ فرما لیں، نہ کہ ہمیں ای میل کرنے یا دوبارہ اشاعت جیسے قیمتی مشورے سے نوازیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazinejanggroup.com.pk