• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

جملہ افسردہ کرگیا

تازہ شمارے میں جہاں میرا خط شائع کرنے کا شکریہ واجب ہوا، وہیں آپ کے جواب کا ایک جملہ افسردہ بھی کرگیا کہ ’’لیکن آپ کے پاس لگتا ہے، اِن دِنوں ہمیں خط لکھنے کے سوا کوئی مصروفیت نہیں۔‘‘ تو بیٹا! مَیں آپ کو اپنی کچھ مصروفیات اور ادبی جنون سے متعلق آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں الحمدُللہ، سروس کے ساتھ بھی شام 5بجے کے بعد دو گھنٹے کے لیےاپنےذاتی کلینک پر بیٹھتا تھا۔ انجمنِ ترقیٔ اُردو بورڈ اور ’’دارالسکون‘‘ میں رضا کارانہ خدمات انجام دیتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کیا مصروفیات تھیں۔ اِسی لیے عزیز، رشتے داروں سے بمشکل عیدتہوار ہی پرملاقات ہوپاتی۔مجھے جنون کی حد تک لکھنے پڑھنے کا شوق ہے، تو بس اِسی سبب طول طویل خطوط لکھ بیٹھتا ہوں، مگر یہ سب ایک نشست میں نہیں لکھے جاتے۔ جب جب فرصت ملتی ہیں، دو چار جملے رقم کرلیتا ہوں۔ 

بات یہ ہے کہ بازارِ زندگی کا بھائو60-65 کا چل رہا ہے، سمجھو، آخری اسپیل ہے، تو اِسے مَن مرضی اور سُکون سےگزارلینےدو۔بہرحال، تبصرہ و اظہارِ خیال پیشِ خدمت ہے۔ محمو میاں نجمی، حسبِ روایت اپنی پیش بہا تحاریر کے ذریعے مانندِ مہتابِ اسلام پوری آن بان اور شان سے جگمگا رہے ہیں۔ اللہ کرے، رُشد و ہدایت کا یہ چشمہ یوں ہی پُھوٹتا رہے اور لوگ سیراب ہوتے رہیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر طاہر صدیق شوگر کے موضوع پر خاصی انفرادیت کے ساتھ بہت اچھی معلومات سے سرفراز کرتے نظر آئے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں نوجوان ڈاکٹر حافظ ولید ملک نے ایم بی بی ایس میں 29 میڈلز لے کر بڑا سرپرائز دیا۔ عمّارہ ارشد کی اُن سے بات چیت بہت ہی پیشہ ورانہ انداز میں ہوئی۔ 

’’یادداشتیں‘‘ میں آواز و تلفّظ کے جادوگر، ضیاء محی الدین سے متعلق ڈاکٹر عقیل عباس کی تحریر سے پوری شخصیت کا احاطہ ہوگیا۔ آپ نے بھی اپنے رائٹ اَپ میں ایک بہت اچھی پوسٹ شیئر کی، سمجھ نہیں آتا کہ آپ اتنا وقت کہاں سے نکال لیتی ہیں،حوالہ جات کے لیےتو بہت مغزماری کرنی پڑتی ہے۔ ڈاکٹر فہمیدہ تبسم کا شکریہ، جنہوں نے گزشتہ کسی شمارے میں عرفان صدیقی سے متعلق مضمون لکھا، اندازِ تحریر بتا رہا تھا کہ وہ بھی آپ کے علمی و ادبی قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اِسی طرح عنبریں حسیب عنبر بھی شان دارلکھاری ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم نے بیٹیوں کی عزت و عظمت کو نہایت سلیقے سے پیش کیا، تو ’’کچھ توجّہ اِدھر بھی‘‘ میں مجاہد خان نے شناختی کارڈ میں بلڈ گروپ کے اندراج کا بہت صحیح مشورہ دیا۔ خطوط میں شیما فاطمہ کے خط نے کافی متاثر کیا۔

ابھی یہ تبصرہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ اگلا شمارہ آگیا۔ سو، 5مارچ کے جریدے پر بھی تبصرہ حاضر ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کے تناظرمیں لکھاگیامنور راجپوت کا مضمون بھرپور تھا۔ ’’انٹرویو‘‘ میں نرسنگ کے مقدّس و مقدّم پیشے کی اہمیت و ضرورت اور خدمات پر تفصیلاً روشنی ڈالی گئی۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں تمام ہی کتابوں پر تبصرہ ہمیشہ ہی خُوب رہتا ہے۔ اِس بار بھی اختر سعیدی نے خاص طور پہ’’زنجیریں‘‘ پر ماضی کے مقبول و معروف اوررومانی شاعر، مصطفیٰ زیدی کےحوالے سے بڑا پیارا اور بھرپور تبصرہ کیا اور اب بات ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی، جس کے بغیر پورا میگزین ہی سُونا سُونا لاگے۔ ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا قرعہ جاوید اقبال کے نام نکلا، انتخاب ہمیشہ کی طرح سو فی صد درست تھا۔ سائیں تاج دین بٹ، رونق افروز برقی اور ایم۔ اے ہاشمی آف گلگت کے نام و مقام سے لگتا ہے کہ سارے جہاں کی ڈگریاں اِن ہی کے پاس ہیں، مگر سب کو اپنی حسِ مزاح کے شان دار استعمال سے بہترین جوابات دے کر آپ نے لاجواب کر دیا۔ (ہیومیو ڈاکٹر ایم۔ شمیم نوید، گلشن اقبال، کراچی)

ج: اتنی افسردگی کےباوجودبھی آپ نے 10صفحات پر مشتمل خط لکھ بھیجا۔ (بخدا ایڈٹینگ نے ہمارا کم ازکم ایک گھنٹہ تو کھا ہی لیا) اب ہم کچھ کہیں گے، تو آپ مزید افسردہ ہو جائیں گے۔ ویسے ہم نے آپ کی ریٹائرمنٹ سےقبل کی مصروفیات کی بات نہیں کی تھی۔

صفحے کا چوتھائی حصہ؟

آپ کےصفحے کا چوتھائی حصّہ تو ہیومیو ڈاکٹر ایم شمیم کا مختصر تبصرہ کھا ہی جاتا ہے، تو پھر باقی نامہ نگار کہاں جائیں۔ شاہدہ تبسم، شری مُرلی چند، سید زاہد علی، رونق افروز برقی، ریحانہ ممتاز اور شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی کے خطوط پسند آئے۔ نجمی صاحب مدینہ منوّرہ کے حالات جس باریک بینی سے لکھ رہے ہیں، بس ان ہی کا خاصّہ ہے۔ رئوف ظفر نے گوانتاناموبے جیل کا بڑا دل چسپ احوال بیان کیا۔ رائو محمّد شاہد کی تحریر، اختر سعیدی کا تبصرہ اور شہلا خضر کی ’’قربانی‘‘ پسند آئی۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا دہلی کے گرد و نواح میں خُوب گھوم پِھر رہے ہیں اور ضیاء محی الدین کی ’’یادداشیں‘‘ بھی لاجواب تھیں۔ ویسے تو جریدے میں پڑھنے کو بہت کچھ ہوتا ہے، مگر مجھے آپ کے جوابات پڑھ کر سب سے زیادہ مزہ آتا ہے۔ (شمائلہ نیاز، مظفّر گڑھ)

ج:یہی بات جب ہم کہتے ہیں، تو لوگوں کو بُرا لگ جاتاہےاور پھر وہ ناحق ہی اپنی افسردگی کا سارا ملبہ بھی ہم ہی پہ ڈال دیتے ہیں۔ لیکن ہم بار بار زور دےدے کے مختصر نویسی کی بات اِسی لیے کرتے ہیں کہ ہمارے صفحات کی تعداد محدود (اور اب تو مزید کم ہوگئی ہے)جگہ کی شدید کمی ہے، تو اکثر اِن طول طویل تحریروں کے سبب کئی لوگوں کو موقع نہیں مل پاتا، جو کہ ملنا چاہیے۔

ہمارا دوست میگزین

سنڈے میگزین، ہمارا دوست میگزین ہے۔ اس سے بہت کچھ سیکھا، حاصل کیا۔ غم، خوشی کے لمحات شیئر کیے ہیں اور اِس کے خصوصی ایڈیشنز، تو دل کے بہت ہی قریب معلوم ہوتے ہیں۔ ہر اتوار، بڑی بےچینی سے انتظار رہتا ہے، جب تک جریدہ دیکھ نہیں لیتے، دل کو چین نہیں پڑتا۔ (شری مرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکار پور)

ج: ہاں، آج لگ رہا ہےکہ دوست سے کچھ سیکھا ہےکہ آج اندازِ تحریر نسبتاً بہتر اور تھوڑا مختلف ہے۔

یک سانیت کا شکار

اُمید ہے، آپ اور آپ کی ٹیم خیریت سے ہوگی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی معلومات کےدریابہا رہے ہیں، ہر اگلی قسط کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر طاہر صدیق نے ذیابطیس پر اچھا معلوماتی مضمون تحریر کیا۔ ’’انٹرویو‘‘ میں عمّارہ ارشد نے ڈاکٹر حافظ محمد ولید ملک سے خصوصی بات چیت کی۔ اور ’’یادداشتیں‘‘ میں ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے ضیاء محی الدین سے متعلق خاصی معلومات فراہم کردیں۔ ’’رپورٹ‘‘ میں محمّد تنویر ہاشمی نے برطانیہ کی ٹریڈنگ اسکیم کو پاکستان کے لیے زبردست موقع قرار دیا، تو اشفاق نیاز نے علامہ محمّد اقبال کے والدین کی قبروں کو قومی وَرثے کا درجہ قرار دینے کی خبر دی۔

’’جہانِ دیگر‘‘ کی گیارہویں قسط پڑھنے کو ملی۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا دہلی کی کیا خُوب سیر کروا رہے ہیں۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ اب یک سانیت کا شکار ہو رہا ہے۔ ’’کچھ توجّہ اِدھر بھی‘‘ میں شیما فاطمہ نے بالکل صحیح توجّہ دلائی۔ مَیں نےخُودشاہ فیصل کالونی نمبر3 میں دیکھا ہے کہ صفائی کرنے والا عملہ، سڑک کی صفائی کرتے ہوئے فٹ پاتھ پر مٹّی ڈال دیتا ہے، حالاں کہ اُن کے پاس ٹوکری بھی ہوتی ہے اور ایک وہیل والی گاڑی بھی، لیکن وہ فٹ پاتھ پر مٹّی اور کچرا پھینکتے جاتے ہیں۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: آپ پھر بھی خُوش قسمت ہیں کہ آپ کے علاقے میں صفائی کرنے والا عملہ آ تو رہا ہے۔ ہمارے علاقے کے بلدیاتی عملے کو تو غالباً کسی میوزیم میں محفوظ کردیاگیاہےکہ ہم نے مدّتوں سے ایسی کوئی نادر و نایاب چیز نہیں دیکھی۔ ممکن ہے، سڑک اور گرین بیلٹ پر جو کچرے کے پہاڑ کھڑے ہیں، اُن کی اوٹ سے کبھی جھانک جاتے ہوں، مگر بخدا ہمیں دکھائی نہیں دیتے اور ’’اِک رشہ، اِک کہانی‘‘ سے متعلق آپ کا اعتراض یوں درست نہیں کہ پچھلے دو چار ہفتوں میں تو بہت ہی مختلف اور دل چُھو لینے والی کہانیاں شایع ہوئی ہیں۔ آپ نے یقیناً یہ خط پہلے سے بھیج رکھا ہے، ورنہ آپ بھی ہماری بات سے اتفاق کرتے۔

دہلی والوں کے کھانے

’’سرچشمہ ٔ ہدایت ‘‘ میں محمود میاں نجمی کی مدینہ منوّرہ سے متعلق خُوب صُورت تحریر کا کوئی مول ہی نہیں۔ پھر جو بھی واقعہ بیان کرتے ہیں، تاریخ بمع ہجری بیان کرتے ہیں اور یہ کیا عُمدہ بات ہے۔ رئوف ظفر کی گوانتا ناموبے جیل کے حوالے سے ’’رپورٹ‘‘ پڑھ کر معلومات میں کافی اضافہ ہوا۔ بلاشبہ، رپورٹ بہت عُمدگی سے تیار کی گئی۔ دوسری رپورٹ عالمی مشاعرے سے متعلق اختر سعیدی کی تھی اور اس مشاعرے میں اتفاق سے ہم نے بھی شرکت کی تھی۔ واقعی شعرا نے سماں باندھ دیا تھا۔ ہماری صبح پانچ بجے واپسی ہوئی تھی۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا ’’دہلی نامہ‘‘ کے ساتھ موجود تھے۔ 

سفر نامہ پڑھ کردل چاہتا ہے۔ بس، پڑھتے ہی چلے جائیں، کہیں ختم نہ ہو۔ ڈاکٹر رانجھا مہر ولی بازار کے گندے ہوٹل کے کھانے کا ذائقہ اب تک نہیں بُھولے، تو کیا عجب ہے کہ دہلی والوں کے کھانے تو ایک عالم میں مشہور ہیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں اچھے واقعات پڑھنے کو مل رہے ہیں اور ’’نئی کتابیں‘‘ میں اس مرتبہ دو کتابوں پر تبصرہ بہت پسند آیا۔ ایک ’’جہنم جاگتا رہتا ہے‘‘ اور دوسری ’’چسکا گلیوں گا‘‘۔ شُکر ہے، نثر کی بھی کچھ اچھی کتابیں سامنے آئیں، وگرنہ بہت عرصے سے بس شعر شاعری ہی کی کتب سامنے آرہی ہیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

تبدیلی لانی پڑے گی؟

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمہ ٔ ہدایت‘‘ کے متبرّک صفحات شامل تھے۔ جب سےآپ نے ’’اسٹائل‘‘ کا رائٹ اَپ لکھنا شروع کیا ہے، ماڈلز بھی خُوب صُورت آنے لگی ہیں۔ ’’بیانیے کی جنگ، مگر اصل بیانیے سے مسلسل گریز‘‘۔ جی ہاں، یہی تو اصل مسئلہ ہے۔ پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری پر رپورٹ پڑھی۔ دُعا ہے کہ کراچی والے اس مردم شماری کے نتائج قبول کرلیں۔ ایم بی بی ایس میں 29 میٹرلز حاصل کرنے والے ڈاکٹر حافظ محمّد ولید ملک اور آغا خان ہیلتھ سروسز کی ریجنل سی ای او، ڈاکٹر زینب سلیمان خان سے لیے گئے انٹرویوز نہایت ہی شان دار تھے۔ ’’ایک آواز، ایک عہد… ایک دَور ضیاء محی الدین‘‘ کو یادداشتیں میں لانے کا بےحد شکریہ۔ 

برطانیہ کی ٹریڈنگ اسکیم بلاشبہ پاکستان کے لیے ایک زبردست موقع ہے اور ہم پاکستانیوں کو اِس سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ امریکی صدر کا خفیہ دورۂ یوکرین، واقعی روس کو ایک کُھلا پیغام تھا۔ ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کی مناسبت سے مضمون ’’اب صرف برابری کافی نہیں‘‘ ایک بہترین مضمون تھا اور چیٹ جی پی ٹی بھی واقع ایک کرشماتی ٹیکنالوجی ہے، جس سے کم پڑھےلکھے بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ ’’دہلی نامہ‘‘ بہت خُوب جارہاہے۔ شری مُرلی چند کے خط کے جواب میں آپ نے لکھاکہ ’’پرنس افضل شاہین اور آپ ایک ہی انداز میں خط لکھ لکھ کر بوڑھے ہو جائیں گے‘‘۔ تو مطلب، اب مجھے بھی اپنے خط کی انداز میں ’’تبدیلی‘‘ لانی پڑے گی۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج:بھائی!’’تبدیلی‘‘ لانےمیں ہرگز کوئی قباحب نہیں، دراصل اس مُلک کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ پچھلی ’’سرکار‘‘ نےکچھ الفاظ کو اتنا گندا کر دیا ہےکہ اب حقیقتاً اُن کے معنی و مفہوم ہی بدل گئے ہیں۔ بخدا کئی الفاظ سے تو باقاعدہ نفرت کروا دی گئی، یہاں تک کہ اب عموماً پڑھے لکھے، باشعور افراد اُن الفاظ کے استعمال سے بھی کتراتے ہیں، حالاں کہ نیا، تبدیلی، صاف شفّاف، حقیقی آزادی، خُود داری اور خُود مختاری جیسے سب الفاظ بہت مثبت معانی دیتے ہیں، لیکن حال یہ ہے کہ اب تو لکھتے یا منہ سے نکالتے ’’کانپیں ٹانگ جاتی ہیں‘‘۔

                            فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

میگزین کا ورق پلٹا، تو مدینہ منورہ کا بابرکت نام ’’سرچشمہ ٔ ہدایت‘‘ کی صُورت سامنے تھا۔ بقول انور شعور ؎ ہمیشہ ایک خیال، ایک نام رہتا ہے… دل و دماغ میں کوئی مہک بسائے ہوئے… شعور گنبد خضریٰ ہمارے سامنے ہے…فراق میں بھی ہیں گویا مدینے آئے ہوئے۔ ’’عالمی افق‘‘ میں امریکی صدر کا خفیہ دورۂ یوکرین اور اس پر روسی حملہ برائے قبضہ کے تناظر میں یہی تاثر ملا کہ دنیا میں اب بھی "Might is right" اور "Survival of the fittest" کا اصول کار فرما ہے، لیکن بغیر ’’انصاف‘‘ امن محال ہے۔ شفق رفیع کا ڈاکٹر زینت سے انٹرویو خاصا موٹیویشنل رہا۔ بہزاد لکھنوی نے اس ضمن میں کیا خُوب کہا ؎ اے جذبۂ دل گر میں چاہوں، ہر چیز مقابل آ جائے … منزل کے لیے دو گام چلوں، اور سامنے منزل آجائے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منور راجپوت عورتوں کے مسائل اور اُن کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا ذکر کرتے نظر آئے۔ ویسے اب "Frailty thy name is woman" والا دَور اختتام کو پہنچ جانا چاہیے۔ ’’متفرق‘‘ میں ملک اشفاق کے ’’سقراط کے فلسفے کے جانشین‘‘ کی تشریح کچھ اس طرح سے کی جا سکتی ہے ؎ مت سہل ہمیں جانو، پِھرتا ہے فلک برسوں… تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں بس اتنی سی بات پلّے پڑی کہ کرتے کرتے حضرت انسان ایک دن مکمل طور پر اپنے آپ کو مشینوں کے حوالے کردے گا۔ اور از خود پانی پینے سے بھی قاصر ہوجائےگا وہ کیا ہے ناں کہ ؎ ہے دل کے لیے موت، مشینوں کی حکومت… احساس مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں مُدیرہ کی خوب صورت تحریر سے خُوب حَظ اُٹھایا۔ اے عورت دنیا کی رونق تم سے ہے۔ واقعی عورت کا ہر رُوپ ہی دل کش، دل نشین ہے۔ بے شک ؎ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ریطہ طارق خواتین کو میانہ روی کا درس دیتی نظر آئیں، تو ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیر فاطمہ اور فرح فضل نے عورتوں کے تاب ناک کردار اور روشن پہلوئوں کو اجاگر کیا اور ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا ’’دہلی نامہ‘‘ کچھ اس انداز سے پیش کررہے ہیں کہ انتظار حسین کی ’’دہلی تھا جس کا نام‘‘ کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ ’’ناقابل فراموش‘‘ کے دونوں واقعات بھی بہت پسند آئے۔ اور آخر میں ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں میری اس ہفتے کی چٹھی کے انتخاب کا بے حد شکریہ ۔ (جاوید اقبال، بلدیہ کالونی، چشتیاں، ضلع بہاول نگر)

ج:چلیں جی، ایک اور شکریہ واجب ہوا۔ ویسے آپ اظہار ممونیت نہ بھی کریں، تو چلے گا کہ آپ کی چٹھی سو فی صد چوکھٹے میں سجنے ہی کے لائق تھی۔ خصوصاً آپ نے جو انتہائی موزوں اور بالکل درست اشعار کا استعمال کیا، اِس خُوبی کے تو کیا ہی کہنے۔

گوشہ برقی خطوط

* سرسیّد احمد خان سے متعلق ایک تفصیلی آرٹیکل ارسال کیا تھا، اُمید تھی کہ کسی شمارے میں جگہ بنا لے گا، مگر چھے ماہ سے زائد ہوگئے، نہ تو نام ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں شامل ہوا ہے اور نہ ہی مضمون جریدے کی زینت بن سکا ہے۔ کیا آپ اپنے ریکارڈ میں چیک کر کے مضمون کے موجودہ اسٹیٹس سے آگاہ کر سکتی ہیں؟ (ڈاکٹر ظفر فاروقی، ایسوسی ایٹ پروفیسر، ڈیپارٹمنٹ آف زوآلوجی، نشتر روڈ، کراچی)

ج: ڈاکٹر صاحب! بات یہ ہے کہ آپ کے نام کے ساتھ ڈاکٹر، پروفیسر کی اضافتیں، ہمیں بار بار آپ کا نام ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں شامل کرنے سے روکتی ہیں۔ جب بھی نام شامل ہوا، ہمیں اچھا نہیں لگا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ یکے بعد دیگرے تحریریں بھیجے جاتے ہیں اور آپ کی زیادہ تر تحریریں ناقابلِ اشاعت ہی ہوتی ہیں۔ آپ کسی ایک موضوع پر فوکس رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی بھی تحریر میں کچھ زیادہ محنت و علمیت نظر آتی ہے۔ اب ایسے سرسری، بے ربط مضامین کو سنوارنے پرآخر کس قدر محنت کی جائے اور کیوں؟

*’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ایک ہومیو ڈاکٹر کا خط بعنوان ’’منفی سوچ کے حامل لوگ‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ لیکن خود سے متعلق اُن کے خیالات پڑھ کر نہ تو کوئی حیرانی ہوئی اور نہ غصّہ آیا، کیوں کہ عمومی طور پر ہومیو پیتھک طریقۂ علاج بے ضرر ہی ہوتا ہے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں، تو نقصان بھی نہیں۔ ہاں، آپ کے حوصلے، صبر و برداشت کو داد دیتا ہوں کہ ایسے تنقیدی خطوط شایع کرنا اور اُن کا جواب دینا واقعی دِل، گردے کا کام ہے۔ (محمد اشفاق، ننکانہ صاحب)

ج: ویسے آپ کو بھی ہومیو ڈاکٹر سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ بے ضرر ہونا، مضر اور ضرررَساں ہونے سے کہیں بہتر و افضل ہے۔

* ایک تحریر اشاعت کی غرض سے بھیج رہی ہوں، شایع کرکے شکریہ کا موقع دیں۔ (منیبہ مختار اعوان)

ج: قابلِ اشاعت تحریریں بغیر کہے بھی شایع کر دی جاتی ہیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk