یوں لگا، زندگی بھر کا سُکون میسر آگیا

June 04, 2023

مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر

دو برس قبل میرا تحریر کردہ مضمون بعنوان ’’میری خوش گفتار امّی جان‘‘ جنگ، سنڈے میگزین میں شایع ہوا، تو خاندان کے تمام افراد نے بے حد سراہا اور خوشی کا اظہار کیا اور جب مَیں نے وہ مضمون والدہ کو پڑھ کر سنایا، تو وہ زاروقطار رونے لگیں۔ غالباً ان کے ذہن میں اپنے بچپن اور گزرے ہوئے زمانے کی یادیں تازہ ہوگئیں کہ کس طرح انہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد اپنے والدین کے ساتھ کم سِنی میں ہجرت کی اور ضلع ٹھٹھہ کے ایک چھوٹے سے شہر جنگ شاہی میں سکونت اختیار کی۔

نئے وطن، نئے لوگوں کے درمیان طویل عرصے تک انتہائی تنگ دستی اور غربت میں دن گزارے، لیکن صبر و استقامت کی پیکر ہماری پیاری امّی نے انتہائی محنت و لگن اور پیار و محبت سے ہماری پرورش کی اور اپنے شوہر، حاجی محمد اسماعیل قریشی کے ساتھ بھی ایک خوش گوار ازدواجی زندگی گزارکے ایک وفا شعار بیوی ہونے کا حق ادا کیا۔ ہمارے خاندان کے تمام افراد والد صاحب کو ’’ماموں‘‘ اوروالدہ صاحبہ کو ’’معراج ممانی‘‘ کے نام سے پکارتے تھے اور ان کے ہاتھ کے پکے لذیذ کھانوں کا ذائقہ آج بھی خاندان کے لوگ نہیںبھولے۔

مارچ 2022ء کے اوائل میں میری والدہ کی طبیعت اچانک خراب ہوئی اور پھر12مارچ کی دوپہر وہ ہمیں داغِ مفارقت دے کر سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئیں، مگر ہماری پیاری والدہ آج بھی ہماری یادوں میں زندہ ہیں۔ ان کے ساتھ گزارے لمحات یاد آتے ہیں، تو بے اختیار آنسو چھلک پڑتے ہیں اور ان کا شفقت بھرا سراپا نگاہوں میں آجاتا ہے۔ وہ اپنے، پرائے ہر ایک کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتیں اور ضرورت مندوں کی اس طرح مدد کرتیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہہوتی، صوم و صلوٰۃ کی نہ صرف خود پابند تھیں، بلکہ ہمیں بھی سختی سے نماز کی تلقین کرتیں۔

والد صاحب بہت پہلے ہی حج کی سعادت حاصل کرچکے تھے، لیکن شاید میری والدہ کا بلاوا نہیںآیا تھا، اس لیے جب بھی حج کا قصد کرتیں، کوئی نہ کوئی ایسی بات ہوجاتی کہ حج پر نہ جاپاتیں، بالآخر مارچ1999ء میںاللہ تعالیٰکی طرف سے بلاوا آیا، تو ان کے ساتھ مجھے بھی حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ الحمدللہ، ہم نے حج کے تمام ارکان بہت خوش اسلوبی سے ادا کیے۔ پانچ روز منیٰ میںقیام کے بعد10اپریل کو ہماری واپسی تھی۔ حج سے قبل ہی ہم تمام زیارتیں کرچکے تھے، لیکن ’’حجرِاسود‘‘ کے مقام پر حاجیوں کے بے پناہ رش کی وجہ سے اسے بوسہ دینا ایک خواب سا لگتا تھا۔ کئی بار طواف شروع کرنے سے پہلے اور طواف کا ہر چکر پورا ہونے کے بعد حجرِاسود کو بوسہ دینا ممکن نہ ہوسکا، تو اس کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرکے دور ہی سے استلام کرلیا کرتے۔

5اپریل کی صبح ناشتے کے بعد میں اپنے ساتھی، شہزاد بھائی کے ساتھ کچھ خریداری کے لیے اپنی رہائش جروال سے ’’چھاپرا مارکیٹ‘‘ کے لیے روانہ ہوا، تو راستے میں شہزادبھائی نے کہا کہ ’’کیوں نہ ہم پہلے ایک نفلی طواف کرلیں، پھر خریداری کریں گے۔‘‘ میںنے فوراً آمادگی ظاہر کردی اور ہم دونوں مارکیٹ جانے کے بجائے حرم شریف کی جانب چل پڑے، وہاں پہنچ کر وضو کے بعد بابِ عمرہ سے حرم شریف میںداخل ہوئے، تو اتفاق سے اس وقت حرم میں معمول سے بہت کم رش تھا، حجرِاسود کے مقام پر بھی لوگوں کی تعداد خاصی کم تھی، لہٰذا مَیںنے اُسی دوران یہ قصد کرلیا کہ طواف سے فارغ ہونے کے بعد آج اِن شاء اللہ ’’حجراسود‘‘ کو ضرور بوسہ دوںگا۔ بیت اللہ کا طواف ایک جلیل القدر عبادت ہے، جس کی شان الگ اور بہت اعلیٰ ہے، خصوصاً جب مطاف میں زیادہ رَش نہ ہو، تو طواف کرنے والے کو بہت ہی سکون اور اللہ کا قرب محسوس ہوتا ہے، جب کہ حجرِاسود کو بوسہ دینا بھی عبادت ہے کہ انسان اس سیاہ پتھر کو بوسہ صرف اس لیے دیتا ہے کہ یہ اللہ کی بندگی و تعظیم کا استعارہ اور نبی کریم صلی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اتباع ہے۔

حجرِاسود کا پہرے دار، کعبہ شریف کے پاس ایک قدرے بلند مقام پر ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے اور طواف کرنے والوں کے تحفّظ و سلامتی کے ساتھ درست انداز میں بوسہ دینے کی سعادت کو یقینی بناتاہے۔ نیز، بوسہ دینے کے لیے سامنے آنے والوں کو اس فریضے کی بہت سکون سے ادائی کی تلقین کرتا ہے۔ جب کہ رَش، گھٹن یا پیرانہ سالی کے سبب طواف کرنے والے کسی زائر کی بے ہوشی یا گرجانے کی صورت میں وہ فوری طور پر اپنے دوسرے ساتھیوں کو اطلاع دیتا ہے۔ بے انتہا چوکنّا رہ کر ادا کی جانے والی اس ڈیوٹی میں ہر ایک گھنٹے بعد حجرِاسود کا نیا پہرے دار تعینات کیا جاتا ہے۔

خیر، طواف سے فارغ ہوتے ہی مَیں حجرِاسود کو بوسہ دینے کی نیّت سے اس کی جانب چل پڑا۔ اس وقت تک بھیڑ میں اضافہ ہوچکا تھا اور ہجوم کے باعث وہاں تک پہنچنا ممکن دکھائی نہیںدے رہا تھا، مگر مَیںاپنی دھن میںآگے بڑھتا رہا اور بالآخر حجرِاسود کے انتہائی قریب پہنچ گیا۔ میرے آگے، پیچھے اور دائیں بائیں، لوگوں کا جمِ غفیر تھا، مگر میرا سارا دھیان بیت اللہ اور نظریں حجراسود پر مرکوز تھیں کہ اچانک میری نظر پہرے دار پر پڑی، جو حجرِاسود کا بوسہ لینے والوں کی مدد کررہا تھا۔ مَیں لپک کر اس کے پاس پہنچ گیا اور درخواست کی کہ ’’بھائی جان! ہمیں بھی موقع دیں۔‘‘

وہ شخص میری طرف متوجّہ ہوااور چشمِ زدن میں مجھے کالرسے پکڑ کر میرا چہرہ حجرِاسود کے بہت قریب کردیا۔ مَیں نے جنّت کے اس مقدّس پتّھر کو جیسے ہی چوما، تو یوں محسوس ہوا، جیسے زندگی بھر کے لیے سکون میسّر آگیا ہے۔ بلاشبہ وہ میری زندگی کا سب سے مبارک لمحہ تھا۔ مَیںحجرِاسود کا بوسہ لینے میں کام یاب ہوچکا تھا، حالاں کہ اس کے بعد اگلے ہی لمحے جمِ غفیر کے باعث ایک زوردار جھٹکے سے کئی فٹ دور جا پڑا، مگر میری خوشی دیدنی تھی اور میں نے اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے اس سعادت کے قابل سمجھا، جب کہ ہماری پاکستان روانگی میںصرف4دن باقی تھے۔

میری والدہ حج سے قبل مختلف امراض کا شکار تھیں، خاص طور پر جوڑوں کےدرد کے باعث بہت پریشان رہتی تھیں، مگر حیرت انگیز طور پر حج کے پورے ایّام میں بہت چاق چوبند اور ہشّاش بشّاش رہیں۔ بہرحال، اس مضمون کے توسّط سے میری قارئین سے گزارش ہے کہ اگرآپ بھی عمرہ یا حج کرنے جائیں تو حجرِ اسود کو بوسہ کے لیے بعد نمازِ اشراق یعنی صبح8 سے10 کے درمیان کا وقت بہترین ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ میری والدہ، حجن معراج بیگم کے درجات بلند فرمائے کہ جن کے وسیلے سے حج کی سعادت نصیب ہوئی، اور ان کی بہترین تربیت کے باعث ہم آج بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ (محمد اسحاق قریشی، اورنگی ٹاؤن، کراچی)