• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ لوگ خلوص و محبّت کا پیکر اور ہر ایک کے لیے سراپا عجز و انکسار ہوتے ہیں۔ ان سے جو بھی ملتا ہے، گرویدہ ہوجاتا ہے اور دوبارہ ملنے کی آرزو کرتا ہے۔ ہماری دادی جان کا شمار بھی ایسی ہی ہستیوں میں ہوتا تھا۔ وہ درمیانی قد وقامت، کِھلتے ہوئے گورے رنگ کی نہایت حسین خاتون تھیں۔ اُن کے چار بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ بچّوں سے یک ساں پیار و محبت کا ایسا برتائو تھا کہ ہر بچّہ سمجھتا، دادی جان سب سے زیادہ اُسی سے پیار کرتی ہیں۔ بغیر برقعے کےکبھی گھر سے باہر نہیں جاتی تھیں۔ بھارت کے شہر بھوپال کے متمول گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے الفاظ کا چنائو اور لہجے کا رچائو قابلِ تعریف تھا۔ گفتگو کرتیں، تو لہجے میں پُرجوش لہک اور خاص اپنائیت محسوس ہوتی۔ 

دادی جان نے اپنی پوری زندگی بڑے رعب و دبدبے اور شاہانہ انداز سے بسر کی۔ غیر ضروری باتوں سے اجتناب برتتیں، جب کہ دوسروں کی باتیں توجّہ اور دل چسپی سے سنتی تھیں۔ اکثر ہمیں پرانے قصّے اور واقعات سُنایا کرتیں۔ پاکستان ہجرت کے واقعات تو انھیں ازبر تھے۔ اُن ہی دنوں کا ایک واقعہ سُناتی تھیں کہ ’’برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہم نے پاکستان ہجرت کے وقت بے پناہ مصائب و مشکلات جھیلیں۔ پھر کسی نہ کسی طرح پاکستان جانے والی ٹرین میں سوار ہوگئے۔ میری بہو اور چھے سالہ پوتا میرے ساتھ تھے، جب کہ بیٹے مردانے ڈبے میں تھے۔ 

گھر سے نکلتے وقت میں نے سارے زیورات ایک پوٹلی میں باندھ کرڈوری والے بٹوے میں رکھ کر اوپر سے پان رکھ لیے تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ ٹرین برق رفتاری سے پاکستان کی جانب رواں دواں تھی۔ خوف اور اندیشوں کے باعث سب کے دل لرز رہے تھے۔ سب خیرخیریت سے اپنے خوابوں کی سرزمین پاکستان پہنچنے کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد مَیں نے بٹوے سے پان نکال کر کھایا، تو پوتا ڈوری والا بٹوا دیکھ کر مچل گیا اور ضد کرنے لگا کہ مجھے بٹوا چاہیے۔ ہمارے سارے زیورات اسی بٹوے میں تھے، مَیں نے لاکھ سمجھانے، پچکارنے کی کوشش کی، مگر وہ کسی طرح نہ مانا تو مجبوراً بٹوا اسے دے دیا۔ 

بٹوا ملتے ہی وہ خوش ہوگیا اور اس کی ڈوری کو انگلی میں ڈال کر گھمانے لگااور پھر اسی اثناء اس کی انگلی سے ڈور نکلی اور بٹوا کھڑکی سے باہر گرگیا۔ ٹرین تیز رفتاری سے جارہی تھی۔ کچھ خواتین کے مشورے پرجلدی سے زنجیر کھینچی، تو ٹرین کافی آگے جاکر رُکی، مگر کافی ڈھونڈنے کے باوجود بٹوا نہ ملا۔ میرے تو پیروں تلے زمین نکل گئی۔ پھر پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا، لیکن سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کہاں جائیں۔ بہرحال، بیٹوں سے مشورہ کرکے سکھر اپنی بہن کے گھر چلی گئی۔ وہاں چند ہفتے قیام کے بعد شکار پور کواپنا مستقل مسکن بنالیا۔‘‘

دادی، صوم و صلوٰۃ کی پابند اور تہجّد گزار تھیں۔ میں شبِ معراج، شبِ برات اور شب قدر کی پوری رات جاگ کر ان کے ساتھ عبادت کرتی تھی۔ بچپن میں مجھے قرآن مجید پڑھنا نہیں آتا تھا، تو وہ مجھ سے کہتیں کہ قرآن کے صفحے کی ہر لکیر پر ’’بسمہ اللہ‘‘ پڑھو تو تمہارا قرآن پاک بھی ختم ہوجائے گا۔ دادی جان عاجزی و انکساری کا مرقّع تھیں۔ ایک دفعہ بھارت سے کچھ خواتین ان سے ملنے آئیں، تو اُن کے ساتھ مسہری پر بیٹھنے کے بجائے فرش پر بیٹھ گئیں۔ دادی جان نے فوراً انھیں اٹھا کر گلے لگایا اور کہا کہ ’’ہم سب برابر ہیں، آئو میری مسہری پر بیٹھو۔‘‘

اسکول ٹیچر ہونے کی وجہ سے میری امّی کو ہماری دیکھ بھال کی کچھ فرصت نہیں ملتی تھی، تو دادی نے ہم سب بچّوں کی تعلیم و تربیت کا ذمّہ اپنا سر لے رکھا تھا۔ دادی جان تعلیم یافتہ نہیں تھیں، لیکن تعلیم کی اہمیت سے بخوبی واقف تھیں۔ جب مَیں نے انٹرمیڈیٹ کرلیا، تو آگے پڑھائی کی فکر ہوئی۔ بالآخر سب سے مشاورت کے بعدکراچی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا کہ وہاں یونی ورسٹیز میں تعلیمی مواقع بہت ہیں۔ اس طرح ہم سب کراچی آگئے۔ پھر جلد ہی میرے ابّو کے ساتھ میرے چچا کا ٹرانسفر بھی کراچی ہوگیا، تو زندگی خوشیوں کی راہ پہ گام زن ہوگئی۔ 

دادی جان کے سب بچّے قریب ہوگئے، تو انہوں نے سکون کا سانس لیا۔ مجھے دادی جان ہی نے یونی ورسٹی کی راہ دکھائی، جہاں سے مَیں نے اکتسابِ فیض کے بعد عملی زندگی کی کام یابیاں اپنے نام کیں۔ دادی جان بہت خود دار خاتون تھیں، کسی سے کبھی کچھ طلب نہیں کیا۔ ہمیشہ دوسروں کی مدد ہی کے لیے کمربستہ رہتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ دادی جان کی جدوجہد اور دعائوں ہی کی بدولت آج اُن کے پوتے، پوتیاں خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصّے میں اونچا سننے لگی تھیں۔ ابّو نے سننے والا آلہ لاکردیا، تو بہت دُعائیں دیں۔ وہ چچا کے پاس رہتی تھیں۔ 

شب برات کی پندرہویں شب میں اُن سے ملنے گئی، تو کم زوری و نقاہت کے عالم میں بستر پر دراز تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی اُن کے چہرے پر ایک آسودہ سی مسکراہٹ آگئی اور کہنے لگیں، ’’یہ آلہ اب تم لے جائو، مجھے اس کی ضرورت نہیں۔‘‘ یہ سُن کر مجھے ایسا لگا، جیسے کسی نے میرے دل پر گھونسا مار دیا ہو۔ میں بے ساختہ اُن سے لپٹ گئی اور آنکھیں بُری طرح برسنے لگیں، تو کہنے لگیں، ’’یاسین شریف سُنادو۔‘‘ مَیں پڑھنے لگی۔ اُسی لمحے انہوں نے کعبے کی طرف منہ کیا اور اس دارِ فانی سے کوچ کرگئیں۔ اللہ تعالیٰ میری دادی جان کی قبر کو جنّت کا باغ بناکر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ (آمین)۔ (شاہدہ ناصر، گلشن اقبال،کراچی)